Friday, October 31, 2008

تین نومبر سیاہ دور کا سیاہ اقدام پر عوام کا یوم مذمت۔ چودھری احسن پریمی اے پی ایس



جمعہ کے روز بھی حسب روایت شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے میں ٢٠ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکی جاسوس طیاروں سے یہ میزائل حملہ میر علی گاوں سے دو کلو میٹر دور عیسوڑی میں کیا گیا جبکہ حملے کے بعد وہاں کھڑی گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی۔یہ میزائل حملہ ایک مقامی قبائل کے گھر پر کیا گیا ہے۔جبکہ امریکہ بہادر نے کہا ہے کہ کسی ملک کو دہشت گردی کا خطرہ ہو تو اسے سرحد پار حملے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے سربراہ مائیکل شر ٹوف نے کہا کہ بین الا اقوامی قانون میں ایسی شق ہونا چاہیے جس کے تحت وہ ممکنہ طور پر دہشت گردی روکنے کیلیے کاروائی کر سکے چاہے یہ پیشگی حملہ ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیاہے کہ بین الاقو امی قانون میں اب یہ بات شامل کی جائے کہ خود مختاری کی ذمہ داری کے تحت کوئی ملک اپنی سرزمین سے دوسرے پر حملوں کے لیے پلیٹ فارم نہ بنے۔ ملک بھر کے عوام،وکلاءاور قاضی حسین احمد سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے عوام نے 3نومبر کو یوم سیاہ و یوم مذمت منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارشل لاءطاغوت کی ایک شکل ہے۔ قوم ہمیشہ کے لیے طے کرلے کہ فوجی حکمرانی کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اوراپنے بنیادی حقوق کا ہرقیمت پر تحفظ کرے گی۔ تبدیلی کے لیے دستوری راستہ اختیار کریںگے ۔قوم کو موجودہ عدلیہ قبول نہیں ہے، سب نے دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف اٹھایاہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی جدوجہد میں وکلا برادری کا بھرپورساتھ دیں گے۔عوامی حکومت سویلین آمریت قائم کرنے کے بجائے انصاف اور میرٹ پر عملداری کو یقینی بنائے،اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرے۔حکمران طبقے کے بیرون ملک بنکوں میں جمع30ارب ڈالر ملک واپس لائے جائیں تو معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔آئین توڑنے اور قتل عام کے جرم میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جائے اور لوٹی دولت کا حساب لیا جائے۔پرویز مشرف نے 3نومبر2007ءکوسیاہ اقدام کیا۔ پوری قوم 3نومبر کو فوجی حکمرانی اور مشرف اقدام کے خلاف یوم سیاہ و یوم مذمت مناکرفوجی قیادت کو پیغام دے۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ انگریز کی شاگرد ہے۔ جیسے ہی سیاسی جماعتیں اور عوام آزاد ہونے لگتے ہیں ملک کو فوجی غلامی کے شکنجے میں دے دیا جاتا ہے۔قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بننے کے فوری بعد سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی مہم چلائی ۔ اس مطالبے کے نتیجے میں قراردادمقاصد پاس ہوئی جس میں اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے ،لیکن اسے صرف دستور کی زینت کے لیے استعمال کیا گیااور آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔فوج جب چاہتی ہے، دستور توڑ کر ملک پر قابض ہوجاتی ہے،تمام انسانی حقوق معطل کردیے جاتے ہیں،اور دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے جو طاغوت کی ہی ایک شکل ہے۔ مارشل لا میں تمام قوانین ایک فرد کی مرضی سے بنتے اور ٹوٹتے ہیں، مارشل لا ایڈمنسٹریٹربندوق کے زور پر اپنا حکم منواتا ہے،اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ فوجی حکومت میں ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہوا۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی، یحیی خان نے اسے انجام تک پہنچایا، ضیاء الحق نے سیاچین بھارت کے حوالے کردیا جبکہ پرویز مشرف نے ملک کو معاشی بدحالی سے دوچار کیا، ایک ایٹمی مملکت کو امریکی کالونی بنادیااور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن کرکے ملکی سلامتی کے خلاف سازش کی۔انھوں نے کہا کہ فاٹا،سوات اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی پالیسی ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے جس سے حکومت اور فوج کو مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ انھوںنے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ لیا لیکن اس کی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اورامریکی مصلحتوں کی خاطر اپنی قوم کوجیٹ طیاروںسے نشانہ بنایا جارہاہے ۔ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتی ہیں اور اب بھی ان غلطیوں کو دہرایا جارہاہے،اور عوامی حکومت کا دعویدار ہونے کے باوجود عوامی احساسات کی ترجمانی نہیں کی جارہی۔ ملک و قوم کو ایک امین اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو قومی خزانے پرغریب اورمظلوم کے پہلے حق کو تسلیم کرے اور اس کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو اپنا فرض سمجھے۔ چستان میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ کوئٹہ سے زیارت تک تباہی کے آثار ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔پوری قوم کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی دل کھول کرمددکرے۔جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے پنجاب مشکل کی گھڑی میں بلوچستان کے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے 10کروڑ روپے کا چیک لے کر آئے ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید امداد بھی مہیا کریں گے۔ ضروری امدادی اشیاء پر مشتمل 50ٹرکوں کا قافلہ صوبائی وزیر سردار دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں کل یہاں پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے ‘ صورتحال کا جائزہ لینے اور امداد کی فراہمی کیلئے کوئٹہ پہنچے پر کیا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی ‘ صوبائی وزراء ،مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ سردار یعقوب ناصر اور دیگر قائدین نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقہ ضلع زیارت کا دورہ کیا جہاں انہیں پاک فوج کے ریلیف کمشنر نے اب تک متاثرین کو دی جانے والی ریلیف کے متعلق تفصیلاً بریفنگ دی ۔ میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ہم اس دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے غمزدہ بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں ۔میں نے بلوچستان کے زلزلہ زدگان کی بحالی اور ریلیف کے لئے جو اپیل کی ہے پنجاب کے عوام نے اس کا بھر پور جواب دیا ہے اور وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سینئر مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی متاثرہ بلوچی بھائیوں کی ضروریات اور انہیں ریلیف کی فراہمی کے لئے دن رات کام کر رہی ہے جس کی کاوشوںسے پنجاب سے اشیائے ضروریہ اور خوراک کی ترسیل بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جاری ہے۔ انہوں نے 10کروڑ روپے کا چیک وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پیش کرتے ہوئے کہاکہ امدادی اشیاء پر مشتمل 50 ٹرکوں کا قافلہ بھی صوبہ پنجاب سے روانہ ہو چکا ہے جو کل تک متاثرہ علاقوں میں پہنچ جائے گا۔ اس میں20 لاکھ روپے مالیت کے خیمے اور دیگر امدادی اشیاءبھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی متاثرین کو جس چیز کی ضرورت ہوگی ہم وہ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کریں گے ۔ اس موقع پر ضلعی رابطہ افسر اسفند یار نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پنجاب حکومت کی جانب سے آئے ہوئے امدادی اشیاء پر مشتمل 10 ٹرکوں کی چابیاں حوالے کیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا اس موقع پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ کی طرح مصیبت کی اس گھڑی میں صوبہ پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کی بھر پور مدد کی ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ امدادی اشیاءکی حقیقی متاثرین تک بھر پور رسائی کیلئے ایماندار اور مخلص لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاکہ انہیں امدادی اشیاءجلد از جلد فراہم ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو تمام نقصانات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں متاثرین کو بھر پور ریلیف دیاجائے گا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونے والے ’بلوچستان جرگے‘ کی اہمیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی توقعات کے منافی کسی اقدام کا ارادہ کیا گیا تو سب سے پہلے میں اس کی مخالفت کروں گا۔انھوں نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری نے مجھے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جس پر مجھے سخت حیرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے منتخب اراکین نے بلا مقابلہ جس شخص کو وزیرِاعلیٰ چنا ہے، جو صوبے کے تقریباً سو فیصد عوام کا نمائندہ ہو، اسے صوبے سے متعلق فیصلوں اور مشاورت میں شریک نہ کرنا اچنبھے کی بات ہے۔وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے عوام کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں سب سے پہلے اس کی مخالفت کروں گا۔اس استدلال پر کہ صدرزرداری کی صدارت میں ہونے والے بلوچستان جرگے کا مقصد انٹلیکچول اِن پ±ٹ (Intellectual Input) بتایا جا رہا ہے، نواب اسلم رئیسانی نے کہا تو کیا وہ ہمیں ’جاہل‘ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں صرف حکومتی نہیں صوبے کا سیاسی قائد بھی ہوں اور جسے تمام اراکین کا اعتماد حاصل ہے۔ میں فیڈرل یونٹ کی سب سے اہم سیاسی شخصیت ہوں۔ مجھے مدعو نہ کیا جانا بڑے دکھ کی بات ہے۔صوبہ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں وزیرِاعلیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی انتظامیہ دستیاب وسائل میں تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی ہے اور ہم بین الاقوامی اداروں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ، یورپی یونین، کویت، متحدہ عرب امارات، چین اور متعدد ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے امداد کی پیش کش کی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زلزلوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔اے پی ایس

امریکہ معاشی اور سیاسی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے ۔ تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس




امریکہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے آنے والے دنوں میں امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں ماندھ پڑ جائیں گی اب وہ دوسرے ملکوں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ۔ ہانگ کانگ کے معاشی تجریاتی ادارے پی ای آر سی نے دنیا میں مالیاتی بحران کا محور امریکہ کو قرار دیتے ہوئے ۔ 16 ملکوں کے جائزے کے بعدعالمی مالیاتی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بھارت ‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ 2009 ء میں انتہائی سیاسی اور معاشرتی خطروں سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں جس کی اہم وجہ داخلی عدم استحکام ہے ۔ تجزیے کے اس پیمانے میں معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بہترین حالت والے ملک کو صفر اور انتہائی خطرے والے ملک کو 10 نمبر دیا گیا ہے ۔ بھارت کا سکور 6.87 ء ہے جس میں آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت پسندانہ حملوں کے اندیشوں کو شامل رکھا گیا ہے ۔ مالیاتی بحران کا بھارت ‘ ملائیشیاءاور تھائی لینڈ پر بہت زیادہ خراب اثر نہیں پڑے گا لیکن عالمی اقتصادی طوفان ان ملکوں میں داخلی صورت حال بد سے بدتر بنا سکتا ہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے بھارتی کشش آئندہ انتخابات میں کوئی بھی کامیاب ہو ‘ برقرار رہے گی ۔ پی ای آر سی کے مینجنگ ڈائریکٹر رابرٹ بروڈفٹ نے کہا ہے کہ بھارت ‘ تھائی لینڈ اور ملائیشیا کو عالمی مالیاتی بحران سے اتنا خطرہ نہیں جتنا انہیں داخلی محاذ پرہے ۔ تھائی لینڈ 6.87 ءسکور کے ساتھ دوسری پوزیشن پرہے جہاں موجودہ سیاسی اتھل 2009 ء میں ملک کے کلیدی اداروں کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے ۔ ملائیشیاء خطرے سے دوچار ملکوں میں تیسرے پوزیشن پر ہے جہاں سیاسی اقتدار کی جدوجہد ‘ نسلی اور مذہبی تناو¿ کو بڑھا رہی ہے جاپان ‘ ہانگ کانگ ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا انتہائی مستحکم اور بہت کم سیاسی خطرے سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں لیکن 2009 ء میں ان کی معیشت عالمی مالیاتی بحران کی زد میں آسکتی ہے ۔ امریکہ کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ مالیاتی بحران کا محور ہے اور اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں پہلے کے مقابلے میں ماند پڑ سکتی ہیں اور دوسرے ملکون پر اپنے خیالات و نظریات مسلط کرنے کے معاملے میں پہلے کی طرح جارح نہیں رہ پائے گا ۔ اور ایشیاء میں وہ جاپان ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا چین کی پوزیشن 5.33 ء بتائی گئی ہے جس کے لئے 2009 ءآسان نہیں ہو گا اور ایکسپورٹ مارکیٹ کمزور پڑنے کی وجہ سے اسے اپنی اقتصادی سرگرمی اور داخلی مانگ سے نمٹنے میں دشواری پیش آئے گی اور اوسطاً چینی عوام اپنے اخراجات کے تئیں محتاط ہو جائیں گے۔جبکہ امریکی کریڈیٹ بحران کے باعث پاکستانی برآمدات پر بھی ممکنہ طور پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔آج سے تقریباًتیرہ برس قبل جے پی مورگن نے ایک فنانشل ایجاد کریڈیٹ دیفالٹ سویپ کا پہلا سودا متعارف کروایا اور اس انسٹرومنٹ کے بازار کا حجم2007ء کے وسط تک 45کھرب ڈالر ہو گیا ۔یہی وہ فنانشل انسٹرومنٹ ہے جس نے سب پرائم مورٹ گیج بحران کے اثرات کو پھیلانے میں چین کا کام کیا اور اب اس بحران سے امریکی معیشت میں آنے والا سلو ڈاو¿ن معیشت کو ریسیشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے،چونکہ امریکا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے اس لئے وہ ممالک جو امریکا سے تجارت کرتے ہیں امریکی طلب میں کمی کے نتیجے میں بحران کی زد میں یا تو آچکے ہیں یا آئیں گے۔پاکستانی تاجر کہتے ہیں کہ انہیں امریکی کسٹمرز نے خطوط لکھنا شروع کر دیئے ہیں کہ وہ اپنا مال یا تو روک لیں یا اس میں کمی کریں جبکہ دوسری طرف کچھ تجزیہ کاروں کا نقطہ نظر قدرے مختلف ہے۔ان کا خیال ہے کہ امریکی کریڈیٹ بحران ابھی ان کے منیو فیکچرنگ سیکٹر میں داخل نہیں ہوا لیکن جب یہ سیکٹرمتاثر ہوا تو اس کے اثرات پاکستانی برآمدات پر پڑیں گے۔واضح رہے کہ پاکستان کی امریکا کو کی جانے والی برآمدات کا حجم کل برآمدات کے پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔عالمگیر سطح پر امریکی ہتھیاروں کی معاملتوں میں گزشتہ ال تقریباً پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 2006ءمیں 16.7 بلین ڈالرز سے بڑھ کر 24.8 بلین ڈالرز ہو گئے ۔ امریکی کانگریس کے لیے نئی جاری کردہ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔ 2007ء میں امریکہ میں اس طرح کے معاہدے 41.5 فیصد ہو گئے۔ اس کے بعد 17.3 فیصد کے ساتھ 10.3 بلین ڈالرز کا روس کا نمبر ہے ۔ کانگریشنل ریسرچ سروس نے مورخہ 23 اکتوبر کی اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ بات کہی۔ اس کے بعد برطانیہ کا تیسرا نمبر ہے جس کے اسلحہ کے معاملت کی لاگت 9.8 بلین ڈالرز ہے جبکہ 2006 میں 4.1 بلین ڈالرز تھی۔ رپورٹ جس کا عنوان ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی روایتی منتقلی 2006-2007 ء سے ہے یہ بات کہی گئی ہے جس کی بنیاد غیر مصرحہ امریکی حکومت کے غیر درجہ بندی ڈاٹا پر ہے ۔ گزشتہ سال امریکی اسلحہ کی معاملتوں میں 48.5 فیصد اچھال آیا تھا جو مستقبل کی پیش قیاسی کے لیے ایک چوٹی کا نشانہ ہو سکتا ہے کیونکہ معاشی دشواریوں کا بڑے خریداروں کو سامنا ہے ۔ رپورٹ کے مصنف رچرڈگر یمنٹ نے مزید یہ کہا ہے کہ اس کے علاوہ یہ امریکہ کا مکمل مظہر ہے یعنی مستحکم دفاعی انتظامات سے فائدہ اٹھانا جس کی بنیاد امریکہ ہتھیاروں کے رینج پر ہے جو دنیا بھر کی ملٹریز کے ساتھ پہلے سے ہی زیر استعمال ہے ۔ معاملت جس پر 2007 ء پر دستخط کی گئی تھی ۔ اس میں یہ صرف بڑے ہتھیار شامل ہیں بلکہ سابق میں فروخت شدہ ہتھیاروں کی جدید کاری کے ساتھ ہوئے معاہدے بھی ہیں جو فاضل پرزوں کے ایک وسیع تر رینج سے متعلق ہیں۔ گولہ بارود، آرڈنینس ٹریننگ اور سپورٹ سروس ان میں سے ہیں۔ 2007 ءمیں ترقی پذیر خریداریوں میں سعودی عرب سے سے بڑا خریدار ہے جس کی اسلحہ کی معاملتوں میں 10.6 بلین ڈالرز کی معاملتیں شامل ہیں۔ جبکہ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر پاکستان کو دوست ممالک سے امداد ملی تو آئی ایم ایف کی شرائط سے بچ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پیش کردہ شرائط پر غور کیا جا نا ناگزیر ہے اگرچہ عوام اس حق میں نہیں کہ پاکستان مزید مقروض ہو اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو ٹیکسوں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑے۔ اگرچہ فرینڈز آف پاکستان اس بحران سے نکلنے کے لیے پیکیج تیار کررہا ہے۔جبکہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوست ممالک نے فوری مددکی تو ہمیں شاید آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت نہ رہے۔وزیر اعظم نے اس افواہ کومسترد کردیا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرے ہے۔پاکستانی علاقوں پر امریکی فوج کے حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا ک ہے کہ قبائلی علاقوں پر امریکی حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے نقصان دہ ہیں اوراس سے کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اپنے ملک پر امریکی فوج کے حملوں سے نا خوش ہیں اور ان حملوں کو ملک کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سمجھتے ہیں۔جبکہ ملک بھر کے وکلاء 3نومبر کو ملک بھر میں ” یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں شاہراہ دستور سمیت تمام بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی اور دو گھنٹے کیلئے دھرنے دیئے جائیں گے جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس روز راولپنڈی بار سے خطاب میں اہم انکشافات کریں گے۔ 3نومبر 2007کو ملک کی آزاد عدلیہ پر وار کرنے والے مجرموں کا آج تک احتساب نہیں کیا گیا۔ جبکہ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاءتحریک نے گذشتہ ایک سال میں کئی کامیابیاں حاصل کیں جن میں 18فروری کے انتخابات میں عوام کا پرویز مشرف کے حامیوں کو مسترد کرنا اور آمر کی ایوان صدر سے رخصتی بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت معزول ججوں کی بحالی کا تحریری معاہدہ ہوا جس پر موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری میاں نواز شریف اسفندیار ولی مولانا فضل الرحمن اور منیر اورکزئی کے دستخط موجود ہیں۔ 3نومبر کو پاکستان میں عدلیہ پر گھناو¿نے اور مہلک وار کی برسی ہے۔وکلاءاس دن کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے ، احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی ۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے کانوں میں محترمہ شہید کا 10نومبر 2007ءکا اعلان ضرور گونج رہا ہوگا جس میں انہوںنے کہا تھاکہ جسٹس افتخار چودھری میرے اور پاکستان کے چیف جسٹس ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد میں خود ان کی رہائشگاہ پر پاکستان کا جھنڈا لہراوں گی۔ تین نومبر کو معزول چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بار سے خطاب کریں گے جس میں وہ اہم پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھائیں گے جو آج تک ان کے سینے میں دفن ہیں ۔