Friday, October 31, 2008

تین نومبر سیاہ دور کا سیاہ اقدام پر عوام کا یوم مذمت۔ چودھری احسن پریمی اے پی ایس



جمعہ کے روز بھی حسب روایت شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے میں ٢٠ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکی جاسوس طیاروں سے یہ میزائل حملہ میر علی گاوں سے دو کلو میٹر دور عیسوڑی میں کیا گیا جبکہ حملے کے بعد وہاں کھڑی گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی۔یہ میزائل حملہ ایک مقامی قبائل کے گھر پر کیا گیا ہے۔جبکہ امریکہ بہادر نے کہا ہے کہ کسی ملک کو دہشت گردی کا خطرہ ہو تو اسے سرحد پار حملے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے سربراہ مائیکل شر ٹوف نے کہا کہ بین الا اقوامی قانون میں ایسی شق ہونا چاہیے جس کے تحت وہ ممکنہ طور پر دہشت گردی روکنے کیلیے کاروائی کر سکے چاہے یہ پیشگی حملہ ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیاہے کہ بین الاقو امی قانون میں اب یہ بات شامل کی جائے کہ خود مختاری کی ذمہ داری کے تحت کوئی ملک اپنی سرزمین سے دوسرے پر حملوں کے لیے پلیٹ فارم نہ بنے۔ ملک بھر کے عوام،وکلاءاور قاضی حسین احمد سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے عوام نے 3نومبر کو یوم سیاہ و یوم مذمت منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارشل لاءطاغوت کی ایک شکل ہے۔ قوم ہمیشہ کے لیے طے کرلے کہ فوجی حکمرانی کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اوراپنے بنیادی حقوق کا ہرقیمت پر تحفظ کرے گی۔ تبدیلی کے لیے دستوری راستہ اختیار کریںگے ۔قوم کو موجودہ عدلیہ قبول نہیں ہے، سب نے دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف اٹھایاہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی جدوجہد میں وکلا برادری کا بھرپورساتھ دیں گے۔عوامی حکومت سویلین آمریت قائم کرنے کے بجائے انصاف اور میرٹ پر عملداری کو یقینی بنائے،اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرے۔حکمران طبقے کے بیرون ملک بنکوں میں جمع30ارب ڈالر ملک واپس لائے جائیں تو معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔آئین توڑنے اور قتل عام کے جرم میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جائے اور لوٹی دولت کا حساب لیا جائے۔پرویز مشرف نے 3نومبر2007ءکوسیاہ اقدام کیا۔ پوری قوم 3نومبر کو فوجی حکمرانی اور مشرف اقدام کے خلاف یوم سیاہ و یوم مذمت مناکرفوجی قیادت کو پیغام دے۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ انگریز کی شاگرد ہے۔ جیسے ہی سیاسی جماعتیں اور عوام آزاد ہونے لگتے ہیں ملک کو فوجی غلامی کے شکنجے میں دے دیا جاتا ہے۔قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بننے کے فوری بعد سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی مہم چلائی ۔ اس مطالبے کے نتیجے میں قراردادمقاصد پاس ہوئی جس میں اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے ،لیکن اسے صرف دستور کی زینت کے لیے استعمال کیا گیااور آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔فوج جب چاہتی ہے، دستور توڑ کر ملک پر قابض ہوجاتی ہے،تمام انسانی حقوق معطل کردیے جاتے ہیں،اور دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے جو طاغوت کی ہی ایک شکل ہے۔ مارشل لا میں تمام قوانین ایک فرد کی مرضی سے بنتے اور ٹوٹتے ہیں، مارشل لا ایڈمنسٹریٹربندوق کے زور پر اپنا حکم منواتا ہے،اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ فوجی حکومت میں ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہوا۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی، یحیی خان نے اسے انجام تک پہنچایا، ضیاء الحق نے سیاچین بھارت کے حوالے کردیا جبکہ پرویز مشرف نے ملک کو معاشی بدحالی سے دوچار کیا، ایک ایٹمی مملکت کو امریکی کالونی بنادیااور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن کرکے ملکی سلامتی کے خلاف سازش کی۔انھوں نے کہا کہ فاٹا،سوات اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی پالیسی ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے جس سے حکومت اور فوج کو مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ انھوںنے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ لیا لیکن اس کی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اورامریکی مصلحتوں کی خاطر اپنی قوم کوجیٹ طیاروںسے نشانہ بنایا جارہاہے ۔ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتی ہیں اور اب بھی ان غلطیوں کو دہرایا جارہاہے،اور عوامی حکومت کا دعویدار ہونے کے باوجود عوامی احساسات کی ترجمانی نہیں کی جارہی۔ ملک و قوم کو ایک امین اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو قومی خزانے پرغریب اورمظلوم کے پہلے حق کو تسلیم کرے اور اس کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو اپنا فرض سمجھے۔ چستان میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ کوئٹہ سے زیارت تک تباہی کے آثار ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔پوری قوم کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی دل کھول کرمددکرے۔جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے پنجاب مشکل کی گھڑی میں بلوچستان کے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے 10کروڑ روپے کا چیک لے کر آئے ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید امداد بھی مہیا کریں گے۔ ضروری امدادی اشیاء پر مشتمل 50ٹرکوں کا قافلہ صوبائی وزیر سردار دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں کل یہاں پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے ‘ صورتحال کا جائزہ لینے اور امداد کی فراہمی کیلئے کوئٹہ پہنچے پر کیا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی ‘ صوبائی وزراء ،مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ سردار یعقوب ناصر اور دیگر قائدین نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقہ ضلع زیارت کا دورہ کیا جہاں انہیں پاک فوج کے ریلیف کمشنر نے اب تک متاثرین کو دی جانے والی ریلیف کے متعلق تفصیلاً بریفنگ دی ۔ میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ہم اس دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے غمزدہ بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں ۔میں نے بلوچستان کے زلزلہ زدگان کی بحالی اور ریلیف کے لئے جو اپیل کی ہے پنجاب کے عوام نے اس کا بھر پور جواب دیا ہے اور وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سینئر مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی متاثرہ بلوچی بھائیوں کی ضروریات اور انہیں ریلیف کی فراہمی کے لئے دن رات کام کر رہی ہے جس کی کاوشوںسے پنجاب سے اشیائے ضروریہ اور خوراک کی ترسیل بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جاری ہے۔ انہوں نے 10کروڑ روپے کا چیک وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پیش کرتے ہوئے کہاکہ امدادی اشیاء پر مشتمل 50 ٹرکوں کا قافلہ بھی صوبہ پنجاب سے روانہ ہو چکا ہے جو کل تک متاثرہ علاقوں میں پہنچ جائے گا۔ اس میں20 لاکھ روپے مالیت کے خیمے اور دیگر امدادی اشیاءبھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی متاثرین کو جس چیز کی ضرورت ہوگی ہم وہ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کریں گے ۔ اس موقع پر ضلعی رابطہ افسر اسفند یار نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پنجاب حکومت کی جانب سے آئے ہوئے امدادی اشیاء پر مشتمل 10 ٹرکوں کی چابیاں حوالے کیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا اس موقع پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ کی طرح مصیبت کی اس گھڑی میں صوبہ پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کی بھر پور مدد کی ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ امدادی اشیاءکی حقیقی متاثرین تک بھر پور رسائی کیلئے ایماندار اور مخلص لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاکہ انہیں امدادی اشیاءجلد از جلد فراہم ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو تمام نقصانات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں متاثرین کو بھر پور ریلیف دیاجائے گا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونے والے ’بلوچستان جرگے‘ کی اہمیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی توقعات کے منافی کسی اقدام کا ارادہ کیا گیا تو سب سے پہلے میں اس کی مخالفت کروں گا۔انھوں نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری نے مجھے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جس پر مجھے سخت حیرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے منتخب اراکین نے بلا مقابلہ جس شخص کو وزیرِاعلیٰ چنا ہے، جو صوبے کے تقریباً سو فیصد عوام کا نمائندہ ہو، اسے صوبے سے متعلق فیصلوں اور مشاورت میں شریک نہ کرنا اچنبھے کی بات ہے۔وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے عوام کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں سب سے پہلے اس کی مخالفت کروں گا۔اس استدلال پر کہ صدرزرداری کی صدارت میں ہونے والے بلوچستان جرگے کا مقصد انٹلیکچول اِن پ±ٹ (Intellectual Input) بتایا جا رہا ہے، نواب اسلم رئیسانی نے کہا تو کیا وہ ہمیں ’جاہل‘ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں صرف حکومتی نہیں صوبے کا سیاسی قائد بھی ہوں اور جسے تمام اراکین کا اعتماد حاصل ہے۔ میں فیڈرل یونٹ کی سب سے اہم سیاسی شخصیت ہوں۔ مجھے مدعو نہ کیا جانا بڑے دکھ کی بات ہے۔صوبہ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں وزیرِاعلیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی انتظامیہ دستیاب وسائل میں تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی ہے اور ہم بین الاقوامی اداروں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ، یورپی یونین، کویت، متحدہ عرب امارات، چین اور متعدد ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے امداد کی پیش کش کی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زلزلوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔اے پی ایس

امریکہ معاشی اور سیاسی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے ۔ تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس




امریکہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے آنے والے دنوں میں امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں ماندھ پڑ جائیں گی اب وہ دوسرے ملکوں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ۔ ہانگ کانگ کے معاشی تجریاتی ادارے پی ای آر سی نے دنیا میں مالیاتی بحران کا محور امریکہ کو قرار دیتے ہوئے ۔ 16 ملکوں کے جائزے کے بعدعالمی مالیاتی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بھارت ‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ 2009 ء میں انتہائی سیاسی اور معاشرتی خطروں سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں جس کی اہم وجہ داخلی عدم استحکام ہے ۔ تجزیے کے اس پیمانے میں معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بہترین حالت والے ملک کو صفر اور انتہائی خطرے والے ملک کو 10 نمبر دیا گیا ہے ۔ بھارت کا سکور 6.87 ء ہے جس میں آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت پسندانہ حملوں کے اندیشوں کو شامل رکھا گیا ہے ۔ مالیاتی بحران کا بھارت ‘ ملائیشیاءاور تھائی لینڈ پر بہت زیادہ خراب اثر نہیں پڑے گا لیکن عالمی اقتصادی طوفان ان ملکوں میں داخلی صورت حال بد سے بدتر بنا سکتا ہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے بھارتی کشش آئندہ انتخابات میں کوئی بھی کامیاب ہو ‘ برقرار رہے گی ۔ پی ای آر سی کے مینجنگ ڈائریکٹر رابرٹ بروڈفٹ نے کہا ہے کہ بھارت ‘ تھائی لینڈ اور ملائیشیا کو عالمی مالیاتی بحران سے اتنا خطرہ نہیں جتنا انہیں داخلی محاذ پرہے ۔ تھائی لینڈ 6.87 ءسکور کے ساتھ دوسری پوزیشن پرہے جہاں موجودہ سیاسی اتھل 2009 ء میں ملک کے کلیدی اداروں کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے ۔ ملائیشیاء خطرے سے دوچار ملکوں میں تیسرے پوزیشن پر ہے جہاں سیاسی اقتدار کی جدوجہد ‘ نسلی اور مذہبی تناو¿ کو بڑھا رہی ہے جاپان ‘ ہانگ کانگ ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا انتہائی مستحکم اور بہت کم سیاسی خطرے سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں لیکن 2009 ء میں ان کی معیشت عالمی مالیاتی بحران کی زد میں آسکتی ہے ۔ امریکہ کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ مالیاتی بحران کا محور ہے اور اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں پہلے کے مقابلے میں ماند پڑ سکتی ہیں اور دوسرے ملکون پر اپنے خیالات و نظریات مسلط کرنے کے معاملے میں پہلے کی طرح جارح نہیں رہ پائے گا ۔ اور ایشیاء میں وہ جاپان ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا چین کی پوزیشن 5.33 ء بتائی گئی ہے جس کے لئے 2009 ءآسان نہیں ہو گا اور ایکسپورٹ مارکیٹ کمزور پڑنے کی وجہ سے اسے اپنی اقتصادی سرگرمی اور داخلی مانگ سے نمٹنے میں دشواری پیش آئے گی اور اوسطاً چینی عوام اپنے اخراجات کے تئیں محتاط ہو جائیں گے۔جبکہ امریکی کریڈیٹ بحران کے باعث پاکستانی برآمدات پر بھی ممکنہ طور پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔آج سے تقریباًتیرہ برس قبل جے پی مورگن نے ایک فنانشل ایجاد کریڈیٹ دیفالٹ سویپ کا پہلا سودا متعارف کروایا اور اس انسٹرومنٹ کے بازار کا حجم2007ء کے وسط تک 45کھرب ڈالر ہو گیا ۔یہی وہ فنانشل انسٹرومنٹ ہے جس نے سب پرائم مورٹ گیج بحران کے اثرات کو پھیلانے میں چین کا کام کیا اور اب اس بحران سے امریکی معیشت میں آنے والا سلو ڈاو¿ن معیشت کو ریسیشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے،چونکہ امریکا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے اس لئے وہ ممالک جو امریکا سے تجارت کرتے ہیں امریکی طلب میں کمی کے نتیجے میں بحران کی زد میں یا تو آچکے ہیں یا آئیں گے۔پاکستانی تاجر کہتے ہیں کہ انہیں امریکی کسٹمرز نے خطوط لکھنا شروع کر دیئے ہیں کہ وہ اپنا مال یا تو روک لیں یا اس میں کمی کریں جبکہ دوسری طرف کچھ تجزیہ کاروں کا نقطہ نظر قدرے مختلف ہے۔ان کا خیال ہے کہ امریکی کریڈیٹ بحران ابھی ان کے منیو فیکچرنگ سیکٹر میں داخل نہیں ہوا لیکن جب یہ سیکٹرمتاثر ہوا تو اس کے اثرات پاکستانی برآمدات پر پڑیں گے۔واضح رہے کہ پاکستان کی امریکا کو کی جانے والی برآمدات کا حجم کل برآمدات کے پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔عالمگیر سطح پر امریکی ہتھیاروں کی معاملتوں میں گزشتہ ال تقریباً پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 2006ءمیں 16.7 بلین ڈالرز سے بڑھ کر 24.8 بلین ڈالرز ہو گئے ۔ امریکی کانگریس کے لیے نئی جاری کردہ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔ 2007ء میں امریکہ میں اس طرح کے معاہدے 41.5 فیصد ہو گئے۔ اس کے بعد 17.3 فیصد کے ساتھ 10.3 بلین ڈالرز کا روس کا نمبر ہے ۔ کانگریشنل ریسرچ سروس نے مورخہ 23 اکتوبر کی اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ بات کہی۔ اس کے بعد برطانیہ کا تیسرا نمبر ہے جس کے اسلحہ کے معاملت کی لاگت 9.8 بلین ڈالرز ہے جبکہ 2006 میں 4.1 بلین ڈالرز تھی۔ رپورٹ جس کا عنوان ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی روایتی منتقلی 2006-2007 ء سے ہے یہ بات کہی گئی ہے جس کی بنیاد غیر مصرحہ امریکی حکومت کے غیر درجہ بندی ڈاٹا پر ہے ۔ گزشتہ سال امریکی اسلحہ کی معاملتوں میں 48.5 فیصد اچھال آیا تھا جو مستقبل کی پیش قیاسی کے لیے ایک چوٹی کا نشانہ ہو سکتا ہے کیونکہ معاشی دشواریوں کا بڑے خریداروں کو سامنا ہے ۔ رپورٹ کے مصنف رچرڈگر یمنٹ نے مزید یہ کہا ہے کہ اس کے علاوہ یہ امریکہ کا مکمل مظہر ہے یعنی مستحکم دفاعی انتظامات سے فائدہ اٹھانا جس کی بنیاد امریکہ ہتھیاروں کے رینج پر ہے جو دنیا بھر کی ملٹریز کے ساتھ پہلے سے ہی زیر استعمال ہے ۔ معاملت جس پر 2007 ء پر دستخط کی گئی تھی ۔ اس میں یہ صرف بڑے ہتھیار شامل ہیں بلکہ سابق میں فروخت شدہ ہتھیاروں کی جدید کاری کے ساتھ ہوئے معاہدے بھی ہیں جو فاضل پرزوں کے ایک وسیع تر رینج سے متعلق ہیں۔ گولہ بارود، آرڈنینس ٹریننگ اور سپورٹ سروس ان میں سے ہیں۔ 2007 ءمیں ترقی پذیر خریداریوں میں سعودی عرب سے سے بڑا خریدار ہے جس کی اسلحہ کی معاملتوں میں 10.6 بلین ڈالرز کی معاملتیں شامل ہیں۔ جبکہ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر پاکستان کو دوست ممالک سے امداد ملی تو آئی ایم ایف کی شرائط سے بچ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پیش کردہ شرائط پر غور کیا جا نا ناگزیر ہے اگرچہ عوام اس حق میں نہیں کہ پاکستان مزید مقروض ہو اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو ٹیکسوں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑے۔ اگرچہ فرینڈز آف پاکستان اس بحران سے نکلنے کے لیے پیکیج تیار کررہا ہے۔جبکہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوست ممالک نے فوری مددکی تو ہمیں شاید آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت نہ رہے۔وزیر اعظم نے اس افواہ کومسترد کردیا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرے ہے۔پاکستانی علاقوں پر امریکی فوج کے حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا ک ہے کہ قبائلی علاقوں پر امریکی حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے نقصان دہ ہیں اوراس سے کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اپنے ملک پر امریکی فوج کے حملوں سے نا خوش ہیں اور ان حملوں کو ملک کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سمجھتے ہیں۔جبکہ ملک بھر کے وکلاء 3نومبر کو ملک بھر میں ” یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں شاہراہ دستور سمیت تمام بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی اور دو گھنٹے کیلئے دھرنے دیئے جائیں گے جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس روز راولپنڈی بار سے خطاب میں اہم انکشافات کریں گے۔ 3نومبر 2007کو ملک کی آزاد عدلیہ پر وار کرنے والے مجرموں کا آج تک احتساب نہیں کیا گیا۔ جبکہ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاءتحریک نے گذشتہ ایک سال میں کئی کامیابیاں حاصل کیں جن میں 18فروری کے انتخابات میں عوام کا پرویز مشرف کے حامیوں کو مسترد کرنا اور آمر کی ایوان صدر سے رخصتی بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت معزول ججوں کی بحالی کا تحریری معاہدہ ہوا جس پر موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری میاں نواز شریف اسفندیار ولی مولانا فضل الرحمن اور منیر اورکزئی کے دستخط موجود ہیں۔ 3نومبر کو پاکستان میں عدلیہ پر گھناو¿نے اور مہلک وار کی برسی ہے۔وکلاءاس دن کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے ، احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی ۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے کانوں میں محترمہ شہید کا 10نومبر 2007ءکا اعلان ضرور گونج رہا ہوگا جس میں انہوںنے کہا تھاکہ جسٹس افتخار چودھری میرے اور پاکستان کے چیف جسٹس ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد میں خود ان کی رہائشگاہ پر پاکستان کا جھنڈا لہراوں گی۔ تین نومبر کو معزول چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بار سے خطاب کریں گے جس میں وہ اہم پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھائیں گے جو آج تک ان کے سینے میں دفن ہیں ۔خوفناک زلزلہ کے باعث بلوچستان کوتین نومبر کے پروگرام سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔باقی تینوں صوبوں کے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ دو گھنٹے کا دھرنا بھی دیا جائے گاجبکہ 8نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری گوجرانوالہ ڈویڑن کے وکلاءکنونشن سے خطاب کیلئے براستہ جی ٹی روڈ سیالکوٹ جائیں گے ۔تمام راستے ہر شہر میں ان کا بھرپور استقبال کیا جائے گا۔جبکہ 15نومبر کو معزول چیف جسٹس نیویارک جائیں گے جہاں پاکستانی اور امریکی عوام اور وکلاءان کا بھرپور استقبال کریں گے ۔17نومبر کو نیویارک بار چیف جسٹس کو تاحیات اعزازی ممبر شپ دے گی ۔18نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری نیویارک کے ایک لاءکالج میں لیکچر دیں گے جبکہ 19نومبر کو ہاورڈ یونیورسٹی کی جانب سے معزول چیف جسٹس کو ”میڈل آف فریڈم “دیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی 360سالہ تاریخ میں یہ میڈل اس سے پہلے امریکی وکیل تھروکٹ مارشل جو بعد میں سپریم کورٹ آف امریکہ کے جج بھی بنے انہیں اور جنوبی افریقہ کے سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا کو دیا گیا ہے ۔چیف جسٹس تیسرے شخص ہیں جنہیں یہ میڈل دیا جارہا ہے۔ اے پی ایس

قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ غیر تہذیب یافتہ عالمی طاقتیں۔تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس





معلوم ہوا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی خاموش سفارتی کوششوں سے سعودی عربیہ ، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر ، مراکش ، سوڈان، ترکی، تیونس، یمن ، سمیت یورپی ممالک، کینڈا، آسٹریلیا ، جرمنی، فرانس، برازیل، ڈنمارک و جاپان ، چین، تھائی لینڈ ، برطانیہ ، ایران نے پاکستان میں معاشی خوشحالی لانے کے لئے فوری امداد کا یقین دلایا ہے ۔امریکا کے دورے سے واپسی کے بعد آصف زرداری نے تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں پاکستان کی معیشت کو بچانے کیلئے خود رابطے کرنا پڑیں گے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے پیٹرول کے علاوہ پاکستان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے بھی امداد کا یقین دلایا ہے ۔صدر زرداری کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر شاہ عبداللہ پاکستانی عوام کو بڑی امداد کی خوش خبری دیں گے ۔ ادھر جرمنی ، فرانس، برطانیہ، چین اور جاپان نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کا ہر ممکن یقین دلایا ہے اگلے چند ہفتوں میں ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے لئے امداد آنے کی امید ہے ایران نے بھی پیٹرول اور بجلی تین برسوں تک اسلامی بھائی چارے کے تحت تحفتاً دینے کا وعدہ کیا ہے صدرآصف زرداری کا اس حوالے سے یہ اقدام خوش آئند ہے جبکہ عوام نے صدر آصف زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ وطن عزیز جو اس وقت ایک خوفناک معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ قومی بچت میں کفایت شعاری کرنے سے بھی کا فی بچت ہوسکتی ہے اور اس ضمن میں ضروری ہے کہ تمام اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کی بھاری بھرکم تنخوا ہوں کو کم کر کے پانچ ہزار اعزازیہ مقرر کر دیا جا ئے۔اگرقومی مفاد میںیہ بات کسی پارلیمنٹرین کو ناگوار گذرتی ہے تو اس کو ہٹا کر کسی دوسرے رضا کار ممبران کی خدمات حاصل کی جا ئیں۔کیونکہ ایک طرف ٹیکسوں کی مد اور مہنگائی کی شکل میں عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہما رے پارلیمنٹرین قومی خزانے سے کروڑوں روپے اپنی تنخواہوں،الائونس،اور مراعات کی شکل میں حا صل کر رہے ہیں۔عوام کا خیال ہے کہ ہمارے پا رلیمنٹرین کے اور بھی دولت کمانے کے دھندے کا فی ہیں کیونکہ ان میں اکثریت امیر ترین جا گیر داروں،اور ملک بھر کے ٹاپ صنعتکاروں کی ہے۔اس لحاظ سے ان کا بھو کے مرنے کا کوئی خدشہ نہیں جب کہ دوسری طرف عوام جن سے یہ ووٹ لیکر آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں البتہ وہ ضرور بھو ک اور فا قہ کشی سے مر رہی ہے۔نیز صدر پاکستان آصف زرادری سے یہ بھی گذارش ہے کہ ملک بھر سے کروڑوں روپیہ روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں موجود موبائل کمپنیاں جھا ڑوں لگا کر اکٹھا کر رہی ہیں کیا ایسا ممکن ہے آپ کی حکومت بھی ایک کھمبا اور ایک ڈبہ بنا نے کا حکم دے کر اس صنعت میں خود کفیل ہوجا ئے اور پہلے سے موجود مو بائل کمپنیوں کو خبردار کر دیا جا ئے کہ آپ کا آیندہ ری کنٹر یکٹ لا ئسنس نہیں ہوگا اور اپنا بندو بست کر یں۔امید ہے کہ ایسا کر نے سے مزید آپ کو وطن عزیز کیلئے دربدر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔سننے میں یہی آیا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں ما ہانہ کروڑوں رو پے ادا کر تی رہی ہیں اور اس کے عوض ملک کی اندرونی معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔جبکہ ملکی معشیت کو مزید بہتر بنا نے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجا رہ اداری ختم کی جا ئے۔ہمارے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ ہمارا ہی پینے کا پا نی ہمارے آگے سیل کررہی ہیں۔بات کرنے کا مقصد وہ ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے کسی حکمران نے کبھی اس غرض سے بیرونی دورہ نہیں کیا کہ جس میں اسکا یہ ایجنڈا ہو کہ کسی قسم کی بھی ٹیکنا لو جی میں خود کفیل ہوا جا ئے ہر ایک کا اپنا ایجنڈا رہا ہے کہ ملک و قوم کے نام پر لوٹنا کس طرح ہے اور ذاتی کاروبار کس طرح چمکانا ہے۔جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور نے کہا ہے کہ شوکت عزیز اور ان کی اقتصادی ٹیم موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار ہے، انہیں اور ان کی ٹیم کو طلب کیا جائے،اور 2003ءسے 2005ء کے درمیان پیدا ہونے والے اسٹاک مارکیٹ بحران کی ازسرنو تحقیقات کی جائیں، مشیر خزانہ نے یقین دلایا ہے کہ حکومت معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور ترقیاتی پروگرام کے لیے رقم نہیں موجودہ بجٹ غلط ہے، 2 سال کے اندر اندر ملک بحران سے نکل آئے گا، افراط زر کی شرح میں کمی زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنایا جائیگا، ملک 70 کھرب روپے کا مقروض ہے، زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت ساڑھے 7ارب ڈالر ہیں، آئی ایم ایف سے مالی امداد اپنی شرائط پر لیں گے، انہوں نے کہاکہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے صورتحال کو درست کر لیا جائیگا،قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاو¿س میں چیئرپرسن فوزیہ وہاب کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین اور کمیٹی کے اراکین عبدالرشید گوڈیل، محمد جمیل ملک، خواجہ محمد آصف، مخدوم فیصل صالح حیات، قیصر اورکزئی، ریاض فتیانہ، محمد افضل سندھو، کشمالہ طارق، بشریٰ گوہر، نگہت پروین، خالدہ صفدر اور شہناز وزیر علی کے علاوہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا مکمل جائزہ پیش کیا اور ارکان کے مختلف سوالات کے جواب دیے، کشمالہ طارق ، خواجہ محمد آصف اور دیگر ارکان نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر خزانہ عمر ایوب، ڈاکٹر سلمان شاہ اور ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا، کشمالہ طارق نے کہا ہے شوکت عزیز کو اجلاس میں طلب کیا جانا چاہئے تاکہ وہ معیشت کے اس نوبت تک پہنچنے کی وجوہات بتائیں، مخدوم فیصل صالح حیات نے کہا کہ شوکت عزیز کے ساتھ ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو بلایا جائے۔جہاں تک شوکت عزیز اور ان کی ٹیم کا تعلق ہے تو شوکت عزیز ہی اس وقت فرار ہیں اگر وہ آ بھی جا ئیں تو وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی ٹیم ادھر ہی ہے سیاسی لوگ ایوانوںمیں جبکہ ان کے دور کے ایڈوائزر اور افسر شاہی سارے اپنی اپنی سیٹوں پر ریڈ ٹائی لگا کر کام کر رہے ہیں وہ کیا کا م کر رہے یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا لیکن تنخواہیں ضرور وصول کر رہے ہیں۔انھوں نے پاکستانی معشیعت کا بیڑا غرق کیوں کیا یہ سوال ہم ان سے اس لئے نہیں پوچھ سکتے کیونکہ وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہیں۔جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور کسی دو چار بڑے مگر مچھوں کو قو می خزانہ لوٹنے پر پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے سرعام لائیو کوریج کے ساتھ کر نیوں سے فضا میں لٹکا کر پھا نسی نہیں دی جا تی کو ئی بھی قومی اقتصادی ڈاکو عبرت نہیں پکڑے گا۔کیونکہ اس وقت قوم کے مجرم طاقت ور ہیں جبکہ ان کی رعایا بے بس ہے۔جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قرار دیا گیا آزاد منش، لائق ، غیر جانبدار ججوں پر مشتمل عدلیہ ہی انصاف فراہم کرتی ہے ، آئین کی حکمرانی پر عمل پیرا قومیں ہی معاشی وسماجی ترقی کرتی ہیں، وکلاءاور قوم اس ملک میں آزاد عدلیہ کے قیام کیلئے ایک تاریخی جدوجہد کر رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب وکلاءاور پوری قوم کاآزاد عدلیہ کا خواب پورا ہوگا۔پاکستان اس حوالے سے اپنے سیاسی اداروں کو جمہوریت کے راستے پر چلانے اور آئین کے استحکام کے لئے بہت زیادہ خوش قسمت نہیں ہے اس ملک کی تاریخ مختلف ہے، یہاں کئی آئینی بحران آئے ، فوج کی دخل اندازی سے آئین منسوخ یا معطل کیا گیا، پارلیمنٹ تحلیل اور حکومت برطرف رہی، یہ غیر آئینی اقدامات سپریم کورٹ کے لئے چیلنج تھے، اس عدالت کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، ان فیصلوں نے عام طور پر فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قراردیا،ایک ایکشن اوورایکشن انقلابی جواز کی ڈاکٹرائن کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا جبکہ ایک دوسرا ایکشن نظریہ ضرورت کے تحت حق بجانب قرار دیا لہٰذا یہاں تواتر سے آئین و قانونی حکمرانی میں وقفے آئے اور جمہوریت متعدد بار انتشار کا شکار رہی یکے بعد دیگرے بننے والے دستایر اور خاص طور پر 1973 کا آئین جو موجودہ اعلیٰ ترین قانون ہے وہ آزاد عدلیہ فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کو ایک وفاق قرار دیتا ہے، نگرانی توازن کے تحت اختیارات کی علیحدگی فراہم کرتا ۔اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک کی معزول ججوں کی بحالی کیلئے مذاکرات کی دعوت کے بارے میں ساتھیوں کی مشاورت کے بعد اپنا فیصلہ سامنے لائیں گے۔ علی احمد کرد اور ان کے ساتھیوں کو اسی ”ون پوائنٹ ایجنڈہ“ پر ووٹ ملے ہیں اوران کی پہلی ترجیح اسی ایک نکاتی ایجنڈہ کا حصول ہے۔وہ آئندہ تین چار روز میں نو منتخب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اجلاس اسلام آباد میں بلا رہے ہیں جس میں وہ اس دعوت کو زیر غور لائیں گے اور اس موضوع پر مشاورت کریں گے۔ خوبصورت مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی معاملہ پر دعوت پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں اور تحریک میں شامل دوستوں سے مشاورت کی جائے۔ ملک بھر میں جاری اس بڑی تحریک میں شامل لوگوں کو بڑی توقعات وابستہ ہیں اور یہی طریقہ کار ہوا چاہیے کہ سب سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔پاکستان کے عوام کیلئے عالمی برادری اور ترقی یافتہ مما لک کا غیر تہذیب یافتہ چہرہ جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ مما لک جنھیں تیسری دنیا کے مما لک اور اس کے عوام نے مہذب مما لک سمجھا ہوا ہے وہ ان کا دہرا معیار ہے۔اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے کہ عالمی برادری نے معزول ججز کو بحال نہ کر نے کی موجودہ حکومت سے ضمانتلی ہوئی ہے۔جس کا اعتراف موجودہ حکومت بھی کئی ایک دفعہ کر چکی ہے۔لہذا پاکستان میں قا نون کی حکمرانی کے نفاذ میں سب سے بڑی رکا وٹ غیر تہذب یا فتہ عالمی برادری ہے وہی نہیں چا ہتی کہ معزول چیف جسٹس بحال ہوں۔اسے خدشہ ہے کہ قانون کی حکمرانی سے سابقہ کسی حکمران کو عبرت کا نشان بنا یا گیا تو آئندہ پاکستان میں کو ئی بھی حکمران اس کا آلہ کا ر بن کر اسلام، پاکستان اور اس کے عوام دشمن پالیسیوں پر عمل کر کے ان طا قتوں کے مفادات کیلئے کام نہیں کرے گا۔اے پی ایس

Thursday, October 30, 2008

امریکہ غیر تہذیب یا فتہ ۔بر طانوی نو مسلم صحافی کی گفتگو ۔تحریر: چودھری احسن پریمی




طالبان کی قید سے رہا ہو کر اسلام قبول کرنے والی برطانوی صحافی یان ریڈلی نے پاکستانی قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان میں بگرام ایئر بیس پر قائم امریکی قید خانے میں قیدی مسلمان خواتین کی رہائی کے لیے امریکہ پر دباو ڈالیں۔ امریکی سفیر کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ افغانستان میں امریکی جیل میں قید مسلمان خواتین کے حوالے سے میرے دعووں کو غلط ثابت کریں ۔مسلم برطانوی صحافی یان ریڈلی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے بگرام ایئر بیس پر امریکی قید خانے میں اب بھی مسلمان خواتین موجود ہیں پاکستانی قوم ان کی رہائی کے لیے میرے ساتھ مل کر آواز بلند کرے تاکہ امریکہ پر ان کی رہائی کے لیے دباو بڑھایا جا سکے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی قید خانے میں قید خواتین کا تعلق پاکستان اور عرب ممالک سے ہے ۔ افغانستان میں اس وقت 150 پاکستانی بچے بھی موجود ہیں جن کو پاکستان سے اغواءکرے وہاں پر لے جایا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں بڑی تعداد میں خفیہ اداروں نے امریکی اداروں کے ساتھ خفیہ آپریشن کر کے پاکستانی مرد و خواتین اور بچوں کو اغواءکر کے امریکہ کے ہاتھوں پانچ ، پانچ ہزار ڈالر میں فروخت کیا ہے ۔یہ پاکستان کی عزت ہیں اور اگرامریکہ سے 150 بچوں اور خواتین کو اغواءکر لیا جائے تو آپ سوچیں کہ امریکیوں کا کیا رد عمل ہو گیا اسی طرح سے پاکستانی قوم کو بھی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان مسلمانوں کی رہائی کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے ۔برطانوی صحافی مزید کہا ہے کہ میں جو باتیں کر رہی ہوں ثبوت کی بنیاد پر ہی کر رہی ہوں کیونکہ میں نے 30 سال تک انسویسٹی گیٹنگ رپورٹنگ کی ہے ۔ میں امریکہ کو موقع دینا چاہتی ہوں کہ وہ ان خواتین اور بچوں کو رہا کر دے ورنہ پھر میں تمام ثبوت دنیا کے سامنے لاو¿ں گی میرے پاس اس حوالے سے ثبوت کے طور پر ویڈیو بھی موجود ہے افغانستان کے بگرام ایئر بیس پر قید ی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں بلکہ اور خاتون تھی جواب بھی دوسری مسلمان خواتین کے ساتھ وہاں پر قید ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو قید خانوں میں بند کر رکھا ہے اور پاکستان کے اندر بھی ایسے خفیہ قید خانے موجود ہیں جہاں پر پاکستانیوں کو قید رکھا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ موجودہ حکومت ڈاکٹر عافیہ سمیت دیگر خواتین کی رہائی کے لیے امریکہ پر کوئی دباو¿ ڈال رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صحافی برادری پاکستان میں امریکی سفیر کو بلائے اور اس سے سوالات کرے امریکی سفیر بھی صحافیوں کو بلائیں اور اگر ان خواتین قیدیوں کے حوالے سے میرے دعو ے درست نہیں ہیں تو انہیں غلط ثابت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی قید میں میں نے ایک عرصہ گزارا اور پھر طالبان نے مجھے انسانی ہمددری کی بنیاد پر رہا کر دیا اور رہائی کے بعد میں نے اسلام قبول کیا انہوں نے میرے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا لیکن امریکہ جو اپنے آپ کو تہذیب یافتہ قوم کہتا ہے دیکھے کہ وہ خواتین قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے اس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ کیا کیا۔میں پاکستانی قوم سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بھی ان کے ساتھ مل کر امریکہ پر ان مسلمان خواتین اور بچوں کی رہائی کے لیے دباو ڈالے۔قبل ازیںبرطانیہ کی معروف صحافی ایوان ریڈلی نے کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ممتاز احمد بھٹی سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ پاکستان میں کالمسٹ ایسوسی ایشن کا قیام اچھا فیصلہ ہے۔ کالم نگار کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کا صحافت میں اہم کردار ہے۔ کالمسٹ ایسوسی ایشن کو افغانستان اور گوانتانامو میں غیر قانونی قید اور لاپتہ افراد کے لئے قلم اٹھانا چاہیے کیونکہ میڈیا کی ہی طاقت تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی منظر عام پر لائی گئی ورنہ اس کو خفیہ طریقے سے قید میں رکھا ہوا تھا اور اذیتیں دی جارہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ قیدی نمبر650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں۔ کوئی اور قیدی ہے۔ جس کے لئے کالمسٹ ایسو سی ایشن کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔اس موقع پر صدر کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان ممتاز احمد بھٹی نے ریڈ لی کو کالمسٹ ایسوسی ایشن کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور کہا کہ کالمسٹ ایسوسی ایشن ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دے گی اور ظالم کے سامنے کھڑی ہوگی۔اے پی ایس

مسئلہ رویوں کا ہے ۔ قول وفعل کے تضاد سے معاملات حل نہیں ہوتے ۔تحریر: چودھری احسن پریمی



خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ ایک روزمیں آئی ایم ایف پاکستان کے مالیاتی نظام کا کنٹرول حاصل کر سکتا ہے واردات ہو گئی تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ۔حکومت ایشوز کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ چار ماہ تک تو وزیر خزانہ کا فیصلہ نہ ہو سکا ۔ سترہ ارب ادھار پر مشیر خزانہ کو منگوایا گیا ہے ۔ جو آئی ایم ایف کو پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں رپورٹس آئی ہیں کہ آئندہ ایک روزمیں آئی ایم ایف پاکستان کے مالیاتی نظام کا کنٹرول سنبھال لے گی ۔ جبکہ سینٹر کامل علی آغا نے سینٹ میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکج کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر اسے قبول نہ کیا جائے ۔ پارلیمنٹ اسے مسترد کردے تو آئی ایم ایف سے پیکج نہ لیا جائے ۔ دادو شوگر مل کی نجکاری کو روکا جائے ہم قطعا اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں قادر پور گیس فیلڈ کی نجکاری کے ایشو کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے ۔نیشنل بنک کے 26 فیصد شیئرز کسی اور ملک کو فروخت کرنے کے بارے میں بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے ۔ ان ایشوز کو فوری طورپر ایوان میں لایا جائے ۔ کے ای ایس سی کی دوبارہ نیلامی کا خدشہ ہے ۔ یہ وارداتیں ہوگئیں تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے جو نظر آرہا ہے ۔جبکہ سینٹ میں صدارتی انتخاب پر بحث کے دوران اپوزیشن نے ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات میں توازن پیدا کرنے کے لیے سترہویں ترمیم کی منسوخی کے لیے تعاون کی پیش کش کردی ہے اس ضمن میں حکومت نے عزم کیا ہے کہ پارلیمنٹ سے نہیں بھاگیں گے آئین قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر میثاق جمہوریت پرعملدرآمد کو ممکن بنایا جائے ۔ سترہویں ترمیم کے حوالے سے جلد پارلیمانی کمیٹی قائم ہو جائے گی۔ ایوان میں مختلف اراکین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قائد ایوان رضا ربانی نے کہا کہ استحکام اتحادی حکومت ، جمہوریت اور میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا پختہ عزم کیے ہوئے ہے حکومت تمام قوتوں کو ساتھ لے کر اس پر عملدرامد کریںگے۔ 17 ویں ترمیم کے حوالے سے بھی جلد کمیٹی قائم ہو جائے گی ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اس ایوان میں وزیر خارجہ نے پالیسی بیان دیا ہے مشترکہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے ساتھ متفقہ قرار داد منظور ہوئی ہم پارلیمنٹ سے بھاگنے والے نہیں ہیں ۔ پارلیمنٹ ہی قانون سازی میں حکومت کی رہنمائی کرے گی انہوں نے کہاکہ خیر پور میںا یک لڑکی کے بہیمانہ قتل میں ملوث مجرمان کو ضرور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔قبل ازیں صدارتی خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ ملک میں امن وامان کا بحران ہے قانون اور آئین کی حکمرانی سے مخدوش حالات سے نجات حاصل ہو سکتی ہے میثاق جمہوریت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے آرمی ایکٹ میں مشرف دور میں ترامیم ہوئی ہیں انہیں منسوخ نہیں کِیا گیا اس ایکٹ کے تحت سویلین کو بھی فوجی عدالتوں میں طلب کیا جا سکتا ۔ پارلیمنٹ کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا ۔ سارا نظام آئین کے منافی چل رہا ہے جب تک 3 نومبر 2007 ء کے اقدامات کو پارلیمنٹ آئینی یا غیر آئینی قرار نہیں دیتا آئین بحال نہیں ہوا ۔ریاستی ستون عدلیہ موجود ہی نہیں ہے ۔ عدلیہ کی بحالی اولین بات ہے باقی معاملات ضمنی ہیں صدر نے اپنے خطاب میں ان امور کے بارے میں بات نہیں کی ۔ آئین کو بحال اور پارلیمنٹ کے اختیارات بحال کیے جائیں ورنہ ہم ڈوب رہے ہیں یہ حکومت بھی نہیں رہے گی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے ۔ قادر پور گیس فیلڈ کی نجکاری نہ کی جائے ۔ منافع بخش ادارہ ہے ۔ حکومت کراچی سٹیل ملز کی نجکاری کی منسوخی کو مدنظر رکھے حکومت کی جانب سے نیشنل بنک کے 26 فیصد حصص چین کو فروخت کرنا غیر آئینی ہے مسئلہ رویوں کا ہے ۔ قول وفعل کے تضاد کی وجہ سے معاملات حل نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی طورپر تبدیلیوں کی ضرورتہے ۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے ان وعدوں کو پورا نہیں کیا جاتاسب کی خواہش ہے کہ پی پی پی نے جو پلان دئیے انہیں پورا کیا جائے ۔ سیاسی قیادت اپنے اندر تبدیلیاں لائے ۔ منافقت اور جھوٹ سے گریز کیا جائے ۔ تمام امور کاپارلیمنٹ میں آنا خوش آئند ہے ا۔سلام آباد میں جی ایچ کیو کی تعمیر کو روکنا خوس آئند ہے لیکن حکومت بھی اپنے اخراجات میں کمی کرے ۔مختلف علاقوں میں بمباری کا سلسلہ جاری ہے ۔ سوات میں فوجی کارروائی کے خلاف شدید ردعمل ہے ۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام میں سانحہ مشرقی پاکستان سے زیادہ نفرت ہے ۔ یہ کیسی پارلیمنٹ کی بالادستی ہے کہ اب تک قبائلی علاقوں میں حکومتی اجازت سے آپریشن جاری ہے اگرچہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات ضروری ہے ملک کو بچانے کے لیے اس دہشت گردی کے فتنے کو کچلنا ہو گابلوچستان کے مسائل کا حل ترجیحات میں شامل کیا جائے ملک میں خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں تاہم پاکستانی خاتون کو وہ حقوق نہیں چاہیے جن سے مغرب میں خواتین کونوازا جا رہا ہے مغرب میں زیادتی کا نشانہ بننے کی وجہ سے امریکی خواتین نے صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن کو ووٹ نہیں دئیے معاشرتی اقدار کا تحفظ کیا جائے۔جبکہ مغربی ممالک اورڈبلیو ٹی او نے ایک بار پھر تیسری دنیا پر دوہا راو¿نڈ منظورکرنے کے لئے دباو¿ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔یہ ممالک سینکڑوںسال سے جاری مقامی معاشی نظاموں کوختم کر کے ایسے نظام کا نفازچاہتے ہیں جس کے زریعے ان کی آمدنی میں دنیا کے غریب ممالک کی قیمت پر اضافہ ہو۔اس نظام سے انسانیت کی ترقی نہیں بلکہ تنزلی ہو رہی ہے اور انسانی المیے جنم لے رہے ہیں یہ بحث جاری ہے کہ آزادانہ تجارت ملکوں کی معیشت کے لئے فائدہ مند ہے یا مہلک۔ اس کے منفی اثرات پر تحقیق مکمل ہونے سے قبل اسے قبول کرنے کے لئے ترقی پزیر ممالک پر دباو¿ ڈالناغلط ہے۔تیسری دنیا کے ممالک اسے اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ برازیل چین، ارجنٹینا اوربھارت و غیرہ اس مخالفت میں سب سے آگے ہیںکیونکہ وہ اسے ترقی پزیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کا ایجنڈا سمجھتے ہیں۔ غریب ممالک کی صنعت اور زراعت اس قابل نہیں کہ بین الاقوامی معاشی جھٹکے برداشت کر سکیں۔اس نظام میں کئی بنیادی خرابیاں ہیں جن میں ہر قیمت پر شرح نمو اور غیر ضروری اشیاءکا استعمال بڑھانا ہے اورعوام کو صرف کنزیومر سمجھنا ہے جس سے وسائل کا ضیاں اور ماحول تباہ ہو رہا ہے اور معاشی عدم استحکام میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ڈبلیو ٹی او کا سارا زور ڈی ریگولیشن، انفارمیشن اور کمیونیکیشن پر ہے اس لئے ان ممالک میںجہاں تعلیم یا انگریزی سے واقفیت کم ہے امیر اور غریب کے فرق میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔آئی پی آر Intellectual Property Rights کے نام پر امیر ممالک اور انکی کارپوریشنوں کے مفادات کا غیر ضروری تحفظ کیا جا رہا ہے ۔ غریب ممالک کا صدیوں کے تجربات پر محیط علم و ہنرچھیناجا رہا ہے اور انکی ایجادات کو ہتھیایا جا رہا ہے جس سے ان ممالک میں غربت اور جہالت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان کا مقصد اپنے علاوہ دوسروں کی ہر چیز کو discredit کرنا ہے جس میں یہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور تیسری دنیا کے عوام کی اکثریت کو اپنے wisdomپر اعتبار ہی نہیں رہا ہے۔ساری دنیا پر مغربی کلچر زبردستی نافذکیاجا رہا ہے۔ مغربی ممالک تیسری دنیا میں ایسی سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس سے ماحولیات ،صحت عامہ اور دیگر سنگین مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔۔گزشتہ کئی دہائیوں سے دینا میں بے روزگاری، جرائم،بیماریوں،سیا سی بے چینی، آلودگی وغیرہ میں اضافہ کے زمہ دار یہی قوانین ہیں اوران کا دیگر ممالک تک پھیلاو عالمی مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ڈبلیو ٹی او پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور یہ ادارہ غذائی بحران کابھی ذ مہ دار ہے اور اس کا شفافیت وجمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان اکا نومی واچ کے صدر داکٹر مرتضی مغل نے یہ بھی کہا ہے کہ اس تجارتی نظام میں ہر ملک کا ایک ووٹ ہے مگر طاقتور ممالک غیر تحریری برتری حاصل ہے اورسارے فیصلے خفیہ میٹنگوں میںڈکٹیٹروں کے انداز میں کرتے ہیںاور باقی ممبر ممالک کو بعد میں صرف آگاہ کر دیاجاتا ہے۔اے پی ایس

