
امریکہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے آنے والے دنوں میں امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں ماندھ پڑ جائیں گی اب وہ دوسرے ملکوں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ۔ ہانگ کانگ کے معاشی تجریاتی ادارے پی ای آر سی نے دنیا میں مالیاتی بحران کا محور امریکہ کو قرار دیتے ہوئے ۔ 16 ملکوں کے جائزے کے بعدعالمی مالیاتی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بھارت ‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ 2009 ء میں انتہائی سیاسی اور معاشرتی خطروں سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں جس کی اہم وجہ داخلی عدم استحکام ہے ۔ تجزیے کے اس پیمانے میں معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بہترین حالت والے ملک کو صفر اور انتہائی خطرے والے ملک کو 10 نمبر دیا گیا ہے ۔ بھارت کا سکور 6.87 ء ہے جس میں آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت پسندانہ حملوں کے اندیشوں کو شامل رکھا گیا ہے ۔ مالیاتی بحران کا بھارت ‘ ملائیشیاءاور تھائی لینڈ پر بہت زیادہ خراب اثر نہیں پڑے گا لیکن عالمی اقتصادی طوفان ان ملکوں میں داخلی صورت حال بد سے بدتر بنا سکتا ہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے بھارتی کشش آئندہ انتخابات میں کوئی بھی کامیاب ہو ‘ برقرار رہے گی ۔ پی ای آر سی کے مینجنگ ڈائریکٹر رابرٹ بروڈفٹ نے کہا ہے کہ بھارت ‘ تھائی لینڈ اور ملائیشیا کو عالمی مالیاتی بحران سے اتنا خطرہ نہیں جتنا انہیں داخلی محاذ پرہے ۔ تھائی لینڈ 6.87 ءسکور کے ساتھ دوسری پوزیشن پرہے جہاں موجودہ سیاسی اتھل 2009 ء میں ملک کے کلیدی اداروں کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے ۔ ملائیشیاء خطرے سے دوچار ملکوں میں تیسرے پوزیشن پر ہے جہاں سیاسی اقتدار کی جدوجہد ‘ نسلی اور مذہبی تناو¿ کو بڑھا رہی ہے جاپان ‘ ہانگ کانگ ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا انتہائی مستحکم اور بہت کم سیاسی خطرے سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں لیکن 2009 ء میں ان کی معیشت عالمی مالیاتی بحران کی زد میں آسکتی ہے ۔ امریکہ کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ مالیاتی بحران کا محور ہے اور اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں پہلے کے مقابلے میں ماند پڑ سکتی ہیں اور دوسرے ملکون پر اپنے خیالات و نظریات مسلط کرنے کے معاملے میں پہلے کی طرح جارح نہیں رہ پائے گا ۔ اور ایشیاء میں وہ جاپان ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا چین کی پوزیشن 5.33 ء بتائی گئی ہے جس کے لئے 2009 ءآسان نہیں ہو گا اور ایکسپورٹ مارکیٹ کمزور پڑنے کی وجہ سے اسے اپنی اقتصادی سرگرمی اور داخلی مانگ سے نمٹنے میں دشواری پیش آئے گی اور اوسطاً چینی عوام اپنے اخراجات کے تئیں محتاط ہو جائیں گے۔جبکہ امریکی کریڈیٹ بحران کے باعث پاکستانی برآمدات پر بھی ممکنہ طور پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔آج سے تقریباًتیرہ برس قبل جے پی مورگن نے ایک فنانشل ایجاد کریڈیٹ دیفالٹ سویپ کا پہلا سودا متعارف کروایا اور اس انسٹرومنٹ کے بازار کا حجم2007ء کے وسط تک 45کھرب ڈالر ہو گیا ۔یہی وہ فنانشل انسٹرومنٹ ہے جس نے سب پرائم مورٹ گیج بحران کے اثرات کو پھیلانے میں چین کا کام کیا اور اب اس بحران سے امریکی معیشت میں آنے والا سلو ڈاو¿ن معیشت کو ریسیشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے،چونکہ امریکا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے اس لئے وہ ممالک جو امریکا سے تجارت کرتے ہیں امریکی طلب میں کمی کے نتیجے میں بحران کی زد میں یا تو آچکے ہیں یا آئیں گے۔