خوفناک زلزلہ کے باعث بلوچستان کوتین نومبر کے پروگرام سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔باقی تینوں صوبوں کے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ دو گھنٹے کا دھرنا بھی دیا جائے گاجبکہ 8نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری گوجرانوالہ ڈویڑن کے وکلاءکنونشن سے خطاب کیلئے براستہ جی ٹی روڈ سیالکوٹ جائیں گے ۔تمام راستے ہر شہر میں ان کا بھرپور استقبال کیا جائے گا۔جبکہ 15نومبر کو معزول چیف جسٹس نیویارک جائیں گے جہاں پاکستانی اور امریکی عوام اور وکلاءان کا بھرپور استقبال کریں گے ۔17نومبر کو نیویارک بار چیف جسٹس کو تاحیات اعزازی ممبر شپ دے گی ۔18نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری نیویارک کے ایک لاءکالج میں لیکچر دیں گے جبکہ 19نومبر کو ہاورڈ یونیورسٹی کی جانب سے معزول چیف جسٹس کو ”میڈل آف فریڈم “دیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی 360سالہ تاریخ میں یہ میڈل اس سے پہلے امریکی وکیل تھروکٹ مارشل جو بعد میں سپریم کورٹ آف امریکہ کے جج بھی بنے انہیں اور جنوبی افریقہ کے سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا کو دیا گیا ہے ۔چیف جسٹس تیسرے شخص ہیں جنہیں یہ میڈل دیا جارہا ہے۔ اے پی ایس

قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ غیر تہذیب یافتہ عالمی طاقتیں۔تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس





معلوم ہوا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی خاموش سفارتی کوششوں سے سعودی عربیہ ، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر ، مراکش ، سوڈان، ترکی، تیونس، یمن ، سمیت یورپی ممالک، کینڈا، آسٹریلیا ، جرمنی، فرانس، برازیل، ڈنمارک و جاپان ، چین، تھائی لینڈ ، برطانیہ ، ایران نے پاکستان میں معاشی خوشحالی لانے کے لئے فوری امداد کا یقین دلایا ہے ۔امریکا کے دورے سے واپسی کے بعد آصف زرداری نے تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں پاکستان کی معیشت کو بچانے کیلئے خود رابطے کرنا پڑیں گے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے پیٹرول کے علاوہ پاکستان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے بھی امداد کا یقین دلایا ہے ۔صدر زرداری کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر شاہ عبداللہ پاکستانی عوام کو بڑی امداد کی خوش خبری دیں گے ۔ ادھر جرمنی ، فرانس، برطانیہ، چین اور جاپان نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کا ہر ممکن یقین دلایا ہے اگلے چند ہفتوں میں ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے لئے امداد آنے کی امید ہے ایران نے بھی پیٹرول اور بجلی تین برسوں تک اسلامی بھائی چارے کے تحت تحفتاً دینے کا وعدہ کیا ہے صدرآصف زرداری کا اس حوالے سے یہ اقدام خوش آئند ہے جبکہ عوام نے صدر آصف زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ وطن عزیز جو اس وقت ایک خوفناک معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ قومی بچت میں کفایت شعاری کرنے سے بھی کا فی بچت ہوسکتی ہے اور اس ضمن میں ضروری ہے کہ تمام اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کی بھاری بھرکم تنخوا ہوں کو کم کر کے پانچ ہزار اعزازیہ مقرر کر دیا جا ئے۔اگرقومی مفاد میںیہ بات کسی پارلیمنٹرین کو ناگوار گذرتی ہے تو اس کو ہٹا کر کسی دوسرے رضا کار ممبران کی خدمات حاصل کی جا ئیں۔کیونکہ ایک طرف ٹیکسوں کی مد اور مہنگائی کی شکل میں عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہما رے پارلیمنٹرین قومی خزانے سے کروڑوں روپے اپنی تنخواہوں،الائونس،اور مراعات کی شکل میں حا صل کر رہے ہیں۔عوام کا خیال ہے کہ ہمارے پا رلیمنٹرین کے اور بھی دولت کمانے کے دھندے کا فی ہیں کیونکہ ان میں اکثریت امیر ترین جا گیر داروں،اور ملک بھر کے ٹاپ صنعتکاروں کی ہے۔اس لحاظ سے ان کا بھو کے مرنے کا کوئی خدشہ نہیں جب کہ دوسری طرف عوام جن سے یہ ووٹ لیکر آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں البتہ وہ ضرور بھو ک اور فا قہ کشی سے مر رہی ہے۔