
جمعہ کے روز بھی حسب روایت شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے میں ٢٠ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکی جاسوس طیاروں سے یہ میزائل حملہ میر علی گاوں سے دو کلو میٹر دور عیسوڑی میں کیا گیا جبکہ حملے کے بعد وہاں کھڑی گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی۔یہ میزائل حملہ ایک مقامی قبائل کے گھر پر کیا گیا ہے۔جبکہ امریکہ بہادر نے کہا ہے کہ کسی ملک کو دہشت گردی کا خطرہ ہو تو اسے سرحد پار حملے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے سربراہ مائیکل شر ٹوف نے کہا کہ بین الا اقوامی قانون میں ایسی شق ہونا چاہیے جس کے تحت وہ ممکنہ طور پر دہشت گردی روکنے کیلیے کاروائی کر سکے چاہے یہ پیشگی حملہ ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیاہے کہ بین الاقو امی قانون میں اب یہ بات شامل کی جائے کہ خود مختاری کی ذمہ داری کے تحت کوئی ملک اپنی سرزمین سے دوسرے پر حملوں کے لیے پلیٹ فارم نہ بنے۔ ملک بھر کے عوام،وکلاءاور قاضی حسین احمد سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے عوام نے 3نومبر کو یوم سیاہ و یوم مذمت منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارشل لاءطاغوت کی ایک شکل ہے۔ قوم ہمیشہ کے لیے طے کرلے کہ فوجی حکمرانی کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اوراپنے بنیادی حقوق کا ہرقیمت پر تحفظ کرے گی۔ تبدیلی کے لیے دستوری راستہ اختیار کریںگے ۔قوم کو موجودہ عدلیہ قبول نہیں ہے، سب نے دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف اٹھایاہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی جدوجہد میں وکلا برادری کا بھرپورساتھ دیں گے۔عوامی حکومت سویلین آمریت قائم کرنے کے بجائے انصاف اور میرٹ پر عملداری کو یقینی بنائے،اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرے۔حکمران طبقے کے بیرون ملک بنکوں میں جمع30ارب ڈالر ملک واپس لائے جائیں تو معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔آئین توڑنے اور قتل عام کے جرم میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جائے اور لوٹی دولت کا حساب لیا جائے۔پرویز مشرف نے 3نومبر2007ءکوسیاہ اقدام کیا۔ پوری قوم 3نومبر کو فوجی حکمرانی اور مشرف اقدام کے خلاف یوم سیاہ و یوم مذمت مناکرفوجی قیادت کو پیغام دے۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ انگریز کی شاگرد ہے۔ جیسے ہی سیاسی جماعتیں اور عوام آزاد ہونے لگتے ہیں ملک کو فوجی غلامی کے شکنجے میں دے دیا جاتا ہے۔قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بننے کے فوری بعد سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی مہم چلائی ۔ اس مطالبے کے نتیجے میں قراردادمقاصد پاس ہوئی جس میں اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے ،لیکن اسے صرف دستور کی زینت کے لیے استعمال کیا گیااور آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔فوج جب چاہتی ہے، دستور توڑ کر ملک پر قابض ہوجاتی ہے،تمام انسانی حقوق معطل کردیے جاتے ہیں،اور دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے جو طاغوت کی ہی ایک شکل ہے۔ مارشل لا میں تمام قوانین ایک فرد کی مرضی سے بنتے اور ٹوٹتے ہیں، مارشل لا ایڈمنسٹریٹربندوق کے زور پر اپنا حکم منواتا ہے،اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ فوجی حکومت میں ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہوا۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی، یحیی خان نے اسے انجام تک پہنچایا، ضیاء الحق نے سیاچین بھارت کے حوالے کردیا جبکہ پرویز مشرف نے ملک کو معاشی بدحالی سے دوچار کیا، ایک ایٹمی مملکت کو امریکی کالونی بنادیااور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن کرکے ملکی سلامتی کے خلاف سازش کی۔انھوں نے کہا کہ فاٹا،سوات اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی پالیسی ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے جس سے حکومت اور فوج کو مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ انھوںنے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ لیا لیکن اس کی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اورامریکی مصلحتوں کی خاطر اپنی قوم کوجیٹ طیاروںسے نشانہ بنایا جارہاہے ۔ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتی ہیں اور اب بھی ان غلطیوں کو دہرایا جارہاہے،اور عوامی حکومت کا دعویدار ہونے کے باوجود عوامی احساسات کی ترجمانی نہیں کی جارہی۔ ملک و قوم کو ایک امین اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو قومی خزانے پرغریب اورمظلوم کے پہلے حق کو تسلیم کرے اور اس کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو اپنا فرض سمجھے۔ چستان میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ کوئٹہ سے زیارت تک تباہی کے آثار ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔پوری قوم کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی دل کھول کرمددکرے۔جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے پنجاب مشکل کی گھڑی میں بلوچستان کے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے 10کروڑ روپے کا چیک لے کر آئے ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید امداد بھی مہیا کریں گے۔ ضروری امدادی اشیاء پر مشتمل 50ٹرکوں کا قافلہ صوبائی وزیر سردار دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں کل یہاں پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے ‘ صورتحال کا جائزہ لینے اور امداد کی فراہمی کیلئے کوئٹہ پہنچے پر کیا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی ‘ صوبائی وزراء ،مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ سردار یعقوب ناصر اور دیگر قائدین نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقہ ضلع زیارت کا دورہ کیا جہاں انہیں پاک فوج کے ریلیف کمشنر نے اب تک متاثرین کو دی جانے والی ریلیف کے متعلق تفصیلاً بریفنگ دی ۔ میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ہم اس دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے غمزدہ بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں ۔میں نے بلوچستان کے زلزلہ زدگان کی بحالی اور ریلیف کے لئے جو اپیل کی ہے پنجاب کے عوام نے اس کا بھر پور جواب دیا ہے اور وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سینئر مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی متاثرہ بلوچی بھائیوں کی ضروریات اور انہیں ریلیف کی فراہمی کے لئے دن رات کام کر رہی ہے جس کی کاوشوںسے پنجاب سے اشیائے ضروریہ اور خوراک کی ترسیل بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جاری ہے۔ انہوں نے 10کروڑ روپے کا چیک وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پیش کرتے ہوئے کہاکہ امدادی اشیاء پر مشتمل 50 ٹرکوں کا قافلہ بھی صوبہ پنجاب سے روانہ ہو چکا ہے جو کل تک متاثرہ علاقوں میں پہنچ جائے گا۔ اس میں20 لاکھ روپے مالیت کے خیمے اور دیگر امدادی اشیاءبھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی متاثرین کو جس چیز کی ضرورت ہوگی ہم وہ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کریں گے ۔ اس موقع پر ضلعی رابطہ افسر اسفند یار نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پنجاب حکومت کی جانب سے آئے ہوئے امدادی اشیاء پر مشتمل 10 ٹرکوں کی چابیاں حوالے کیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا اس موقع پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ کی طرح مصیبت کی اس گھڑی میں صوبہ پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کی بھر پور مدد کی ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ امدادی اشیاءکی حقیقی متاثرین تک بھر پور رسائی کیلئے ایماندار اور مخلص لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاکہ انہیں امدادی اشیاءجلد از جلد فراہم ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو تمام نقصانات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں متاثرین کو بھر پور ریلیف دیاجائے گا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونے والے ’بلوچستان جرگے‘ کی اہمیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی توقعات کے منافی کسی اقدام کا ارادہ کیا گیا تو سب سے پہلے میں اس کی مخالفت کروں گا۔انھوں نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری نے مجھے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جس پر مجھے سخت حیرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے منتخب اراکین نے بلا مقابلہ جس شخص کو وزیرِاعلیٰ چنا ہے، جو صوبے کے تقریباً سو فیصد عوام کا نمائندہ ہو، اسے صوبے سے متعلق فیصلوں اور مشاورت میں شریک نہ کرنا اچنبھے کی بات ہے۔وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے عوام کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں سب سے پہلے اس کی مخالفت کروں گا۔اس استدلال پر کہ صدرزرداری کی صدارت میں ہونے والے بلوچستان جرگے کا مقصد انٹلیکچول اِن پ±ٹ (Intellectual Input) بتایا جا رہا ہے، نواب اسلم رئیسانی نے کہا تو کیا وہ ہمیں ’جاہل‘ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں صرف حکومتی نہیں صوبے کا سیاسی قائد بھی ہوں اور جسے تمام اراکین کا اعتماد حاصل ہے۔ میں فیڈرل یونٹ کی سب سے اہم سیاسی شخصیت ہوں۔ مجھے مدعو نہ کیا جانا بڑے دکھ کی بات ہے۔صوبہ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں وزیرِاعلیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی انتظامیہ دستیاب وسائل میں تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی ہے اور ہم بین الاقوامی اداروں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ، یورپی یونین، کویت، متحدہ عرب امارات، چین اور متعدد ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے امداد کی پیش کش کی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زلزلوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔اے پی ایس