
معلوم ہوا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی خاموش سفارتی کوششوں سے سعودی عربیہ ، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر ، مراکش ، سوڈان، ترکی، تیونس، یمن ، سمیت یورپی ممالک، کینڈا، آسٹریلیا ، جرمنی، فرانس، برازیل، ڈنمارک و جاپان ، چین، تھائی لینڈ ، برطانیہ ، ایران نے پاکستان میں معاشی خوشحالی لانے کے لئے فوری امداد کا یقین دلایا ہے ۔امریکا کے دورے سے واپسی کے بعد آصف زرداری نے تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں پاکستان کی معیشت کو بچانے کیلئے خود رابطے کرنا پڑیں گے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے پیٹرول کے علاوہ پاکستان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے بھی امداد کا یقین دلایا ہے ۔صدر زرداری کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر شاہ عبداللہ پاکستانی عوام کو بڑی امداد کی خوش خبری دیں گے ۔ ادھر جرمنی ، فرانس، برطانیہ، چین اور جاپان نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کا ہر ممکن یقین دلایا ہے اگلے چند ہفتوں میں ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے لئے امداد آنے کی امید ہے ایران نے بھی پیٹرول اور بجلی تین برسوں تک اسلامی بھائی چارے کے تحت تحفتاً دینے کا وعدہ کیا ہے صدرآصف زرداری کا اس حوالے سے یہ اقدام خوش آئند ہے جبکہ عوام نے صدر آصف زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ وطن عزیز جو اس وقت ایک خوفناک معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ قومی بچت میں کفایت شعاری کرنے سے بھی کا فی بچت ہوسکتی ہے اور اس ضمن میں ضروری ہے کہ تمام اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کی بھاری بھرکم تنخوا ہوں کو کم کر کے پانچ ہزار اعزازیہ مقرر کر دیا جا ئے۔اگرقومی مفاد میںیہ بات کسی پارلیمنٹرین کو ناگوار گذرتی ہے تو اس کو ہٹا کر کسی دوسرے رضا کار ممبران کی خدمات حاصل کی جا ئیں۔کیونکہ ایک طرف ٹیکسوں کی مد اور مہنگائی کی شکل میں عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہما رے پارلیمنٹرین قومی خزانے سے کروڑوں روپے اپنی تنخواہوں،الائونس،اور مراعات کی شکل میں حا صل کر رہے ہیں۔عوام کا خیال ہے کہ ہمارے پا رلیمنٹرین کے اور بھی دولت کمانے کے دھندے کا فی ہیں کیونکہ ان میں اکثریت امیر ترین جا گیر داروں،اور ملک بھر کے ٹاپ صنعتکاروں کی ہے۔اس لحاظ سے ان کا بھو کے مرنے کا کوئی خدشہ نہیں جب کہ دوسری طرف عوام جن سے یہ ووٹ لیکر آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں البتہ وہ ضرور بھو ک اور فا قہ کشی سے مر رہی ہے۔نیز صدر پاکستان آصف زرادری سے یہ بھی گذارش ہے کہ ملک بھر سے کروڑوں روپیہ روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں موجود موبائل کمپنیاں جھا ڑوں لگا کر اکٹھا کر رہی ہیں کیا ایسا ممکن ہے آپ کی حکومت بھی ایک کھمبا اور ایک ڈبہ بنا نے کا حکم دے کر اس صنعت میں خود کفیل ہوجا ئے اور پہلے سے موجود مو بائل کمپنیوں کو خبردار کر دیا جا ئے کہ آپ کا آیندہ ری کنٹر یکٹ لا ئسنس نہیں ہوگا اور اپنا بندو بست کر یں۔امید ہے کہ ایسا کر نے سے مزید آپ کو وطن عزیز کیلئے دربدر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔سننے میں یہی آیا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں ما ہانہ کروڑوں رو پے ادا کر تی رہی ہیں اور اس کے عوض ملک کی اندرونی معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔جبکہ ملکی معشیت کو مزید بہتر بنا نے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجا رہ اداری ختم کی جا ئے۔ہمارے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ ہمارا ہی پینے کا پا نی ہمارے آگے سیل کررہی ہیں۔بات کرنے کا مقصد وہ ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے کسی حکمران نے کبھی اس غرض سے بیرونی دورہ نہیں کیا کہ جس میں اسکا یہ ایجنڈا ہو کہ کسی قسم کی بھی ٹیکنا لو جی میں خود کفیل ہوا جا ئے ہر ایک کا اپنا ایجنڈا رہا ہے کہ ملک و قوم کے نام پر لوٹنا کس طرح ہے اور ذاتی کاروبار کس طرح چمکانا ہے۔جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور نے کہا ہے کہ شوکت عزیز اور ان کی اقتصادی ٹیم موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار ہے، انہیں اور ان کی ٹیم کو طلب کیا جائے،اور 2003ءسے 2005ء کے درمیان پیدا ہونے والے اسٹاک مارکیٹ بحران کی ازسرنو تحقیقات کی جائیں، مشیر خزانہ نے یقین دلایا ہے کہ حکومت معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور ترقیاتی پروگرام کے لیے رقم نہیں موجودہ بجٹ غلط ہے، 2 سال کے اندر اندر ملک بحران سے نکل آئے گا، افراط زر کی شرح میں کمی زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنایا جائیگا، ملک 70 کھرب روپے کا مقروض ہے، زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت ساڑھے 7ارب ڈالر ہیں، آئی ایم ایف سے مالی امداد اپنی شرائط پر لیں گے، انہوں نے کہاکہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے صورتحال کو درست کر لیا جائیگا،قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاو¿س میں چیئرپرسن فوزیہ وہاب کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین اور کمیٹی کے اراکین عبدالرشید گوڈیل، محمد جمیل ملک، خواجہ محمد آصف، مخدوم فیصل صالح حیات، قیصر اورکزئی، ریاض فتیانہ، محمد افضل سندھو، کشمالہ طارق، بشریٰ گوہر، نگہت پروین، خالدہ صفدر اور شہناز وزیر علی کے علاوہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا مکمل جائزہ پیش کیا اور ارکان کے مختلف سوالات کے جواب دیے، کشمالہ طارق ، خواجہ محمد آصف اور دیگر ارکان نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر خزانہ عمر ایوب، ڈاکٹر سلمان شاہ اور ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا، کشمالہ طارق نے کہا ہے شوکت عزیز کو اجلاس میں طلب کیا جانا چاہئے تاکہ وہ معیشت کے اس نوبت تک پہنچنے کی وجوہات بتائیں، مخدوم فیصل صالح حیات نے کہا کہ شوکت عزیز کے ساتھ ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو بلایا جائے۔جہاں تک شوکت عزیز اور ان کی ٹیم کا تعلق ہے تو شوکت عزیز ہی اس وقت فرار ہیں اگر وہ آ بھی جا ئیں تو وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی ٹیم ادھر ہی ہے سیاسی لوگ ایوانوںمیں جبکہ ان کے دور کے ایڈوائزر اور افسر شاہی سارے اپنی اپنی سیٹوں پر ریڈ ٹائی لگا کر کام کر رہے ہیں وہ کیا کا م کر رہے یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا لیکن تنخواہیں ضرور وصول کر رہے ہیں۔انھوں نے پاکستانی معشیعت کا بیڑا غرق کیوں کیا یہ سوال ہم ان سے اس لئے نہیں پوچھ سکتے کیونکہ وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہیں۔جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور کسی دو چار بڑے مگر مچھوں کو قو می خزانہ لوٹنے پر پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے سرعام لائیو کوریج کے ساتھ کر نیوں سے فضا میں لٹکا کر پھا نسی نہیں دی جا تی کو ئی بھی قومی اقتصادی ڈاکو عبرت نہیں پکڑے گا۔