ایک مومن کا تاریخ ساز کارنامہ۔۔ ۔ ڈاکٹرشمس جیلانی



آج جبکہ ساری دنیا مسلمانوں کو ٹیریرسٹ یعنی شر پسند یا شدت پسند ثابت کر نے پر تلی ہو ئے ہے اور مسلمان بھی خود کو اڑا کر اس کو ثابت کرنے پر مصر ہیں اور اسے شہادت اور جہاد کہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس کے باوجود کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، گناہ ،گناہ ہی رہے گا ۔ کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسانی جان بچا نا پو ری انسانیت کو بچا نا ہے ً ہم خود بھی تو قرآن بھول چکے ہیں،اس اخلاق کو بھول چکے ہیں جو حضور کا تھا۔ جو اسلام کا طرہ امتیاز بھی ۔ جس کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیلا؟ آج دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈو نیشیا کی ہی مثال لے لیجئے کہ وہاں اسلام صرف مسلم تا جروں کی وجہ سے اتنی تیزی سے پھیلا کہ سارا ملک مسلمان ہو گیا۔ پھر کیا ہوا یہ مت پو چھئے ؟ پھر وہی ہوا جو دنیا کی تمام قوموں کے سا تھ ہو تا آیا ہے ۔کہ جب وہ خدا کا پیغام بھو ل گئیں، تو دنیا ان پر تنگ ہو گئی۔ ایسے میںکبھی کو ئی ٹمٹاتا ہوا چراغ بھی ملے توغنیمت معلوم ہوتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ یہاں بھی رو نما ہواکہ ایک مسلمان کے دل میں اللہ نے یہ خیال ڈالدیا کہ وہ اسلام کے لیئے کچھ کرے؟ پہلے تو اس نے مختلف شہروں میں یکے بعد دیگرے ایسے حلقے قائم کیئے جہاں وہ مہینہ میں کہیں چار دفعہ اور کہیں ایک دفعہ جاتا اور وہاں مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلا تا، جس کی طرف سے غافل ہونے کے بعد آج مسلمان ذلت کا شکار ہیں ؟ یعنی وہ ہر جگہ جا کر قر آنی درس دیتا تاکہ لوگ قر آن کی طرف آئیں پھر چند مہینے پہلے اللہ نے اس کے دل میں یہ خیال ڈالدیا کہ کچھ اس سے بھی آگے کیا جا ئے ؟ اس سلسلہ میں اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے ایک روشن مثال نظر آئی اور وہ تھی ٹیری فاکس کا کینسر کے خلاف پا پیادہ پورے کنا ڈا کا سفر۔ اس نے سوچا کہ یہ وائلنس یعنی انتشار و تشدت اور قانون شکنی بھی تو ایک کینسر ہی ہے؟ جو تمام دنیا کو کینسر کی طرح کھائے جارہا کیوں نہ میں بھی یہی کروں ۔ اس نے اپنے منصوبہ کا اعلان کیا اور اس کو نام دیا ً ملٹی فیتھ واک اگینسٹ وائلنس ً ۔ لہذا اس کوسب نے پسند کیا اور لمبے لمبے وعدے بھی کیئے ،مگر وہ وعدہ کیا جو وفا ہوجا ئے ؟ لہذا وہ وعدے ،وعدے ہی رہے ۔ اپنوں کی طرف سے بھی اور غیرو ں کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اب وعدوں کی وہ اہمیت ہی نہیں رہے ،جو پہلے کبھی تھی اب تو اہلِ اقتدار یہ کہتے ہیں کہ وعدہ کو ئی حدیث اور قر آن تو نہیں کہ پورا کیا جا ئے ۔؟اس میں مسلمانوں اور غیر مسلم کا ریکارڈ انیس بیس ہے ۔سب اس پر متفق ہیں کہ وعدہ اسکے ساتھ پوراکرو جو تم سے طاقتور ہو کیو نکہ وہ مارے گابہت؟ رہے اپنے سے کمزور اس کو کیا پورا کرنا ؟ رات گئی بات گئی ۔اورمسلمان انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ ان کے امتی ہیں جو امین کہلا تے تھے۔ جن کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص نے جب وہ مدینہ میں حکمراں تھے ،تو کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ یہیں ٹھیر ئیے میں ابھی آتا ہوں ۔وہ بھول گیااوردوسرے دن اسے یاد آئی تو وہاں گیا دیکھا کہ حضو ر وہیں انتظار فر مارہے ہیں ؟ مسلمان کو تو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ قر آن بار بار ایفا ئے عہد کے لیئے تاکید کر رہا؟ اور یہ بھی کہہ رہا کہ تم سے خدا قیامت میں تمہارے وعدوں کے بارے میں جواب طلب فر مائے گا ً چلو یہ ہمارا قصہ ہے ہم کہاں لے بیٹھے سمع خراشی کے لیئے؟ اب اصل قصہ کی طرف واپس آتے ہیں۔وہ آدمی دُھنی تھا اور عہد کا پکا بھی ؟ممکن ہے اس کے اندر پرانے دور کی روح گھس آئی ہو ورنہ اس دور میں ایسی شخصیت نایاب ہے۔ اس کے دلمیں لگن تھی لہذا اس نے ہر حال میں عمل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ اب عمل کا مسئلہ تھا کہ اتنے بڑے سفر کے لیئے رقم کی ضرورت ہو تی ہے اور رضا کاروں کی بھی کیونکہ یہ عجمان ، چیک اور سلواکیہ تو ہے نہیں۔ کینیڈا مشرق سے مغرب تک ساڑھے سات ہزار کلو میٹر طویل ملک ہے ؟ رہی مسلم قوم تو خدمتِ خلق میں بھی تقریباً بانجھ ہے۔ جبکہ حادی ِ بر حق نے فر ما یا کہ خدمتِ خلق کر و، خد مت خلق کرو ، خدمت ِخلق کرو۔ قر آن کہہ رہا کہ ً ُبلبلا مت بنو جو پانی سے پیدا ہوتا ہے اور پانی کی سطح پر کو ئی نشان چھو ڑے بغیر ختم ہو جا تا ،بلکہ پانی بنو جو کہ لوگوں کے کام آتا ہے، اور ساتھ میں یہ بھی خو شخبری سنار ہا کہ جو چیز انسانو ں کو فائدہ پہونچا تی ہے وہ قیامت تک قائم رہے گی ً لہذا اب نہ یہاں اس کے پاس رقم تھی نہ رضا کار مگر اسے کام تو کر نا تھا۔ بقول اس کے اس نے اپنا رہا ئشی مکان گر وی رکھدیا اور وہ اس سفر پر روانہ ہو گیا۔ دیکھا نہ، علماءکے نزدیک سود پر رقم لیکر وہ گناہ کا مرتکب ہو ااور عاقبت خراب کر لی؟پھر وہ اللہ کا نام لیکر چل پڑا اسے راہ میں اکا دکا رضا کار بھی ملتے گئے اور بچھڑتے بھی گئے ۔مگر دورفیق ایسے مل گئے جو ایک توٹورنٹوسے شامل ہوااور دوسرا شروع سے یعنی ہیلی فیکس ہی ۔اسے کبھی مزودری پر بھی لوگ پکڑنے پڑے کیونکہ واک اکیلے نہیں ہو سکتی تھی ۔ ایک چلتا پھر تا گھربھی خریدا کہ رات کو کہیں سوسکے۔ اس کے لیئے ڈرایئور بھی چا ہیئے تھا، جو اس کو چلا سکے کیو نکہ یہ یا تو واک کر سکتاتھا یا ڈرائیو کر سکتا تھا۔ وہ ہیلی فیکس سے شروع ہوا جو مشرقی کنا ڈا میں ہے اور اس کی منزل تھی کنا ڈا کا انتہا ئی مغربی کنارہ یعنی بر ٹش کو لمبیا کا شہر وکٹوریہ جہاں کنیڈا زیرو میل پتھر نصب ہے ۔ چونکہ ہمار ا شہرعظیم تروینکور راہ میں پڑتا ہے اور یہاں سے جہاز کے ذریعہ وہاں جانا ہو تا ہے۔ ایک دن پہلے اس سے وینکور کے ایک شہر رچمنڈ میں ہماری ملا قات ہو ئی کہ اس کے اعزاز میں ہمارے ایک ساتھی جنا ب افضل شاہ نے ڈنر دیا تھا ۔ وہاں تفصیلی بات چیت کا موقع ملا۔اس سے پو چھا کہ تمہیں اس سے کیا کا حا صل ہوا ؟ تو اس نے بتا یا کہ میں یہ تا ثر دینا چا ہتا تھا کہ سارے مسلمان شر پسند نہیں ہیں ۔ ہم نے پو چھا کیا تم اس میں کا میاب ہو ئے ؟ جواب تھا کہ ہاں !گو کہ اس کو ختم کر نا تو آسان نہیں ہے مگر میرا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کی ہمت افزائی نہ کر یں اور برا ئی کو برائی سمجھیں ؟ یہ ہی میرا پیغام ہے یہ ہی میرا مشن ۔اور میںاس میں کسی حد تک کامیاب رہا ہوں؟ میں نے پو چھا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب رہے؟ جواب تھا کہ میں جہاں سے بھی گزرا لو گوں نے مجھے محبت دی ،پیار دیا اور ایک بھی آدمی مخالف نہیں ملا۔ اس نے ایک واقعہ سنایاکہ سیلس بری سے جب وہ گزر،اتو وہاں ایک بوڑھی کینیڈین خاتوں اسے منتظر ملی ،اس نے بتایا کہ میں نے کل تمہیں ٹی وی پر دیکھا تھا۔ اور مجھے پتا تھا کہ آج تم یہاں سے گزرو گے، پھر ایک چیک لکھنے لگی جو کہ ایک سو ڈالر کا تھا، کہنے لگی کہ تم بہت اچھے مشن پر ہو ۔ یہ تمہارے لیئے عطیہ ہے ،مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔لہذا اس کو مہینہ کے آخر میں کیش کرا لینا ۔ واضح رہے کہ یہاں بو ڑھوں کی آمدنی کا ذریعہ وہ پنشن ہے جو حکومت کی طرف سے ہر مہینہ کی آخری تا ریخوں میں ملتی ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ میں نے کنا ڈا جیسے لو گ دنیا میں کہیں نہیں دیکھے اور کنا ڈا جیسی قدرتی خوبصورتی بھی کہیں دیکھی ؟ میں کنیڈاکو سلام کر تا ہوں ۔ دوسرے دن ہم پھر مدعو تھے دو پہر کو بارہ بجے ؟ہماری یہ گندی عادت ہے کہ ہم وقت سے تھوڑا پہلے پہو نچ جا تے ہیں ؟ لہذا ہم جب پارک میں پہو نچے تو کوئی نہیں تھا اور ہال میں لگا تھا تالا ،علی گڑھ والا؟ ہم سمجھے کے غلط جگہ پر آگئے ہیں ،لہذا اپنی کار پارکنگ لا ٹ سے نکا لی اور اس طویل پارک میںاگلے حصے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ وہاں بچے کھیل رہے تھے۔ احساس ہوا کہ پہلے تو نہ تھے مگر اب ضرور غلط جگہ پر ہیں، لہذا واپس ہو ئے۔ تو دیکھا کہ وہاں اخبار مر یکل کے چیف ایڈیٹر جناب نصیر پیر زادہ اپنی نصف بہتر کے ساتھ کار سے اترر ہیں اب یقین ہو گیا کہ دو آدمی غلط نہیں ہو سکتے ہیں؟ اور پھر وہ بھی اخبار والے؟ علیک سلیک ہو ئی ،انہیں صورت ِ حال سے آگا ہ کیاانہوں نے منتظمین کو فون کیا کہ میں اور شمس جیلانی یہا ںمو جود ہیںاور تالا ہمارا منہ چڑا رہا ہے؟ کہنے لگے کہ وہ جسکو چابی لیکر بھیجا تھا وہ کہیں اور کام سے چلا گیا ہے۔ابھی پہو نچتا ہے۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ جنا ب بدیع الدین سہروردی صاحب بھی واک کر تے ہو ئے چلے آرہے ہیں ۔ اور انکے پیچھے پیچھے ان کی آر وی یعنی چلتا پھر تا گھر بھی چلا آرہا ہے۔ چونکہ مسلمان قوم کا یہ آجکل وطیرہ ہو گیا ہے کہ وہ وقت سے دو چار گھنٹے لیٹ پہو نچنا اپنا حق سمجھتی ہے، اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھا ئی؟ اور ہم پر اسلامی تعلیمات کے بر عکس عمل کر نا فرض ہے؟اب آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ تاریخ ساز شخص کون تھا؟ بہر حال اس میں قا بل مبارک باد ہیں اس پروگرام کے منتظمین کے ساتھ جناب سلیم فاروق اور خصو صا ً جناب افضل ملک اوردوسرے متظمین کہ انہوں نے تمام معزین شہر کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ جنہوں نے سہرودری صا حب کو مبارک باد دی۔ اس میں سٹی آف سرے کی مئیر بھی تھیں، ممبر پا رلیمنٹ بھی تھے صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی تھے ، سرے اور ڈیلٹا میو نسپل کارپوریشن کے کو نسلر بھی ۔اور دوسرے بہت سے معززین بھی، علما ءکا بھی ایک گروہ تھا اس کی خصو صیت یہ تھی کہ وہ سب سے زیادہ لیٹ آیا۔یعنی تقریبا ً تین سے لیکر چار بجے تک کے درمیان ؟ امت چونکہ انہیںکی اتباع کرتی ہے؟ انہوں بھی دعا فر مائی۔ جبکہ معززین میں سے ہر ایک نے عزتافزائی اور ہمت افزائی کی اور ایک ممبر پارلیمنٹ عزت مآب جناب ہیری نے حکومت کناڈا کی طرف سے تو صیفی سند پیش کی۔پھر حاضرین کی دوپہر کے کھانے سے خاطر تواضع کی گئی۔