نیز صدر پاکستان آصف زرادری سے یہ بھی گذارش ہے کہ ملک بھر سے کروڑوں روپیہ روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں موجود موبائل کمپنیاں جھا ڑوں لگا کر اکٹھا کر رہی ہیں کیا ایسا ممکن ہے آپ کی حکومت بھی ایک کھمبا اور ایک ڈبہ بنا نے کا حکم دے کر اس صنعت میں خود کفیل ہوجا ئے اور پہلے سے موجود مو بائل کمپنیوں کو خبردار کر دیا جا ئے کہ آپ کا آیندہ ری کنٹر یکٹ لا ئسنس نہیں ہوگا اور اپنا بندو بست کر یں۔امید ہے کہ ایسا کر نے سے مزید آپ کو وطن عزیز کیلئے دربدر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔سننے میں یہی آیا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں ما ہانہ کروڑوں رو پے ادا کر تی رہی ہیں اور اس کے عوض ملک کی اندرونی معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔جبکہ ملکی معشیت کو مزید بہتر بنا نے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجا رہ اداری ختم کی جا ئے۔ہمارے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ ہمارا ہی پینے کا پا نی ہمارے آگے سیل کررہی ہیں۔بات کرنے کا مقصد وہ ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے کسی حکمران نے کبھی اس غرض سے بیرونی دورہ نہیں کیا کہ جس میں اسکا یہ ایجنڈا ہو کہ کسی قسم کی بھی ٹیکنا لو جی میں خود کفیل ہوا جا ئے ہر ایک کا اپنا ایجنڈا رہا ہے کہ ملک و قوم کے نام پر لوٹنا کس طرح ہے اور ذاتی کاروبار کس طرح چمکانا ہے۔جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور نے کہا ہے کہ شوکت عزیز اور ان کی اقتصادی ٹیم موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار ہے، انہیں اور ان کی ٹیم کو طلب کیا جائے،اور 2003ءسے 2005ء کے درمیان پیدا ہونے والے اسٹاک مارکیٹ بحران کی ازسرنو تحقیقات کی جائیں، مشیر خزانہ نے یقین دلایا ہے کہ حکومت معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور ترقیاتی پروگرام کے لیے رقم نہیں موجودہ بجٹ غلط ہے، 2 سال کے اندر اندر ملک بحران سے نکل آئے گا، افراط زر کی شرح میں کمی زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنایا جائیگا، ملک 70 کھرب روپے کا مقروض ہے، زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت ساڑھے 7ارب ڈالر ہیں، آئی ایم ایف سے مالی امداد اپنی شرائط پر لیں گے، انہوں نے کہاکہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے صورتحال کو درست کر لیا جائیگا،قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاو¿س میں چیئرپرسن فوزیہ وہاب کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین اور کمیٹی کے اراکین عبدالرشید گوڈیل، محمد جمیل ملک، خواجہ محمد آصف، مخدوم فیصل صالح حیات، قیصر اورکزئی، ریاض فتیانہ، محمد افضل سندھو، کشمالہ طارق، بشریٰ گوہر، نگہت پروین، خالدہ صفدر اور شہناز وزیر علی کے علاوہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا مکمل جائزہ پیش کیا اور ارکان کے مختلف سوالات کے جواب دیے، کشمالہ طارق ، خواجہ محمد آصف اور دیگر ارکان نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر خزانہ عمر ایوب، ڈاکٹر سلمان شاہ اور ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا، کشمالہ طارق نے کہا ہے شوکت عزیز کو اجلاس میں طلب کیا جانا چاہئے تاکہ وہ معیشت کے اس نوبت تک پہنچنے کی وجوہات بتائیں، مخدوم فیصل صالح حیات نے کہا کہ شوکت عزیز کے ساتھ ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو بلایا جائے۔جہاں تک شوکت عزیز اور ان کی ٹیم کا تعلق ہے تو شوکت عزیز ہی اس وقت فرار ہیں اگر وہ آ بھی جا ئیں تو وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی ٹیم ادھر ہی ہے سیاسی لوگ ایوانوںمیں جبکہ ان کے دور کے ایڈوائزر اور افسر شاہی سارے اپنی اپنی سیٹوں پر ریڈ ٹائی لگا کر کام کر رہے ہیں وہ کیا کا م کر رہے یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا لیکن تنخواہیں ضرور وصول کر رہے ہیں۔انھوں نے پاکستانی معشیعت کا بیڑا غرق کیوں کیا یہ سوال ہم ان سے اس لئے نہیں پوچھ سکتے کیونکہ وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہیں۔جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور کسی دو چار بڑے مگر مچھوں کو قو می خزانہ لوٹنے پر پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے سرعام لائیو کوریج کے ساتھ کر نیوں سے فضا میں لٹکا کر پھا نسی نہیں دی جا تی کو ئی بھی قومی اقتصادی ڈاکو عبرت نہیں پکڑے گا۔کیونکہ اس وقت قوم کے مجرم طاقت ور ہیں جبکہ ان کی رعایا بے بس ہے۔جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قرار دیا گیا آزاد منش، لائق ، غیر جانبدار ججوں پر مشتمل عدلیہ ہی انصاف فراہم کرتی ہے ، آئین کی حکمرانی پر عمل پیرا قومیں ہی معاشی وسماجی ترقی کرتی ہیں، وکلاءاور قوم اس ملک میں آزاد عدلیہ کے قیام کیلئے ایک تاریخی جدوجہد کر رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب وکلاءاور پوری قوم کاآزاد عدلیہ کا خواب پورا ہوگا۔پاکستان اس حوالے سے اپنے سیاسی اداروں کو جمہوریت کے راستے پر چلانے اور آئین کے استحکام کے لئے بہت زیادہ خوش قسمت نہیں ہے اس ملک کی تاریخ مختلف ہے، یہاں کئی آئینی بحران آئے ، فوج کی دخل اندازی سے آئین منسوخ یا معطل کیا گیا، پارلیمنٹ تحلیل اور حکومت برطرف رہی، یہ غیر آئینی اقدامات سپریم کورٹ کے لئے چیلنج تھے، اس عدالت کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، ان فیصلوں نے عام طور پر فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قراردیا،ایک ایکشن اوورایکشن انقلابی جواز کی ڈاکٹرائن کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا جبکہ ایک دوسرا ایکشن نظریہ ضرورت کے تحت حق بجانب قرار دیا لہٰذا یہاں تواتر سے آئین و قانونی حکمرانی میں وقفے آئے اور جمہوریت متعدد بار انتشار کا شکار رہی یکے بعد دیگرے بننے والے دستایر اور خاص طور پر 1973 کا آئین جو موجودہ اعلیٰ ترین قانون ہے وہ آزاد عدلیہ فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کو ایک وفاق قرار دیتا ہے، نگرانی توازن کے تحت اختیارات کی علیحدگی فراہم کرتا ۔اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک کی معزول ججوں کی بحالی کیلئے مذاکرات کی دعوت کے بارے میں ساتھیوں کی مشاورت کے بعد اپنا فیصلہ سامنے لائیں گے۔ علی احمد کرد اور ان کے ساتھیوں کو اسی ”ون پوائنٹ ایجنڈہ“ پر ووٹ ملے ہیں اوران کی پہلی ترجیح اسی ایک نکاتی ایجنڈہ کا حصول ہے۔وہ آئندہ تین چار روز میں نو منتخب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اجلاس اسلام آباد میں بلا رہے ہیں جس میں وہ اس دعوت کو زیر غور لائیں گے اور اس موضوع پر مشاورت کریں گے۔ خوبصورت مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی معاملہ پر دعوت پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں اور تحریک میں شامل دوستوں سے مشاورت کی جائے۔ ملک بھر میں جاری اس بڑی تحریک میں شامل لوگوں کو بڑی توقعات وابستہ ہیں اور یہی طریقہ کار ہوا چاہیے کہ سب سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔پاکستان کے عوام کیلئے عالمی برادری اور ترقی یافتہ مما لک کا غیر تہذیب یافتہ چہرہ جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ مما لک جنھیں تیسری دنیا کے مما لک اور اس کے عوام نے مہذب مما لک سمجھا ہوا ہے وہ ان کا دہرا معیار ہے۔اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے کہ عالمی برادری نے معزول ججز کو بحال نہ کر نے کی موجودہ حکومت سے ضمانتلی ہوئی ہے۔جس کا اعتراف موجودہ حکومت بھی کئی ایک دفعہ کر چکی ہے۔لہذا پاکستان میں قا نون کی حکمرانی کے نفاذ میں سب سے بڑی رکا وٹ غیر تہذب یا فتہ عالمی برادری ہے وہی نہیں چا ہتی کہ معزول چیف جسٹس بحال ہوں۔اسے خدشہ ہے کہ قانون کی حکمرانی سے سابقہ کسی حکمران کو عبرت کا نشان بنا یا گیا تو آئندہ پاکستان میں کو ئی بھی حکمران اس کا آلہ کا ر بن کر اسلام، پاکستان اور اس کے عوام دشمن پالیسیوں پر عمل کر کے ان طا قتوں کے مفادات کیلئے کام نہیں کرے گا۔اے پی ایس