Thursday, October 30, 2008

امریکہ غیر تہذیب یا فتہ ۔بر طانوی نو مسلم صحافی کی گفتگو ۔تحریر: چودھری احسن پریمی




طالبان کی قید سے رہا ہو کر اسلام قبول کرنے والی برطانوی صحافی یان ریڈلی نے پاکستانی قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان میں بگرام ایئر بیس پر قائم امریکی قید خانے میں قیدی مسلمان خواتین کی رہائی کے لیے امریکہ پر دباو ڈالیں۔ امریکی سفیر کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ افغانستان میں امریکی جیل میں قید مسلمان خواتین کے حوالے سے میرے دعووں کو غلط ثابت کریں ۔مسلم برطانوی صحافی یان ریڈلی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے بگرام ایئر بیس پر امریکی قید خانے میں اب بھی مسلمان خواتین موجود ہیں پاکستانی قوم ان کی رہائی کے لیے میرے ساتھ مل کر آواز بلند کرے تاکہ امریکہ پر ان کی رہائی کے لیے دباو بڑھایا جا سکے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی قید خانے میں قید خواتین کا تعلق پاکستان اور عرب ممالک سے ہے ۔ افغانستان میں اس وقت 150 پاکستانی بچے بھی موجود ہیں جن کو پاکستان سے اغواءکرے وہاں پر لے جایا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں بڑی تعداد میں خفیہ اداروں نے امریکی اداروں کے ساتھ خفیہ آپریشن کر کے پاکستانی مرد و خواتین اور بچوں کو اغواءکر کے امریکہ کے ہاتھوں پانچ ، پانچ ہزار ڈالر میں فروخت کیا ہے ۔یہ پاکستان کی عزت ہیں اور اگرامریکہ سے 150 بچوں اور خواتین کو اغواءکر لیا جائے تو آپ سوچیں کہ امریکیوں کا کیا رد عمل ہو گیا اسی طرح سے پاکستانی قوم کو بھی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان مسلمانوں کی رہائی کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے ۔برطانوی صحافی مزید کہا ہے کہ میں جو باتیں کر رہی ہوں ثبوت کی بنیاد پر ہی کر رہی ہوں کیونکہ میں نے 30 سال تک انسویسٹی گیٹنگ رپورٹنگ کی ہے ۔ میں امریکہ کو موقع دینا چاہتی ہوں کہ وہ ان خواتین اور بچوں کو رہا کر دے ورنہ پھر میں تمام ثبوت دنیا کے سامنے لاو¿ں گی میرے پاس اس حوالے سے ثبوت کے طور پر ویڈیو بھی موجود ہے افغانستان کے بگرام ایئر بیس پر قید ی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں بلکہ اور خاتون تھی جواب بھی دوسری مسلمان خواتین کے ساتھ وہاں پر قید ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو قید خانوں میں بند کر رکھا ہے اور پاکستان کے اندر بھی ایسے خفیہ قید خانے موجود ہیں جہاں پر پاکستانیوں کو قید رکھا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ موجودہ حکومت ڈاکٹر عافیہ سمیت دیگر خواتین کی رہائی کے لیے امریکہ پر کوئی دباو¿ ڈال رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صحافی برادری پاکستان میں امریکی سفیر کو بلائے اور اس سے سوالات کرے امریکی سفیر بھی صحافیوں کو بلائیں اور اگر ان خواتین قیدیوں کے حوالے سے میرے دعو ے درست نہیں ہیں تو انہیں غلط ثابت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی قید میں میں نے ایک عرصہ گزارا اور پھر طالبان نے مجھے انسانی ہمددری کی بنیاد پر رہا کر دیا اور رہائی کے بعد میں نے اسلام قبول کیا انہوں نے میرے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا لیکن امریکہ جو اپنے آپ کو تہذیب یافتہ قوم کہتا ہے دیکھے کہ وہ خواتین قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے اس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ کیا کیا۔میں پاکستانی قوم سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بھی ان کے ساتھ مل کر امریکہ پر ان مسلمان خواتین اور بچوں کی رہائی کے لیے دباو ڈالے۔قبل ازیںبرطانیہ کی معروف صحافی ایوان ریڈلی نے کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ممتاز احمد بھٹی سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ پاکستان میں کالمسٹ ایسوسی ایشن کا قیام اچھا فیصلہ ہے۔ کالم نگار کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کا صحافت میں اہم کردار ہے۔ کالمسٹ ایسوسی ایشن کو افغانستان اور گوانتانامو میں غیر قانونی قید اور لاپتہ افراد کے لئے قلم اٹھانا چاہیے کیونکہ میڈیا کی ہی طاقت تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی منظر عام پر لائی گئی ورنہ اس کو خفیہ طریقے سے قید میں رکھا ہوا تھا اور اذیتیں دی جارہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ قیدی نمبر650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں۔ کوئی اور قیدی ہے۔ جس کے لئے کالمسٹ ایسو سی ایشن کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔اس موقع پر صدر کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان ممتاز احمد بھٹی نے ریڈ لی کو کالمسٹ ایسوسی ایشن کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور کہا کہ کالمسٹ ایسوسی ایشن ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دے گی اور ظالم کے سامنے کھڑی ہوگی۔اے پی ایس

مسئلہ رویوں کا ہے ۔ قول وفعل کے تضاد سے معاملات حل نہیں ہوتے ۔تحریر: چودھری احسن پریمی



خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ ایک روزمیں آئی ایم ایف پاکستان کے مالیاتی نظام کا کنٹرول حاصل کر سکتا ہے واردات ہو گئی تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ۔حکومت ایشوز کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ چار ماہ تک تو وزیر خزانہ کا فیصلہ نہ ہو سکا ۔ سترہ ارب ادھار پر مشیر خزانہ کو منگوایا گیا ہے ۔ جو آئی ایم ایف کو پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں رپورٹس آئی ہیں کہ آئندہ ایک روزمیں آئی ایم ایف پاکستان کے مالیاتی نظام کا کنٹرول سنبھال لے گی ۔ جبکہ سینٹر کامل علی آغا نے سینٹ میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکج کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر اسے قبول نہ کیا جائے ۔ پارلیمنٹ اسے مسترد کردے تو آئی ایم ایف سے پیکج نہ لیا جائے ۔ دادو شوگر مل کی نجکاری کو روکا جائے ہم قطعا اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں قادر پور گیس فیلڈ کی نجکاری کے ایشو کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے ۔نیشنل بنک کے 26 فیصد شیئرز کسی اور ملک کو فروخت کرنے کے بارے میں بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے ۔ ان ایشوز کو فوری طورپر ایوان میں لایا جائے ۔ کے ای ایس سی کی دوبارہ نیلامی کا خدشہ ہے ۔ یہ وارداتیں ہوگئیں تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے جو نظر آرہا ہے ۔جبکہ سینٹ میں صدارتی انتخاب پر بحث کے دوران اپوزیشن نے ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات میں توازن پیدا کرنے کے لیے سترہویں ترمیم کی منسوخی کے لیے تعاون کی پیش کش کردی ہے اس ضمن میں حکومت نے عزم کیا ہے کہ پارلیمنٹ سے نہیں بھاگیں گے آئین قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر میثاق جمہوریت پرعملدرآمد کو ممکن بنایا جائے ۔ سترہویں ترمیم کے حوالے سے جلد پارلیمانی کمیٹی قائم ہو جائے گی۔ ایوان میں مختلف اراکین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قائد ایوان رضا ربانی نے کہا کہ استحکام اتحادی حکومت ، جمہوریت اور میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا پختہ عزم کیے ہوئے ہے حکومت تمام قوتوں کو ساتھ لے کر اس پر عملدرامد کریںگے۔ 17 ویں ترمیم کے حوالے سے بھی جلد کمیٹی قائم ہو جائے گی ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اس ایوان میں وزیر خارجہ نے پالیسی بیان دیا ہے مشترکہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے ساتھ متفقہ قرار داد منظور ہوئی ہم پارلیمنٹ سے بھاگنے والے نہیں ہیں ۔ پارلیمنٹ ہی قانون سازی میں حکومت کی رہنمائی کرے گی انہوں نے کہاکہ خیر پور میںا یک لڑکی کے بہیمانہ قتل میں ملوث مجرمان کو ضرور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔قبل ازیں صدارتی خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ ملک میں امن وامان کا بحران ہے قانون اور آئین کی حکمرانی سے مخدوش حالات سے نجات حاصل ہو سکتی ہے میثاق جمہوریت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے آرمی ایکٹ میں مشرف دور میں ترامیم ہوئی ہیں انہیں منسوخ نہیں کِیا گیا اس ایکٹ کے تحت سویلین کو بھی فوجی عدالتوں میں طلب کیا جا سکتا ۔ پارلیمنٹ کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا ۔ سارا نظام آئین کے منافی چل رہا ہے جب تک 3 نومبر 2007 ء کے اقدامات کو پارلیمنٹ آئینی یا غیر آئینی قرار نہیں دیتا آئین بحال نہیں ہوا ۔ریاستی ستون عدلیہ موجود ہی نہیں ہے ۔ عدلیہ کی بحالی اولین بات ہے باقی معاملات ضمنی ہیں صدر نے اپنے خطاب میں ان امور کے بارے میں بات نہیں کی ۔ آئین کو بحال اور پارلیمنٹ کے اختیارات بحال کیے جائیں ورنہ ہم ڈوب رہے ہیں یہ حکومت بھی نہیں رہے گی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے ۔ قادر پور گیس فیلڈ کی نجکاری نہ کی جائے ۔ منافع بخش ادارہ ہے ۔ حکومت کراچی سٹیل ملز کی نجکاری کی منسوخی کو مدنظر رکھے حکومت کی جانب سے نیشنل بنک کے 26 فیصد حصص چین کو فروخت کرنا غیر آئینی ہے مسئلہ رویوں کا ہے ۔ قول وفعل کے تضاد کی وجہ سے معاملات حل نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی طورپر تبدیلیوں کی ضرورتہے ۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے ان وعدوں کو پورا نہیں کیا جاتاسب کی خواہش ہے کہ پی پی پی نے جو پلان دئیے انہیں پورا کیا جائے ۔ سیاسی قیادت اپنے اندر تبدیلیاں لائے ۔ منافقت اور جھوٹ سے گریز کیا جائے ۔ تمام امور کاپارلیمنٹ میں آنا خوش آئند ہے ا۔سلام آباد میں جی ایچ کیو کی تعمیر کو روکنا خوس آئند ہے لیکن حکومت بھی اپنے اخراجات میں کمی کرے ۔مختلف علاقوں میں بمباری کا سلسلہ جاری ہے ۔ سوات میں فوجی کارروائی کے خلاف شدید ردعمل ہے ۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام میں سانحہ مشرقی پاکستان سے زیادہ نفرت ہے ۔ یہ کیسی پارلیمنٹ کی بالادستی ہے کہ اب تک قبائلی علاقوں میں حکومتی اجازت سے آپریشن جاری ہے اگرچہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات ضروری ہے ملک کو بچانے کے لیے اس دہشت گردی کے فتنے کو کچلنا ہو گابلوچستان کے مسائل کا حل ترجیحات میں شامل کیا جائے ملک میں خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں تاہم پاکستانی خاتون کو وہ حقوق نہیں چاہیے جن سے مغرب میں خواتین کونوازا جا رہا ہے مغرب میں زیادتی کا نشانہ بننے کی وجہ سے امریکی خواتین نے صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن کو ووٹ نہیں دئیے معاشرتی اقدار کا تحفظ کیا جائے۔جبکہ مغربی ممالک اورڈبلیو ٹی او نے ایک بار پھر تیسری دنیا پر دوہا راو¿نڈ منظورکرنے کے لئے دباو¿ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔یہ ممالک سینکڑوںسال سے جاری مقامی معاشی نظاموں کوختم کر کے ایسے نظام کا نفازچاہتے ہیں جس کے زریعے ان کی آمدنی میں دنیا کے غریب ممالک کی قیمت پر اضافہ ہو۔اس نظام سے انسانیت کی ترقی نہیں بلکہ تنزلی ہو رہی ہے اور انسانی المیے جنم لے رہے ہیں یہ بحث جاری ہے کہ آزادانہ تجارت ملکوں کی معیشت کے لئے فائدہ مند ہے یا مہلک۔ اس کے منفی اثرات پر تحقیق مکمل ہونے سے قبل اسے قبول کرنے کے لئے ترقی پزیر ممالک پر دباو¿ ڈالناغلط ہے۔تیسری دنیا کے ممالک اسے اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ برازیل چین، ارجنٹینا اوربھارت و غیرہ اس مخالفت میں سب سے آگے ہیںکیونکہ وہ اسے ترقی پزیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کا ایجنڈا سمجھتے ہیں۔ غریب ممالک کی صنعت اور زراعت اس قابل نہیں کہ بین الاقوامی معاشی جھٹکے برداشت کر سکیں۔اس نظام میں کئی بنیادی خرابیاں ہیں جن میں ہر قیمت پر شرح نمو اور غیر ضروری اشیاءکا استعمال بڑھانا ہے اورعوام کو صرف کنزیومر سمجھنا ہے جس سے وسائل کا ضیاں اور ماحول تباہ ہو رہا ہے اور معاشی عدم استحکام میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ڈبلیو ٹی او کا سارا زور ڈی ریگولیشن، انفارمیشن اور کمیونیکیشن پر ہے اس لئے ان ممالک میںجہاں تعلیم یا انگریزی سے واقفیت کم ہے امیر اور غریب کے فرق میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔آئی پی آر Intellectual Property Rights کے نام پر امیر ممالک اور انکی کارپوریشنوں کے مفادات کا غیر ضروری تحفظ کیا جا رہا ہے ۔ غریب ممالک کا صدیوں کے تجربات پر محیط علم و ہنرچھیناجا رہا ہے اور انکی ایجادات کو ہتھیایا جا رہا ہے جس سے ان ممالک میں غربت اور جہالت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان کا مقصد اپنے علاوہ دوسروں کی ہر چیز کو discredit کرنا ہے جس میں یہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور تیسری دنیا کے عوام کی اکثریت کو اپنے wisdomپر اعتبار ہی نہیں رہا ہے۔ساری دنیا پر مغربی کلچر زبردستی نافذکیاجا رہا ہے۔ مغربی ممالک تیسری دنیا میں ایسی سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس سے ماحولیات ،صحت عامہ اور دیگر سنگین مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔۔گزشتہ کئی دہائیوں سے دینا میں بے روزگاری، جرائم،بیماریوں،سیا سی بے چینی، آلودگی وغیرہ میں اضافہ کے زمہ دار یہی قوانین ہیں اوران کا دیگر ممالک تک پھیلاو عالمی مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ڈبلیو ٹی او پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور یہ ادارہ غذائی بحران کابھی ذ مہ دار ہے اور اس کا شفافیت وجمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان اکا نومی واچ کے صدر داکٹر مرتضی مغل نے یہ بھی کہا ہے کہ اس تجارتی نظام میں ہر ملک کا ایک ووٹ ہے مگر طاقتور ممالک غیر تحریری برتری حاصل ہے اورسارے فیصلے خفیہ میٹنگوں میںڈکٹیٹروں کے انداز میں کرتے ہیںاور باقی ممبر ممالک کو بعد میں صرف آگاہ کر دیاجاتا ہے۔اے پی ایس

