
آج جبکہ ساری دنیا مسلمانوں کو ٹیریرسٹ یعنی شر پسند یا شدت پسند ثابت کر نے پر تلی ہو ئے ہے اور مسلمان بھی خود کو اڑا کر اس کو ثابت کرنے پر مصر ہیں اور اسے شہادت اور جہاد کہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس کے باوجود کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، گناہ ،گناہ ہی رہے گا ۔ کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسانی جان بچا نا پو ری انسانیت کو بچا نا ہے ً ہم خود بھی تو قرآن بھول چکے ہیں،اس اخلاق کو بھول چکے ہیں جو حضور کا تھا۔ جو اسلام کا طرہ امتیاز بھی ۔ جس کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیلا؟ آج دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈو نیشیا کی ہی مثال لے لیجئے کہ وہاں اسلام صرف مسلم تا جروں کی وجہ سے اتنی تیزی سے پھیلا کہ سارا ملک مسلمان ہو گیا۔ پھر کیا ہوا یہ مت پو چھئے ؟ پھر وہی ہوا جو دنیا کی تمام قوموں کے سا تھ ہو تا آیا ہے ۔کہ جب وہ خدا کا پیغام بھو ل گئیں، تو دنیا ان پر تنگ ہو گئی۔ ایسے میںکبھی کو ئی ٹمٹاتا ہوا چراغ بھی ملے توغنیمت معلوم ہوتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ یہاں بھی رو نما ہواکہ ایک مسلمان کے دل میں اللہ نے یہ خیال ڈالدیا کہ وہ اسلام کے لیئے کچھ کرے؟ پہلے تو اس نے مختلف شہروں میں یکے بعد دیگرے ایسے حلقے قائم کیئے جہاں وہ مہینہ میں کہیں چار دفعہ اور کہیں ایک دفعہ جاتا اور وہاں مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلا تا، جس کی طرف سے غافل ہونے کے بعد آج مسلمان ذلت کا شکار ہیں ؟ یعنی وہ ہر جگہ جا کر قر آنی درس دیتا تاکہ لوگ قر آن کی طرف آئیں پھر چند مہینے پہلے اللہ نے اس کے دل میں یہ خیال ڈالدیا کہ کچھ اس سے بھی آگے کیا جا ئے ؟ اس سلسلہ میں اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے ایک روشن مثال نظر آئی اور وہ تھی ٹیری فاکس کا کینسر کے خلاف پا پیادہ پورے کنا ڈا کا سفر۔ اس نے سوچا کہ یہ وائلنس یعنی انتشار و تشدت اور قانون شکنی بھی تو ایک کینسر ہی ہے؟ جو تمام دنیا کو کینسر کی طرح کھائے جارہا کیوں نہ میں بھی یہی کروں ۔ اس نے اپنے منصوبہ کا اعلان کیا اور اس کو نام دیا ً ملٹی فیتھ واک اگینسٹ وائلنس ً ۔ لہذا اس کوسب نے پسند کیا اور لمبے لمبے وعدے بھی کیئے ،مگر وہ وعدہ کیا جو وفا ہوجا ئے ؟ لہذا وہ وعدے ،وعدے ہی رہے ۔ اپنوں کی طرف سے بھی اور غیرو ں کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اب وعدوں کی وہ اہمیت ہی نہیں رہے ،جو پہلے کبھی تھی اب تو اہلِ اقتدار یہ کہتے ہیں کہ وعدہ کو ئی حدیث اور قر آن تو نہیں کہ پورا کیا جا ئے ۔؟اس میں مسلمانوں اور غیر مسلم کا ریکارڈ انیس بیس ہے ۔سب اس پر متفق ہیں کہ وعدہ اسکے ساتھ پوراکرو جو تم سے طاقتور ہو کیو نکہ وہ مارے گابہت؟ رہے اپنے سے کمزور اس کو کیا پورا کرنا ؟ رات گئی بات گئی ۔اورمسلمان انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ ان کے امتی ہیں جو امین کہلا تے تھے۔ جن کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص نے جب وہ مدینہ میں حکمراں تھے ،تو کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ یہیں ٹھیر ئیے میں ابھی آتا ہوں ۔وہ بھول گیااوردوسرے دن اسے یاد آئی تو وہاں گیا دیکھا کہ حضو ر وہیں انتظار فر مارہے ہیں ؟ مسلمان کو تو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ قر آن بار بار ایفا ئے عہد کے لیئے تاکید کر رہا؟ اور یہ بھی کہہ رہا کہ تم سے خدا قیامت میں تمہارے وعدوں کے بارے میں جواب طلب فر مائے گا ً چلو یہ ہمارا قصہ ہے ہم کہاں لے بیٹھے سمع خراشی کے لیئے؟ اب اصل قصہ کی طرف واپس آتے ہیں۔وہ آدمی دُھنی تھا اور عہد کا پکا بھی ؟ممکن ہے اس کے اندر پرانے دور کی روح گھس آئی ہو ورنہ اس دور میں ایسی شخصیت نایاب ہے۔ اس کے دلمیں لگن تھی لہذا اس نے ہر حال میں عمل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ اب عمل کا مسئلہ تھا کہ اتنے بڑے سفر کے لیئے رقم کی ضرورت ہو تی ہے اور رضا کاروں کی بھی کیونکہ یہ عجمان ، چیک اور سلواکیہ تو ہے نہیں۔ کینیڈا مشرق سے مغرب تک ساڑھے سات ہزار کلو میٹر طویل ملک ہے ؟ رہی مسلم قوم تو خدمتِ خلق میں بھی تقریباً بانجھ ہے۔ جبکہ حادی ِ بر حق نے فر ما یا کہ خدمتِ خلق کر و، خد مت خلق کرو ، خدمت ِخلق کرو۔ قر آن کہہ رہا کہ ً ُبلبلا مت بنو جو پانی سے پیدا ہوتا ہے اور پانی کی سطح پر کو ئی نشان چھو ڑے بغیر ختم ہو جا تا ،بلکہ پانی بنو جو کہ لوگوں کے کام آتا ہے، اور ساتھ میں یہ بھی خو شخبری سنار ہا کہ جو چیز انسانو ں کو فائدہ پہونچا تی ہے وہ قیامت تک قائم رہے گی ً لہذا اب نہ یہاں اس کے پاس رقم تھی نہ رضا کار مگر اسے کام تو کر نا تھا۔ بقول اس کے اس نے اپنا رہا ئشی مکان گر وی رکھدیا اور وہ اس سفر پر روانہ ہو گیا۔ دیکھا نہ، علماءکے نزدیک سود پر رقم لیکر وہ گناہ کا مرتکب ہو ااور عاقبت خراب کر لی؟پھر وہ اللہ کا نام لیکر چل پڑا اسے راہ میں اکا دکا رضا کار بھی ملتے گئے اور بچھڑتے بھی گئے ۔مگر دورفیق ایسے مل گئے جو ایک توٹورنٹوسے شامل ہوااور دوسرا شروع سے یعنی ہیلی فیکس ہی ۔اسے کبھی مزودری پر بھی لوگ پکڑنے پڑے کیونکہ واک اکیلے نہیں ہو سکتی تھی ۔ ایک چلتا پھر تا گھربھی خریدا کہ رات کو کہیں سوسکے۔ اس کے لیئے ڈرایئور بھی چا ہیئے تھا، جو اس کو چلا سکے کیو نکہ یہ یا تو واک کر سکتاتھا یا ڈرائیو کر سکتا تھا۔ وہ ہیلی فیکس سے شروع ہوا جو مشرقی کنا ڈا میں ہے اور اس کی منزل تھی کنا ڈا کا انتہا ئی مغربی کنارہ یعنی بر ٹش کو لمبیا کا شہر وکٹوریہ جہاں کنیڈا زیرو میل پتھر نصب ہے ۔ چونکہ ہمار ا شہرعظیم تروینکور راہ میں پڑتا ہے اور یہاں سے جہاز کے ذریعہ وہاں جانا ہو تا ہے۔ ایک دن پہلے اس سے وینکور کے ایک شہر رچمنڈ میں ہماری ملا قات ہو ئی کہ اس کے اعزاز میں ہمارے ایک ساتھی جنا ب افضل شاہ نے ڈنر دیا تھا ۔ وہاں تفصیلی بات چیت کا موقع ملا۔اس سے پو چھا کہ تمہیں اس سے کیا کا حا صل ہوا ؟ تو اس نے بتا یا کہ میں یہ تا ثر دینا چا ہتا تھا کہ سارے مسلمان شر پسند نہیں ہیں ۔ ہم نے پو چھا کیا تم اس میں کا میاب ہو ئے ؟ جواب تھا کہ ہاں !گو کہ اس کو ختم کر نا تو آسان نہیں ہے مگر میرا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کی ہمت افزائی نہ کر یں اور برا ئی کو برائی سمجھیں ؟ یہ ہی میرا پیغام ہے یہ ہی میرا مشن ۔اور میںاس میں کسی حد تک کامیاب رہا ہوں؟ میں نے پو چھا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب رہے؟ جواب تھا کہ میں جہاں سے بھی گزرا لو گوں نے مجھے محبت دی ،پیار دیا اور ایک بھی آدمی مخالف نہیں ملا۔ اس نے ایک واقعہ سنایاکہ سیلس بری سے جب وہ گزر،اتو وہاں ایک بوڑھی کینیڈین خاتوں اسے منتظر ملی ،اس نے بتایا کہ میں نے کل تمہیں ٹی وی پر دیکھا تھا۔ اور مجھے پتا تھا کہ آج تم یہاں سے گزرو گے، پھر ایک چیک لکھنے لگی جو کہ ایک سو ڈالر کا تھا، کہنے لگی کہ تم بہت اچھے مشن پر ہو ۔ یہ تمہارے لیئے عطیہ ہے ،مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔لہذا اس کو مہینہ کے آخر میں کیش کرا لینا ۔ واضح رہے کہ یہاں بو ڑھوں کی آمدنی کا ذریعہ وہ پنشن ہے جو حکومت کی طرف سے ہر مہینہ کی آخری تا ریخوں میں ملتی ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ میں نے کنا ڈا جیسے لو گ دنیا میں کہیں نہیں دیکھے اور کنا ڈا جیسی قدرتی خوبصورتی بھی کہیں دیکھی ؟ میں کنیڈاکو سلام کر تا ہوں ۔ دوسرے دن ہم پھر مدعو تھے دو پہر کو بارہ بجے ؟ہماری یہ گندی عادت ہے کہ ہم وقت سے تھوڑا پہلے پہو نچ جا تے ہیں ؟ لہذا ہم جب پارک میں پہو نچے تو کوئی نہیں تھا اور ہال میں لگا تھا تالا ،علی گڑھ والا؟ ہم سمجھے کے غلط جگہ پر آگئے ہیں ،لہذا اپنی کار پارکنگ لا ٹ سے نکا لی اور اس طویل پارک میںاگلے حصے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ وہاں بچے کھیل رہے تھے۔ احساس ہوا کہ پہلے تو نہ تھے مگر اب ضرور غلط جگہ پر ہیں، لہذا واپس ہو ئے۔ تو دیکھا کہ وہاں اخبار مر یکل کے چیف ایڈیٹر جناب نصیر پیر زادہ اپنی نصف بہتر کے ساتھ کار سے اترر ہیں اب یقین ہو گیا کہ دو آدمی غلط نہیں ہو سکتے ہیں؟ اور پھر وہ بھی اخبار والے؟ علیک سلیک ہو ئی ،انہیں صورت ِ حال سے آگا ہ کیاانہوں نے منتظمین کو فون کیا کہ میں اور شمس جیلانی یہا ںمو جود ہیںاور تالا ہمارا منہ چڑا رہا ہے؟ کہنے لگے کہ وہ جسکو چابی لیکر بھیجا تھا وہ کہیں اور کام سے چلا گیا ہے۔ابھی پہو نچتا ہے۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ جنا ب بدیع الدین سہروردی صاحب بھی واک کر تے ہو ئے چلے آرہے ہیں ۔ اور انکے پیچھے پیچھے ان کی آر وی یعنی چلتا پھر تا گھر بھی چلا آرہا ہے۔ چونکہ مسلمان قوم کا یہ آجکل وطیرہ ہو گیا ہے کہ وہ وقت سے دو چار گھنٹے لیٹ پہو نچنا اپنا حق سمجھتی ہے، اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھا ئی؟ اور ہم پر اسلامی تعلیمات کے بر عکس عمل کر نا فرض ہے؟اب آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ تاریخ ساز شخص کون تھا؟ بہر حال اس میں قا بل مبارک باد ہیں اس پروگرام کے منتظمین کے ساتھ جناب سلیم فاروق اور خصو صا ً جناب افضل ملک اوردوسرے متظمین کہ انہوں نے تمام معزین شہر کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ جنہوں نے سہرودری صا حب کو مبارک باد دی۔ اس میں سٹی آف سرے کی مئیر بھی تھیں، ممبر پا رلیمنٹ بھی تھے صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی تھے ، سرے اور ڈیلٹا میو نسپل کارپوریشن کے کو نسلر بھی ۔اور دوسرے بہت سے معززین بھی، علما ءکا بھی ایک گروہ تھا اس کی خصو صیت یہ تھی کہ وہ سب سے زیادہ لیٹ آیا۔یعنی تقریبا ً تین سے لیکر چار بجے تک کے درمیان ؟ امت چونکہ انہیںکی اتباع کرتی ہے؟ انہوں بھی دعا فر مائی۔ جبکہ معززین میں سے ہر ایک نے عزتافزائی اور ہمت افزائی کی اور ایک ممبر پارلیمنٹ عزت مآب جناب ہیری نے حکومت کناڈا کی طرف سے تو صیفی سند پیش کی۔پھر حاضرین کی دوپہر کے کھانے سے خاطر تواضع کی گئی۔
No comments:
Post a Comment