کیونکہ اس وقت قوم کے مجرم طاقت ور ہیں جبکہ ان کی رعایا بے بس ہے۔جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قرار دیا گیا آزاد منش، لائق ، غیر جانبدار ججوں پر مشتمل عدلیہ ہی انصاف فراہم کرتی ہے ، آئین کی حکمرانی پر عمل پیرا قومیں ہی معاشی وسماجی ترقی کرتی ہیں، وکلاءاور قوم اس ملک میں آزاد عدلیہ کے قیام کیلئے ایک تاریخی جدوجہد کر رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب وکلاءاور پوری قوم کاآزاد عدلیہ کا خواب پورا ہوگا۔پاکستان اس حوالے سے اپنے سیاسی اداروں کو جمہوریت کے راستے پر چلانے اور آئین کے استحکام کے لئے بہت زیادہ خوش قسمت نہیں ہے اس ملک کی تاریخ مختلف ہے، یہاں کئی آئینی بحران آئے ، فوج کی دخل اندازی سے آئین منسوخ یا معطل کیا گیا، پارلیمنٹ تحلیل اور حکومت برطرف رہی، یہ غیر آئینی اقدامات سپریم کورٹ کے لئے چیلنج تھے، اس عدالت کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، ان فیصلوں نے عام طور پر فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قراردیا،ایک ایکشن اوورایکشن انقلابی جواز کی ڈاکٹرائن کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا جبکہ ایک دوسرا ایکشن نظریہ ضرورت کے تحت حق بجانب قرار دیا لہٰذا یہاں تواتر سے آئین و قانونی حکمرانی میں وقفے آئے اور جمہوریت متعدد بار انتشار کا شکار رہی یکے بعد دیگرے بننے والے دستایر اور خاص طور پر 1973 کا آئین جو موجودہ اعلیٰ ترین قانون ہے وہ آزاد عدلیہ فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کو ایک وفاق قرار دیتا ہے، نگرانی توازن کے تحت اختیارات کی علیحدگی فراہم کرتا ۔اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک کی معزول ججوں کی بحالی کیلئے مذاکرات کی دعوت کے بارے میں ساتھیوں کی مشاورت کے بعد اپنا فیصلہ سامنے لائیں گے۔ علی احمد کرد اور ان کے ساتھیوں کو اسی ”ون پوائنٹ ایجنڈہ“ پر ووٹ ملے ہیں اوران کی پہلی ترجیح اسی ایک نکاتی ایجنڈہ کا حصول ہے۔وہ آئندہ تین چار روز میں نو منتخب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اجلاس اسلام آباد میں بلا رہے ہیں جس میں وہ اس دعوت کو زیر غور لائیں گے اور اس موضوع پر مشاورت کریں گے۔ خوبصورت مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی معاملہ پر دعوت پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں اور تحریک میں شامل دوستوں سے مشاورت کی جائے۔ ملک بھر میں جاری اس بڑی تحریک میں شامل لوگوں کو بڑی توقعات وابستہ ہیں اور یہی طریقہ کار ہوا چاہیے کہ سب سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔پاکستان کے عوام کیلئے عالمی برادری اور ترقی یافتہ مما لک کا غیر تہذیب یافتہ چہرہ جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ مما لک جنھیں تیسری دنیا کے مما لک اور اس کے عوام نے مہذب مما لک سمجھا ہوا ہے وہ ان کا دہرا معیار ہے۔اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے کہ عالمی برادری نے معزول ججز کو بحال نہ کر نے کی موجودہ حکومت سے ضمانتلی ہوئی ہے۔جس کا اعتراف موجودہ حکومت بھی کئی ایک دفعہ کر چکی ہے۔لہذا پاکستان میں قا نون کی حکمرانی کے نفاذ میں سب سے بڑی رکا وٹ غیر تہذب یا فتہ عالمی برادری ہے وہی نہیں چا ہتی کہ معزول چیف جسٹس بحال ہوں۔اسے خدشہ ہے کہ قانون کی حکمرانی سے سابقہ کسی حکمران کو عبرت کا نشان بنا یا گیا تو آئندہ پاکستان میں کو ئی بھی حکمران اس کا آلہ کا ر بن کر اسلام، پاکستان اور اس کے عوام دشمن پالیسیوں پر عمل کر کے ان طا قتوں کے مفادات کیلئے کام نہیں کرے گا۔اے پی ایس
No comments:
Post a Comment