معاشی بدحالی ، غلط بیانی فرائض سے غفلت اور بدیانتی کا نتیجہ ۔تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس



آج وطن عزیز جس معاشی بدحالی سے دوچار ہے۔بقول مشیر خزانہ شو لت ترین ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ہمارے ہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ قو می خزانے کو لوٹنے اور عوام کا خون نچوڑنے والے سب کے سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔سابقہ حکومت کے لگا ئے ہوئے ایڈوائزر آج بھی وزارت خزانہ اور پلاننگ کمیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اگرچہ قوم کا ایک مجرم سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ملک سے فرار ہے اور اس کا بگ باس قانون شکن جرنیل پرویز مشرف ایک طاقت کے ارتکاز میں لاکرز میں ہے لیکن اس کے حواری آج بھی اہم عہدوں پر بدستور بر اجمان بیٹھے ہوئے ہیں۔شوکت عزیز کی وزیر اکنامک افیئر حنا ربانی کھر جسے شوکت عزیز اپنے بیرونی دوروں میں ساتھ لیکر جاتے تھے وہی آج کے موجودہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ طیارے میں موجودہ ہوتی ہے اگرچہ حالیہ دوروں میں اس کی زچگی کے حوالے سے غالبا ساتھ نہیں لے جایا گیا۔البتہ اس کی طیارے میں سیٹ خالی تھی۔منصوبہ بندی کمیشن میں سب سے زیادہ حق دار ماہر معا شیات کا ہوتا ہے لیکن وہاں ان کا حق مار کر وہاں جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ پودے سابقہ حکومت کے لگائے ہوئے ہیں جن میں ایک دو اٹامک انرجی کمیشن اور چار کے قریب پاک آرمی کے سابق اعلی عہدیدار ہیں۔سارا منظر قارئین کے سامنے ہے کہ وہ کیسی منصوبہ بندی کریںگے۔جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی بھاری شرائط کے ساتھ امداد کا متحمل نہیں ہو سکتا اور فرینڈز آف پاکستان کو پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر امداد فراہم کرنی چاہیے پاکستان امداد نہیں بلکہ تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے مواقع چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے اور پاکستان کے عوام اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے کوئی اقتصادی خوشخبری نہیں ہے، ہمیں امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ چین نقد رقوم کی صورت میں امداد دینے سے گھبراتا ہے، فرینڈز آف پاکستان بھی کیش کی صورت میں ہماری مدد نہیں کریں گے ۔حکومت نے ابھی تک ایک بھی معاشی پالیسی نہیں بنائی، حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنی فضول آسائشوں کو ختم کرے۔ حکومت نے تیاری کئے بغیر چین کے چکر لگائے، ہمیں بہت پہلے چین کی جانب ہاتھ بڑھالینا چاہئے تھاہمیں اپریل اور مئی میں ہی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرلینی چاہئے تھی۔پاکستان چاہے تو آئندہ ایک سال میں قومی خزانے میں 10بلین ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ پانی سر سے گزرچکا ہے، اب آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں ہوگا آئی ایم ایف نے کبھی کسی ملک کے لیے باضابطہ حل نہیں نکالا۔ چین ہمیں مشکلات سے نکالنے کے لیے اقدامات کررہا ہے جبکہ فرینڈز آف پاکستان بھی ملک کو اقتصادی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ ہماری حکومت اس وقت امریکی کونین کے نشے میں ہے، ہمیں امریکی نشے سے نکلنے کے لیے اپنا علاج خود کرنا ہوگا، آئی ایم ایف پاکستان کے لیے نیم حکیم ہے۔ ہر وزیر کم سے کم ماہانہ ایک کروڑ روپے خرچ کردیتا ہے، اکتالیس وزیر بہت زیادہ ہیں ، ان کی تعداد کم کرنا ہوگی۔آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی حکومتی اخراجات میں کمی ہے۔ جبکہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کر نے کے لئے کم سے کم 5 ارب ڈالر کی ضرورت 15 دنوں میں پوری نہ ہوئی تو آئی ایم ایف سے شرائط پر قرضہ حاصل کر نا پڑے گا حکومت معاشی استحکام کے لئے مرکزی بینک سے قرضوں کے حصول میں کمی لائے گی جبکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو بڑھانے کے لئے متعدد شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی میں منصوبہ بندی کلیدی کر دار ادا کر تی ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران منصوبہ بندی کمیشن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حکومت، اخراجات میں کمی اور بعض اہم اقدامات کے ذریعے مالیاتی خسارے میں کمی کے175ارب روپے کے ہدف کو کم کر کے 138ارب روپے تک لے آئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ بدھ کو سینٹ کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کیا ہے۔ ملک میں بجلی اور گیس کے بحرانوں کے علاوہ اعتماد کا بھی فقدان ہے یہ سب کچھ ہماری ناقص منصوبہ بندیوں کے باعث ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہم نے صرف قرضے حاصل کئے لیکن اپنی پیداوار اوربرآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ درآمدات میں اضافہ ہے حکومت کا اس بحران سے نمٹنے کیلئے منصوبہ تیار ہے جس کے تحت آئندہ دو سالوں میں ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیاجائے تاکہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک نہ مانگنی پڑے حکومت میکرو اکنامک استحکام کیلئے مالی خسارے کو کم ، افراط زر پر قابو پائے گی ۔ حکومت کا ہدف ہے کہ رواں سال مالی خسارے کو 4.3فیصد پر لے جایا جائے ساری ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح 10.5 فیصد ہے جس میں اضافے کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا حکومت ٹیکسوں کے حصول کیلئے کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرے گی ۔ درآمدات بڑھنے اور برآمدات کم ہونے سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا جس سے ہمارے لئے معاشی دباو¿ بڑھ گیا انہوں نے کہاکہ ہمارا معاشی پلان یہ ہے کہ ہم دو سالوں کے بعد اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائیں اس وقت ہمارا ہدف یہ ہے کہ دو سال بعد ہم دوسروں سے مدد مانگتے نہ پھریں۔ انہوںنے کہاکہ اس سلسلے میں ہم نے افراط زر کی شرح کم کرنی ہے کیونکہ افراط زر کی موجودگی میں ترقی ممکن نہیں اس کیلئے ہمیں مالیاتی خسارہ7.1 فیصد سے کم کر کے 4فیصد کرنا ہے اس کیلئے ہمیں محصولات میں اضافہ کرنا ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کرنی ہے اس سلسلے میں پوری قوم کو ٹیکس دینا ہو گا اور ٹیکس کے نظام میں بہتری لانی ہے انہوں نے کہاکہ ٹیکس کے حوالے سے جب پالیسی بن جائے گی تو ہمیں ہر اس شخص سے ٹیکس لینا ہو گا جس کے ذمے ٹیکس بنتا ہے انہوں نے کہاکہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے ہمیں حکومتی اخراجات کم کرنا ہوں گے اس کیلئے اعلیٰ قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا انہوں نے کہاکہ ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے کیلئے حکومتی و نجی شعبے کی شراکت داری کو مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے پہلی سہ ماہی کے دوران حکومت اخراجات میں کمی کر کے اور بعض اہم اقدامات اٹھا کر مالیاتی خسارے میں کمی 175ارب روپے کے ہدف کو کم کر کے 138ارب روپے تک لے آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں سال کے دوران ہمیں عالمی بینک ، اے ڈی بی اور دیگر ڈونراداروں سے چار ارب روپے مل جائیں گے انہوں نے کہاکہ تین سے چار ارب روپے مل جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ان ذرائع سے بھی ہمیں مقررہ مدت کے اندر رقم نہیں ملتی تو اس کے لئے آئی ایم ایف سے مدد کیلئے مذاکرات کر نے پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ڈیفالٹ ملک قرار دلوانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اس سے بچنے کیلئے ہم نے ہر ممکن اقدامات کر نے پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے غریبوں کو تحفظ دینا ہے اس وقت 28فیصد آبادی کو ریلیف دی ہے اس وقت 70لاکھ لوگوں کی امداد کرنی ہے ہم غریب کو بہت نظر انداز کر چکے اب ان پر توجہ دینی ہے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کو توسیع دینا ہو گی غریبوں کو ووکیشنل ریلیف دینا ہوگا اس کے علاوہ غریبوں کو میڈیکل فری کیس کی سہولت دینی ہے اس پر فنڈز خرچ کرنے کیلئے ضروری ہوا تو دسرے شعبوں کا بجٹ کم کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاءدرآمد کررہے ہیں اس شعبے کی پیداوار بڑھانے کیلئے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے ہم نے اس حوالے سے گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر 950روپے فی من کر دی ہے گزشتہ چند دھائیوں سے زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کو روز گار فراہم کرنے کیلئے مینو فیکچرنگ کے شعبے پر توجہ دینی ہے کیونکہ اس وقت اس کی ترقی منفی میں جارہی ہے صنعتیں بند ہو رہی ہیں اسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اگر اس پر توجہ نہ دی تو ہم دنیا میں اس شعبے میں پیچھے رہ جائیں گے انہوں نے کہاکہ ہمیں وسیع البنیاد انرجی پلان ترتیب دینا ہے کیونکہ توانائی کے بغیر ہم کسی شعبے میں ترقی نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کہ ہمیں ترقی کیلئے پبلک پرائیویٹ انفراسٹرکچر کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے اس کیلئے ہمیں نجی شعبے کو بھی آگے لانا ہے اور اس کو ایک کردار دینا ہے انہوں نے کہاکہ ہمارے بینکوں نے بڑی ترقی کی ہے مگر انہوں نے عام آدمی کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کیا ہمیں بیکنگ کی ترقی کے ثمرات دیہی علاقوں تک لے جانے ہیں انہوں نے کہاکہ سٹاک ایکس چینج میں رواں سال کے ابتداءمیں 175ارب کی کارٹلائزیشن تھی کیپٹل مارکیٹ کو ریٹل اکانوی میں کردار دینا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت زیرو پر کھڑے ہیں آگے بڑھنے کیلئے ہمیں سخت اقدامات کرنا ہوں گے ملک کی اقتصادی ترقی کی اچھی منصوبہ بندی کر کے اس پر عملد رآمد کرنا ہے اس وقت معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کا کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے اس وقت منصوبہ بندی کمیشن اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ جہاں تک منصوبہ بندی کمیشن کی نا کا می کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور صدر پا کستان آصف زرداری سے گزارش ہے کہ منصو بہ بندی کمیشن میں ما ہر اقتصادیات کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دو ریٹائرڈ جرنیل اور چار بر گیڈیئر اور اٹامک انرجی کے دو سابق اعلی آفیسر کیا کر رہے ہیں ان کو فی الفور فارغ کیا جا ئے اور متعلقہ شعبے میں متعلقہ ما ہرین کی تقرری کی جا ئے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دبئی میں جاری مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کی توثیق کر دی ہے اور اب امداد کے سائز کے تعین کیلئے بات چیت ہو رہی ہے۔ مذاکرات میں شامل پاکستانی وفد کے سینئر عہدیدار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات 30 اکتوبر تک ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ عہدیدار نے کہا کہ معاشی استحکام کے پروگرام کا مقصد موجودہ اخراجات، ترقیاتی بجٹ اور سبسڈیز کو اگلے 21 ماہ میں کم کرتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پانا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف کے توثیق کردہ پروگرام کے تحت کئی وزارتوں اور ڈویڑنز کو ضم کرنے کامنصوبہ بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان نے اتفاق کیا ہے کہ مارکیٹ میں روپے کی قدر میں استحکام کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان مداخلت نہیں کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نرم ایکسچینج ریٹ پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 81, 80 کی حد تک ہی برقرار رہے گی۔ اگلے چند ماہ میں مانیٹری پالیسی سخت ہونے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف اسلام آباد پر دباو¿ ڈال رہا ہے کہ وہ سروس سیکٹرپر جنرل سیلز ٹیکس، زراعت پر انکم ٹیکس اور سٹاک مارکیٹ پر سرمایہ حصول ٹیکس لاگو کرے۔ رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 60 سے 100 ارب روپے کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرائع نے کہا کہ معاشی لحاظ سے ناقابل عمل ترقیاتی منصوبے ختم کر دیئے جائیں گے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف براہ راست دفاعی بجٹ کم کرنے کیلئے نہیں کہے گا۔ وہ صرف مالی خسارہ کم کرنے کیلئے کہے گا اب چاہے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے ہم اپنی آمدن بڑھائیں یا دفاع سمیت دیگر اخراجات کم کریں۔ذرائع نے کہا کہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے اپنی ترجیحات کا تعین اب ہم نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمود 3 سے چار فیصد ہی رہے گی۔ مالیاتی امداد کی حد کا تعین کرنے کیلئے مذاکرات میں سٹیٹ بینک کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر بھی شریک ہوئیں۔ مرکزی بینک کے ترجمان نے تصدیق کی کہ وہ اسلامی مالیاتی کانفرنس میں شرکت کیلئے دبئی گئی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مالی امداد کا تعین ہونے کے بعد پاکستان باقاعدہ طور پر آئی ایم ایف کے ایم ڈی کو خط میں درخواست کرے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ عمل 15 نومبر تک مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر تقریباً 6 ارب ڈالر کی امداد اور سپورٹ کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے 7/ نومبر کو ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی جس میں ایگزیکٹو بورڈ کے تمام 24 ممبران شرکت کریں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں دبئی میں ان کے پاکستانی حکام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر، سیکرٹری خزانہ، ڈاکٹر وقار مسعود اور سیکرٹری اقتصادی امور فرخ قیوم اور دیگر حکام سے تمام بنیادی امور پر بات چیت مکمل ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ان کے ڈائریکٹر محسن خان یکم نومبر کو آئی ایم ایف سے سبکدوش ہو رہے ہیں ان کی جگہ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل آئی ایم ایف میں ایکسٹرنل سیکٹر کے انچارج مسعود احمد یہ ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ آئی ایم ایف کے حکام کی طرف سے پاکستان کو دو طرح کی سپورٹ فوری طور پر فراہم کی جائے گی ان میں ایک امداد قرضے کے طور پر آئی ایم ایف فراہم کرے گا جس کی مالیت 2 ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر ہو گی جبکہ باقی سپورٹ کا بندوبست امریکا، یورپ، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک سے کرایا جائے گا اس سلسلے میں آئی ایف ایم کا ایگزیکٹیو کے اجلاس میں فنڈ کے سربراہ ان تمام ممالک سے پاکستان کو ہنگامی طور پر سپورٹ کرنے پر زور دیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے حکام کے اصرار پر انہیں یقین دلایا کہ آئی ایم ایف کے قرضہ کے حصول کی تمام شرائط پوری کی جائیں گی جس کے تحت اگلے چند ماہ میں رواں مالی سال کے دوران ہی ملکی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں خاطرخواہ کمی کر کے تجارتی خسارہ اور حسابات جاریہ کے خسارے میں 6 فیصد سے 8 فیصد تک کمی لائی جائے گی، اس کے علاوہ مالیاتی خسارہ میں 3 فیصد تک کمی کرنے کیلئے کئی موثر اور فوری اقدامات کئے جائیں گے، اس سلسلے میں کئی شعبوں اور اداروں کے اخراجات منجمد کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر اس عرصے میں 10 ارب ڈالر سے اوپر جانے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرف سے قرضہ کے حصول پر رضا مندی کے پیغام کے بعد پاکستان نے اجلاس کی تیاری شروع کر دی ہے جسے آئی ایم ایف کے پاکستان سے متعلقہ ڈائریکٹر فنڈ کی مینجمنٹ کو پیش کریں گے جس کے سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اس کے بعد ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبران کو اجلاس کا ایجنڈا اور پاکستان کیس کی تفصیلات بھجوائی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کے ماہرین کے مطابق ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا کیونکہ ماضی میں کئی پروگرام ایسے بھی رہے جو قرضہ کی فراہمی کے باوجود پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومتیں مکمل نہیں کر سکیں۔ ان ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی طرف سے نئے قرضے کی فراہمی کے بعد پاکستانی حکومت پیٹرول، ڈیزل کے نرخوں، بجلی کے ٹیرف وغیرہ پر نظرثانی کرے گی، اس کے علاوہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں سرکاری ملازمین اور عام افراد کیلئے ایک ریلیف پیکیج بھی لایا جا رہا ہے تاکہ عوام کو مزید کوئی کڑوی گولی دینے سے پہلے مطمئن کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع نے بتایا کہ ایگزیکٹیو بورڈ کی طرف سے پاکستان کے قرضے کی منظوری کے فوراً بعد عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوسرے عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کو دو سے تین ارب ڈالر کی سپورٹ کے اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔جبکہ پاکستان کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موڈیز(ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والا بین الاقوامی ادارہ) نے پاکستان کے معاشی درجے میں کمی میں جلد بازی کی ہے کیونکہ ابھی تو دو تین پفتے پہلے ہی انہوں نے پاکستان کا درجہ کم کیا تھا۔ ’اب دو ہفتے میں کیا ایسا ہو گیا کہ انہوں نے پھر سے درجہ کم کر دیا۔موڈیز نے گذشتہ منگل کو پاکستان کی معاشی درجہ بندی ایک بار پھر کم کر دی تھی اور موڈیز کے ماہرین نے پاکستان کی عالمی رینکنگ میں اس تنزلی کو پاکستان کے دوست ممالک اور عالمی بنک کی جانب سے زر مبادلہ نہ ملنا قرار دیا تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف سے، اپنے دوستوں اور دیگر عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا راستے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں اور سب کو معلوم ہے تو یہ تھوڑی جلد بازی ہے۔ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں ’مار کھائی‘ ہے کیونکہ یہ اقتصادی بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے اور اب یہ نزلہ ترقی پذیر ممالک پر گِر رہا ہے۔ شدت پسندی تو پہلے کافی زیادہ ہو رہی تھی اور اب تو اس میں کمی آ رہی ہے۔ ’یہ تو پہلے بھی پاکستان کی سرحدوں پر ہوتی رہتی تھی لیکن زر مبادلہ کے ذخائر اچھے تھے، اس زمانےمیں درجہ بہتر تھا کیونکہ کاروبار ہو رہا تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ جب ایک دو ماہ میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آتی ہے تو کیا یہ ایجنسیاں اس وقت بھی اتنی تیزی سے ہی درجہ بندی بہتر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں ’مار کھائی‘ ہے کیونکہ یہ اقتصادی بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے اور اب یہ نزلہ ترقی پذیر ممالک پر گِر رہا ہے۔ وفاقی مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ حکومت صحیح سمت میں چل رہی ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کے منفی رد عمل کے بارے میں اطلاعات درست نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین نے یہ نہیں کہا کہ وہ مدد نہیں کریں گے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کشکول توڑنے والے دعوے کے بارے میں موجودہ مشیر خزانہ نے کہا کہ انہوں نے کشکول توڑنے کی بات تو کر دی تھی لیکن پالیسیاں ایسی ہی رکھیں کہ دوبارہ بات امداد کی طرف ہی گئی۔شوکت ترین نے کہا ہے کہ جلد ہی چین کا ایک وفد بات چیت کے لیے آ رہا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ سعودی عرب اور دیگر دوستوں نے کہا ہے کہ وہ نومبر کے وسط میں ہم سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے معاملات بھی جلد حل ہو جائیں گے۔ پاکستان کی ضرورت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال تو تین سے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور چوبیس مہینوں میں پانچ سے دس ارب ڈالر چاہیے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دس ارب ڈالر کی بات اس لیے بھی کر رہے ہیں کیونکہ فرق میں تو کمی آ جائے گی لیکن زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات سے پونے آٹھ ارب ڈالر ہیں جو کم سے کم بارہ سے تیرہ ارب ڈالر ہونا چاہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کا رویہ بھی اب وہ نہیں رہا جو انیس سو اسی اور نوے کی دہائیوں میں تھا بلکہ ہمارے ہی تیارکردہ پروگرام پر بات ہو گی نہ کہ پہلے کی طرح جب سب کے لیے ایک ہی پروگرام پر اصرار ہوتا تھا۔ ستمبر میں بم دھماکے کے بعد پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں مزید نو کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ ذخائر کم ہو کر آٹھ ارب بیاسی کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پچیس ستمبر تک مرکزی بینک کے پاس پانچ ارب چالیس کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس تین ارب اکتالیس کروڑ ڈالر کے ذخائر موجود تھے۔ رواں ماہ کے پہلے ہفتے تک اسٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب اکانوے ڈالر تھے، جس میں بتدریج کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اب تک ان میں تین سو چھ ملین ڈالرز کی کمی ہوچکی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح پر رہا اور اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت چوراسی رپے تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے بیرونی ادائیگیوں کا حجم بڑھ رہا ہے،جس وجہ سے روپیہ دباو¿ کا شکار ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے۔اس وجہ سے وہ ملک سے چلے بھی گئے ہیں اور اس حساب سے سرمایہ کاری بھی جا رہی ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس ہے اور وہ اپنے سرمائے اور جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔’معیشت کے لیے یہ چیزیں اچھی نہیں ہوتیں۔ باہر سے زرمبادلہ اور سرمایہ کاری واپس لائی جائے۔ دوروں سے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔کراچی سٹاک ایکسچنج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حکومت کی جانب سے مالی امداد کی یقین دہانی کے بعد سٹاک مارکیٹ میں ستائیس اکتوبر سے معمول کا کاروبار بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔یہ فیصلہ ان مذاکرات کے بعد کیا گیا تھا جو ملک کی تمام سٹاک مارکیٹس کی نگرانی کرنے والے ادارے سکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے حکام اور کراچی سٹاک ایکسچنج کے ممبران کے درمیان پچھلے چند دنوں سے جاری تھے۔ سٹاک مارکیٹ فروری کے مہینے میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی اور 100 انڈیکس جس سے حصص یعنی شیئرز کے کاروبار میں اتار چڑھاو¿ کا پتہ چلتا ہے، پندرہ ہزار پوائنٹس سے اوپر تھا لیکن جولائی کے مہینے میں سٹاک مارکیٹ شدید مندی کی لپیٹ میں آگئی اور دو ہفتوں تک مسلسل مندی کے بعد سترہ جولائی کو جب 100 انڈیکس دس ہزار پوائنٹس کی سطح پر آگئی تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے چھوٹے سرمایہ کاروں نے کراچی سٹاک ایکسچنج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کرکے پرتشدد احتجاج کیا اور مارکیٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد سٹاک ایکسچنج کی انتظامیہ نے بڑے سرمایہ کاروں کی مدد سے ایک فنڈ قائم کرکے مندی سے متاثر ہونے والے چھوٹے سرمایہ کاروں سے لگ بھگ سوا چار ارب روپے کے شیئرز خرید لیے۔ لیکن مارکیٹ پھر بھی نہ سنبھلی اور اگست کے مہینے میں جب 100 انڈیکس نو ہزار پوائنٹس کی کم ترین سطح پر آگیا تو کاروبار کو مزید گرنے سے بچانے کے لیے ستائیس اگست کی کاروباری سطح یعنی نو ہزار ایک سو چوالیس پوائنٹس پر منجمد کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ میں جنم لینے والے مالی بحران کے منفی اثرات امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور مارکیٹوں پر تو نظر آئے لیکن کراچی سٹاک ایکسچنج جو پہلے ہی سرمائے کی کمی کا شکار تھی، عالمی مالی بحران کے اثرات سے محفوظ رہی۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کے کاروبار کے اتار چڑھاو¿ کا ملکی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا کیونکہ ملک میں کل 700 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور سٹاک مارکیٹ میں اسی فیصد کاروباردرجن بھر کمپنیوں کے شیئرز کا ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر سرکاری شعبے کی کمپنیاں ہیں یا پھر آئل اینڈ گیس کے شعبے سے متعلق ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے عالمی معاشی بحران کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کیش ریزرو ریکوائرمینٹ کو مزید کم کرکے چھ فیصد کر دیا ۔سی آر آر یا کیش ریزرو ریکوائرمینٹ بینکنگ کے نظام کا ایک ایسا ضابطہ ہے جو اس زر ضمانت کا تعین کرتا ہے جو تمام شیڈول بینکوں کو اپنے کھاتے داروں کی جانب سے جمع کرائی گئی رقوم کی ضمانت کے طور پر سٹیٹ بینک میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے بتایا تھاکہ سی آر آر میں کمی کے نتیجے میں بینکنگ نظام میں مزید ساٹھ ارب روپے کا سرمایہ دستیاب ہوگا۔ اس سے پہلے گیارہ اکتوبر کو بھی سٹیٹ بینک نے سی آر آر میں کمی کا اعلان کیا تھا اور اسے نو سے آٹھ فیصد کر دیا تھا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے یہ بھی اعلان کیا کہ سی آر آر میں پندرہ نومبر کو پانچ فیصد پر لایا جائے گا تاکہ بینکوں کو زر ضمانت میں مزید سہولت ملے اور اس سے ایک سو بیس ارب روپے کا مزید سرمایہ دستیاب ہوگا۔ اس اقدام کے نتیجے میں مزید ایک سو بیس ارب روپے بینکوں کو دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ہم مجموعی طور پر 240 ارب روپے کا سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔اسکے علاوہ انہوں نے کہا تھاکہ بینکوں کو اٹھارہ اکتوبر سے ایک سال یا اس سے زائد مدت کے ٹائم ڈپازٹس کو ایک اور ضابطے ایس ایل آر یا اسٹیچوری لیکویڈیٹی ریکوائرمینٹ سے مکمل طور پر مستثنی کر دیا گیا ہے۔ ’اس اقدام کے نتیجے میں مزید ایک سو بیس ارب روپے بینکوں کو دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ہم مجموعی طور پر 240 ارب روپے کا سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ اقدامات مارکیٹ میں پائے جانے والے خدشات اور سرمائے کی کمی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے چھوٹے بینکوں کو فائدہ ہوگا جنہیں سرمائے کی کمی کے مسئلے کا زیادہ سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی واضح کیا کہ ان اقدامات کا مقصد بینکوں کو درمیانی اور طویل مدت کی سرمایہ کاری جاری رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔ ’ہم چاہیں گے کہ اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں ان اقدامات سے جو سرمایہ فراہم کررہا ہے اسے مو¿ثر طور پر استعمال کیا جائے یعنی اس سرمائے سے نجی اداروں اور لوگوں کی (بینکوں سے) قرضوں کی طلب کو مو¿ثر طور پر پورا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا بینکاری کا شعبہ مستحکم ہے اور غیرموافق اقتصادی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’بینکوں کی قرضہ دہی اور سرمایہ کاری اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ پروڈینشل ریگولیشنز سے مشروط ہیں جو بینکوں کو مقررہ حد سے زائد قرضے دینے اور غیرمعیاری اثاثوں میں سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک ملک کی فنانشل مارکیٹ کی مسلسل نگرانی کررہا ہے اور ادائیگی کے نظام اور مالیاتی نظام کو مستحکم بنانے کے لئے تمام ضروری پالیسی اقدامات کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بینکاری نظام میں سرمائے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیے گئے یہ اقدامات عارضی ہیں اور انہیں مالیاتی پالیسی میں تبدیلی تصور نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم گیلانی و صدر پاکستان آصف زرداری سے گزارش ہے کہ وطن عزیز جس طرح معاشی بحران سے دو چار ہے اس کے ذ مہ دار اگرچہ ایک سابق وزیر اعظم شوکت عزیز جوملک سے فرار ہے جبکہ دوسرا سابق صدر و قانون شکن ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف طاقت کے ار تکاز میں محفوظ ہے تو کم از کم ان کے دیگر حواری ابھی تک وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں موجودہ جو صورتحال ہے یہ سب ان کی غلط بیانی اور اپنے فرائض سے غفلت اور بدیانتی کا نتیجہ ہیں آپ اگر ان کے خلاف قانون کے مطابق کا روائی نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کو فارغ کریں جو قومی خزانے پر بوجھ اور عوام کا خون نچوڑ کر حاصل کردہ ٹیکس سے عیاشی کر رہے ہیں۔اے پی ایس