پاکستانی تاجر کہتے ہیں کہ انہیں امریکی کسٹمرز نے خطوط لکھنا شروع کر دیئے ہیں کہ وہ اپنا مال یا تو روک لیں یا اس میں کمی کریں جبکہ دوسری طرف کچھ تجزیہ کاروں کا نقطہ نظر قدرے مختلف ہے۔ان کا خیال ہے کہ امریکی کریڈیٹ بحران ابھی ان کے منیو فیکچرنگ سیکٹر میں داخل نہیں ہوا لیکن جب یہ سیکٹرمتاثر ہوا تو اس کے اثرات پاکستانی برآمدات پر پڑیں گے۔واضح رہے کہ پاکستان کی امریکا کو کی جانے والی برآمدات کا حجم کل برآمدات کے پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔عالمگیر سطح پر امریکی ہتھیاروں کی معاملتوں میں گزشتہ ال تقریباً پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 2006ءمیں 16.7 بلین ڈالرز سے بڑھ کر 24.8 بلین ڈالرز ہو گئے ۔ امریکی کانگریس کے لیے نئی جاری کردہ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔ 2007ء میں امریکہ میں اس طرح کے معاہدے 41.5 فیصد ہو گئے۔ اس کے بعد 17.3 فیصد کے ساتھ 10.3 بلین ڈالرز کا روس کا نمبر ہے ۔ کانگریشنل ریسرچ سروس نے مورخہ 23 اکتوبر کی اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ بات کہی۔ اس کے بعد برطانیہ کا تیسرا نمبر ہے جس کے اسلحہ کے معاملت کی لاگت 9.8 بلین ڈالرز ہے جبکہ 2006 میں 4.1 بلین ڈالرز تھی۔ رپورٹ جس کا عنوان ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی روایتی منتقلی 2006-2007 ء سے ہے یہ بات کہی گئی ہے جس کی بنیاد غیر مصرحہ امریکی حکومت کے غیر درجہ بندی ڈاٹا پر ہے ۔ گزشتہ سال امریکی اسلحہ کی معاملتوں میں 48.5 فیصد اچھال آیا تھا جو مستقبل کی پیش قیاسی کے لیے ایک چوٹی کا نشانہ ہو سکتا ہے کیونکہ معاشی دشواریوں کا بڑے خریداروں کو سامنا ہے ۔ رپورٹ کے مصنف رچرڈگر یمنٹ نے مزید یہ کہا ہے کہ اس کے علاوہ یہ امریکہ کا مکمل مظہر ہے یعنی مستحکم دفاعی انتظامات سے فائدہ اٹھانا جس کی بنیاد امریکہ ہتھیاروں کے رینج پر ہے جو دنیا بھر کی ملٹریز کے ساتھ پہلے سے ہی زیر استعمال ہے ۔ معاملت جس پر 2007 ء پر دستخط کی گئی تھی ۔ اس میں یہ صرف بڑے ہتھیار شامل ہیں بلکہ سابق میں فروخت شدہ ہتھیاروں کی جدید کاری کے ساتھ ہوئے معاہدے بھی ہیں جو فاضل پرزوں کے ایک وسیع تر رینج سے متعلق ہیں۔ گولہ بارود، آرڈنینس ٹریننگ اور سپورٹ سروس ان میں سے ہیں۔ 2007 ءمیں ترقی پذیر خریداریوں میں سعودی عرب سے سے بڑا خریدار ہے جس کی اسلحہ کی معاملتوں میں 10.6 بلین ڈالرز کی معاملتیں شامل ہیں۔ جبکہ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر پاکستان کو دوست ممالک سے امداد ملی تو آئی ایم ایف کی شرائط سے بچ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پیش کردہ شرائط پر غور کیا جا نا ناگزیر ہے اگرچہ عوام اس حق میں نہیں کہ پاکستان مزید مقروض ہو اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو ٹیکسوں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑے۔ اگرچہ فرینڈز آف پاکستان اس بحران سے نکلنے کے لیے پیکیج تیار کررہا ہے۔جبکہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوست ممالک نے فوری مددکی تو ہمیں شاید آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت نہ رہے۔وزیر اعظم نے اس افواہ کومسترد کردیا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرے ہے۔پاکستانی علاقوں پر امریکی فوج کے حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا ک ہے کہ قبائلی علاقوں پر امریکی حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے نقصان دہ ہیں اوراس سے کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اپنے ملک پر امریکی فوج کے حملوں سے نا خوش ہیں اور ان حملوں کو ملک کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سمجھتے ہیں۔جبکہ ملک بھر کے وکلاء 3نومبر کو ملک بھر میں ” یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں شاہراہ دستور سمیت تمام بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی اور دو گھنٹے کیلئے دھرنے دیئے جائیں گے جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس روز راولپنڈی بار سے خطاب میں اہم انکشافات کریں گے۔ 3نومبر 2007کو ملک کی آزاد عدلیہ پر وار کرنے والے مجرموں کا آج تک احتساب نہیں کیا گیا۔ جبکہ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاءتحریک نے گذشتہ ایک سال میں کئی کامیابیاں حاصل کیں جن میں 18فروری کے انتخابات میں عوام کا پرویز مشرف کے حامیوں کو مسترد کرنا اور آمر کی ایوان صدر سے رخصتی بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت معزول ججوں کی بحالی کا تحریری معاہدہ ہوا جس پر موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری میاں نواز شریف اسفندیار ولی مولانا فضل الرحمن اور منیر اورکزئی کے دستخط موجود ہیں۔ 3نومبر کو پاکستان میں عدلیہ پر گھناو¿نے اور مہلک وار کی برسی ہے۔وکلاءاس دن کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے ، احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی ۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے کانوں میں محترمہ شہید کا 10نومبر 2007ءکا اعلان ضرور گونج رہا ہوگا جس میں انہوںنے کہا تھاکہ جسٹس افتخار چودھری میرے اور پاکستان کے چیف جسٹس ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد میں خود ان کی رہائشگاہ پر پاکستان کا جھنڈا لہراوں گی۔ تین نومبر کو معزول چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بار سے خطاب کریں گے جس میں وہ اہم پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھائیں گے جو آج تک ان کے سینے میں دفن ہیں ۔خوفناک زلزلہ کے باعث بلوچستان کوتین نومبر کے پروگرام سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔باقی تینوں صوبوں کے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ دو گھنٹے کا دھرنا بھی دیا جائے گاجبکہ 8نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری گوجرانوالہ ڈویڑن کے وکلاءکنونشن سے خطاب کیلئے براستہ جی ٹی روڈ سیالکوٹ جائیں گے ۔تمام راستے ہر شہر میں ان کا بھرپور استقبال کیا جائے گا۔جبکہ 15نومبر کو معزول چیف جسٹس نیویارک جائیں گے جہاں پاکستانی اور امریکی عوام اور وکلاءان کا بھرپور استقبال کریں گے ۔17نومبر کو نیویارک بار چیف جسٹس کو تاحیات اعزازی ممبر شپ دے گی ۔18نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری نیویارک کے ایک لاءکالج میں لیکچر دیں گے جبکہ 19نومبر کو ہاورڈ یونیورسٹی کی جانب سے معزول چیف جسٹس کو ”میڈل آف فریڈم “دیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی 360سالہ تاریخ میں یہ میڈل اس سے پہلے امریکی وکیل تھروکٹ مارشل جو بعد میں سپریم کورٹ آف امریکہ کے جج بھی بنے انہیں اور جنوبی افریقہ کے سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا کو دیا گیا ہے ۔چیف جسٹس تیسرے شخص ہیں جنہیں یہ میڈل دیا جارہا ہے۔ اے پی ایس
No comments:
Post a Comment