ایک مومن کا تاریخ ساز کارنامہ۔۔ ۔ ڈاکٹرشمس جیلانی



آج جبکہ ساری دنیا مسلمانوں کو ٹیریرسٹ یعنی شر پسند یا شدت پسند ثابت کر نے پر تلی ہو ئے ہے اور مسلمان بھی خود کو اڑا کر اس کو ثابت کرنے پر مصر ہیں اور اسے شہادت اور جہاد کہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس کے باوجود کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، گناہ ،گناہ ہی رہے گا ۔ کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسانی جان بچا نا پو ری انسانیت کو بچا نا ہے ً ہم خود بھی تو قرآن بھول چکے ہیں،اس اخلاق کو بھول چکے ہیں جو حضور کا تھا۔ جو اسلام کا طرہ امتیاز بھی ۔ جس کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیلا؟ آج دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈو نیشیا کی ہی مثال لے لیجئے کہ وہاں اسلام صرف مسلم تا جروں کی وجہ سے اتنی تیزی سے پھیلا کہ سارا ملک مسلمان ہو گیا۔ پھر کیا ہوا یہ مت پو چھئے ؟ پھر وہی ہوا جو دنیا کی تمام قوموں کے سا تھ ہو تا آیا ہے ۔کہ جب وہ خدا کا پیغام بھو ل گئیں، تو دنیا ان پر تنگ ہو گئی۔ ایسے میںکبھی کو ئی ٹمٹاتا ہوا چراغ بھی ملے توغنیمت معلوم ہوتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ یہاں بھی رو نما ہواکہ ایک مسلمان کے دل میں اللہ نے یہ خیال ڈالدیا کہ وہ اسلام کے لیئے کچھ کرے؟ پہلے تو اس نے مختلف شہروں میں یکے بعد دیگرے ایسے حلقے قائم کیئے جہاں وہ مہینہ میں کہیں چار دفعہ اور کہیں ایک دفعہ جاتا اور وہاں مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلا تا، جس کی طرف سے غافل ہونے کے بعد آج مسلمان ذلت کا شکار ہیں ؟ یعنی وہ ہر جگہ جا کر قر آنی درس دیتا تاکہ لوگ قر آن کی طرف آئیں پھر چند مہینے پہلے اللہ نے اس کے دل میں یہ خیال ڈالدیا کہ کچھ اس سے بھی آگے کیا جا ئے ؟ اس سلسلہ میں اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے ایک روشن مثال نظر آئی اور وہ تھی ٹیری فاکس کا کینسر کے خلاف پا پیادہ پورے کنا ڈا کا سفر۔ اس نے سوچا کہ یہ وائلنس یعنی انتشار و تشدت اور قانون شکنی بھی تو ایک کینسر ہی ہے؟ جو تمام دنیا کو کینسر کی طرح کھائے جارہا کیوں نہ میں بھی یہی کروں ۔ اس نے اپنے منصوبہ کا اعلان کیا اور اس کو نام دیا ً ملٹی فیتھ واک اگینسٹ وائلنس ً ۔ لہذا اس کوسب نے پسند کیا اور لمبے لمبے وعدے بھی کیئے ،مگر وہ وعدہ کیا جو وفا ہوجا ئے ؟ لہذا وہ وعدے ،وعدے ہی رہے ۔ اپنوں کی طرف سے بھی اور غیرو ں کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اب وعدوں کی وہ اہمیت ہی نہیں رہے ،جو پہلے کبھی تھی اب تو اہلِ اقتدار یہ کہتے ہیں کہ وعدہ کو ئی حدیث اور قر آن تو نہیں کہ پورا کیا جا ئے ۔؟اس میں مسلمانوں اور غیر مسلم کا ریکارڈ انیس بیس ہے ۔سب اس پر متفق ہیں کہ وعدہ اسکے ساتھ پوراکرو جو تم سے طاقتور ہو کیو نکہ وہ مارے گابہت؟ رہے اپنے سے کمزور اس کو کیا پورا کرنا ؟ رات گئی بات گئی ۔اورمسلمان انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ ان کے امتی ہیں جو امین کہلا تے تھے۔ جن کا عالم یہ تھا کہ ایک شخص نے جب وہ مدینہ میں حکمراں تھے ،تو کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ یہیں ٹھیر ئیے میں ابھی آتا ہوں ۔وہ بھول گیااوردوسرے دن اسے یاد آئی تو وہاں گیا دیکھا کہ حضو ر وہیں انتظار فر مارہے ہیں ؟ مسلمان کو تو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ قر آن بار بار ایفا ئے عہد کے لیئے تاکید کر رہا؟ اور یہ بھی کہہ رہا کہ تم سے خدا قیامت میں تمہارے وعدوں کے بارے میں جواب طلب فر مائے گا ً چلو یہ ہمارا قصہ ہے ہم کہاں لے بیٹھے سمع خراشی کے لیئے؟ اب اصل قصہ کی طرف واپس آتے ہیں۔وہ آدمی دُھنی تھا اور عہد کا پکا بھی ؟ممکن ہے اس کے اندر پرانے دور کی روح گھس آئی ہو ورنہ اس دور میں ایسی شخصیت نایاب ہے۔ اس کے دلمیں لگن تھی لہذا اس نے ہر حال میں عمل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ اب عمل کا مسئلہ تھا کہ اتنے بڑے سفر کے لیئے رقم کی ضرورت ہو تی ہے اور رضا کاروں کی بھی کیونکہ یہ عجمان ، چیک اور سلواکیہ تو ہے نہیں۔ کینیڈا مشرق سے مغرب تک ساڑھے سات ہزار کلو میٹر طویل ملک ہے ؟ رہی مسلم قوم تو خدمتِ خلق میں بھی تقریباً بانجھ ہے۔ جبکہ حادی ِ بر حق نے فر ما یا کہ خدمتِ خلق کر و، خد مت خلق کرو ، خدمت ِخلق کرو۔ قر آن کہہ رہا کہ ً ُبلبلا مت بنو جو پانی سے پیدا ہوتا ہے اور پانی کی سطح پر کو ئی نشان چھو ڑے بغیر ختم ہو جا تا ،بلکہ پانی بنو جو کہ لوگوں کے کام آتا ہے، اور ساتھ میں یہ بھی خو شخبری سنار ہا کہ جو چیز انسانو ں کو فائدہ پہونچا تی ہے وہ قیامت تک قائم رہے گی ً لہذا اب نہ یہاں اس کے پاس رقم تھی نہ رضا کار مگر اسے کام تو کر نا تھا۔ بقول اس کے اس نے اپنا رہا ئشی مکان گر وی رکھدیا اور وہ اس سفر پر روانہ ہو گیا۔ دیکھا نہ، علماءکے نزدیک سود پر رقم لیکر وہ گناہ کا مرتکب ہو ااور عاقبت خراب کر لی؟پھر وہ اللہ کا نام لیکر چل پڑا اسے راہ میں اکا دکا رضا کار بھی ملتے گئے اور بچھڑتے بھی گئے ۔مگر دورفیق ایسے مل گئے جو ایک توٹورنٹوسے شامل ہوااور دوسرا شروع سے یعنی ہیلی فیکس ہی ۔اسے کبھی مزودری پر بھی لوگ پکڑنے پڑے کیونکہ واک اکیلے نہیں ہو سکتی تھی ۔ ایک چلتا پھر تا گھربھی خریدا کہ رات کو کہیں سوسکے۔ اس کے لیئے ڈرایئور بھی چا ہیئے تھا، جو اس کو چلا سکے کیو نکہ یہ یا تو واک کر سکتاتھا یا ڈرائیو کر سکتا تھا۔ وہ ہیلی فیکس سے شروع ہوا جو مشرقی کنا ڈا میں ہے اور اس کی منزل تھی کنا ڈا کا انتہا ئی مغربی کنارہ یعنی بر ٹش کو لمبیا کا شہر وکٹوریہ جہاں کنیڈا زیرو میل پتھر نصب ہے ۔ چونکہ ہمار ا شہرعظیم تروینکور راہ میں پڑتا ہے اور یہاں سے جہاز کے ذریعہ وہاں جانا ہو تا ہے۔ ایک دن پہلے اس سے وینکور کے ایک شہر رچمنڈ میں ہماری ملا قات ہو ئی کہ اس کے اعزاز میں ہمارے ایک ساتھی جنا ب افضل شاہ نے ڈنر دیا تھا ۔ وہاں تفصیلی بات چیت کا موقع ملا۔اس سے پو چھا کہ تمہیں اس سے کیا کا حا صل ہوا ؟ تو اس نے بتا یا کہ میں یہ تا ثر دینا چا ہتا تھا کہ سارے مسلمان شر پسند نہیں ہیں ۔ ہم نے پو چھا کیا تم اس میں کا میاب ہو ئے ؟ جواب تھا کہ ہاں !گو کہ اس کو ختم کر نا تو آسان نہیں ہے مگر میرا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کی ہمت افزائی نہ کر یں اور برا ئی کو برائی سمجھیں ؟ یہ ہی میرا پیغام ہے یہ ہی میرا مشن ۔اور میںاس میں کسی حد تک کامیاب رہا ہوں؟ میں نے پو چھا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب رہے؟ جواب تھا کہ میں جہاں سے بھی گزرا لو گوں نے مجھے محبت دی ،پیار دیا اور ایک بھی آدمی مخالف نہیں ملا۔ اس نے ایک واقعہ سنایاکہ سیلس بری سے جب وہ گزر،اتو وہاں ایک بوڑھی کینیڈین خاتوں اسے منتظر ملی ،اس نے بتایا کہ میں نے کل تمہیں ٹی وی پر دیکھا تھا۔ اور مجھے پتا تھا کہ آج تم یہاں سے گزرو گے، پھر ایک چیک لکھنے لگی جو کہ ایک سو ڈالر کا تھا، کہنے لگی کہ تم بہت اچھے مشن پر ہو ۔ یہ تمہارے لیئے عطیہ ہے ،مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔لہذا اس کو مہینہ کے آخر میں کیش کرا لینا ۔ واضح رہے کہ یہاں بو ڑھوں کی آمدنی کا ذریعہ وہ پنشن ہے جو حکومت کی طرف سے ہر مہینہ کی آخری تا ریخوں میں ملتی ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ میں نے کنا ڈا جیسے لو گ دنیا میں کہیں نہیں دیکھے اور کنا ڈا جیسی قدرتی خوبصورتی بھی کہیں دیکھی ؟ میں کنیڈاکو سلام کر تا ہوں ۔ دوسرے دن ہم پھر مدعو تھے دو پہر کو بارہ بجے ؟ہماری یہ گندی عادت ہے کہ ہم وقت سے تھوڑا پہلے پہو نچ جا تے ہیں ؟ لہذا ہم جب پارک میں پہو نچے تو کوئی نہیں تھا اور ہال میں لگا تھا تالا ،علی گڑھ والا؟ ہم سمجھے کے غلط جگہ پر آگئے ہیں ،لہذا اپنی کار پارکنگ لا ٹ سے نکا لی اور اس طویل پارک میںاگلے حصے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ وہاں بچے کھیل رہے تھے۔ احساس ہوا کہ پہلے تو نہ تھے مگر اب ضرور غلط جگہ پر ہیں، لہذا واپس ہو ئے۔ تو دیکھا کہ وہاں اخبار مر یکل کے چیف ایڈیٹر جناب نصیر پیر زادہ اپنی نصف بہتر کے ساتھ کار سے اترر ہیں اب یقین ہو گیا کہ دو آدمی غلط نہیں ہو سکتے ہیں؟ اور پھر وہ بھی اخبار والے؟ علیک سلیک ہو ئی ،انہیں صورت ِ حال سے آگا ہ کیاانہوں نے منتظمین کو فون کیا کہ میں اور شمس جیلانی یہا ںمو جود ہیںاور تالا ہمارا منہ چڑا رہا ہے؟ کہنے لگے کہ وہ جسکو چابی لیکر بھیجا تھا وہ کہیں اور کام سے چلا گیا ہے۔ابھی پہو نچتا ہے۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ جنا ب بدیع الدین سہروردی صاحب بھی واک کر تے ہو ئے چلے آرہے ہیں ۔ اور انکے پیچھے پیچھے ان کی آر وی یعنی چلتا پھر تا گھر بھی چلا آرہا ہے۔ چونکہ مسلمان قوم کا یہ آجکل وطیرہ ہو گیا ہے کہ وہ وقت سے دو چار گھنٹے لیٹ پہو نچنا اپنا حق سمجھتی ہے، اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھا ئی؟ اور ہم پر اسلامی تعلیمات کے بر عکس عمل کر نا فرض ہے؟اب آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ تاریخ ساز شخص کون تھا؟ بہر حال اس میں قا بل مبارک باد ہیں اس پروگرام کے منتظمین کے ساتھ جناب سلیم فاروق اور خصو صا ً جناب افضل ملک اوردوسرے متظمین کہ انہوں نے تمام معزین شہر کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ جنہوں نے سہرودری صا حب کو مبارک باد دی۔ اس میں سٹی آف سرے کی مئیر بھی تھیں، ممبر پا رلیمنٹ بھی تھے صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی تھے ، سرے اور ڈیلٹا میو نسپل کارپوریشن کے کو نسلر بھی ۔اور دوسرے بہت سے معززین بھی، علما ءکا بھی ایک گروہ تھا اس کی خصو صیت یہ تھی کہ وہ سب سے زیادہ لیٹ آیا۔یعنی تقریبا ً تین سے لیکر چار بجے تک کے درمیان ؟ امت چونکہ انہیںکی اتباع کرتی ہے؟ انہوں بھی دعا فر مائی۔ جبکہ معززین میں سے ہر ایک نے عزتافزائی اور ہمت افزائی کی اور ایک ممبر پارلیمنٹ عزت مآب جناب ہیری نے حکومت کناڈا کی طرف سے تو صیفی سند پیش کی۔پھر حاضرین کی دوپہر کے کھانے سے خاطر تواضع کی گئی۔

معاشی بدحالی ، غلط بیانی فرائض سے غفلت اور بدیانتی کا نتیجہ ۔تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس



آج وطن عزیز جس معاشی بدحالی سے دوچار ہے۔بقول مشیر خزانہ شو لت ترین ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ہمارے ہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ قو می خزانے کو لوٹنے اور عوام کا خون نچوڑنے والے سب کے سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔سابقہ حکومت کے لگا ئے ہوئے ایڈوائزر آج بھی وزارت خزانہ اور پلاننگ کمیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اگرچہ قوم کا ایک مجرم سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ملک سے فرار ہے اور اس کا بگ باس قانون شکن جرنیل پرویز مشرف ایک طاقت کے ارتکاز میں لاکرز میں ہے لیکن اس کے حواری آج بھی اہم عہدوں پر بدستور بر اجمان بیٹھے ہوئے ہیں۔شوکت عزیز کی وزیر اکنامک افیئر حنا ربانی کھر جسے شوکت عزیز اپنے بیرونی دوروں میں ساتھ لیکر جاتے تھے وہی آج کے موجودہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ طیارے میں موجودہ ہوتی ہے اگرچہ حالیہ دوروں میں اس کی زچگی کے حوالے سے غالبا ساتھ نہیں لے جایا گیا۔البتہ اس کی طیارے میں سیٹ خالی تھی۔منصوبہ بندی کمیشن میں سب سے زیادہ حق دار ماہر معا شیات کا ہوتا ہے لیکن وہاں ان کا حق مار کر وہاں جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ پودے سابقہ حکومت کے لگائے ہوئے ہیں جن میں ایک دو اٹامک انرجی کمیشن اور چار کے قریب پاک آرمی کے سابق اعلی عہدیدار ہیں۔سارا منظر قارئین کے سامنے ہے کہ وہ کیسی منصوبہ بندی کریںگے۔جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی بھاری شرائط کے ساتھ امداد کا متحمل نہیں ہو سکتا اور فرینڈز آف پاکستان کو پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر امداد فراہم کرنی چاہیے پاکستان امداد نہیں بلکہ تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے مواقع چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے اور پاکستان کے عوام اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے کوئی اقتصادی خوشخبری نہیں ہے، ہمیں امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ چین نقد رقوم کی صورت میں امداد دینے سے گھبراتا ہے، فرینڈز آف پاکستان بھی کیش کی صورت میں ہماری مدد نہیں کریں گے ۔حکومت نے ابھی تک ایک بھی معاشی پالیسی نہیں بنائی، حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنی فضول آسائشوں کو ختم کرے۔ حکومت نے تیاری کئے بغیر چین کے چکر لگائے، ہمیں بہت پہلے چین کی جانب ہاتھ بڑھالینا چاہئے تھاہمیں اپریل اور مئی میں ہی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرلینی چاہئے تھی۔پاکستان چاہے تو آئندہ ایک سال میں قومی خزانے میں 10بلین ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ پانی سر سے گزرچکا ہے، اب آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں ہوگا آئی ایم ایف نے کبھی کسی ملک کے لیے باضابطہ حل نہیں نکالا۔ چین ہمیں مشکلات سے نکالنے کے لیے اقدامات کررہا ہے جبکہ فرینڈز آف پاکستان بھی ملک کو اقتصادی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ ہماری حکومت اس وقت امریکی کونین کے نشے میں ہے، ہمیں امریکی نشے سے نکلنے کے لیے اپنا علاج خود کرنا ہوگا، آئی ایم ایف پاکستان کے لیے نیم حکیم ہے۔ ہر وزیر کم سے کم ماہانہ ایک کروڑ روپے خرچ کردیتا ہے، اکتالیس وزیر بہت زیادہ ہیں ، ان کی تعداد کم کرنا ہوگی۔آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی حکومتی اخراجات میں کمی ہے۔ جبکہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کر نے کے لئے کم سے کم 5 ارب ڈالر کی ضرورت 15 دنوں میں پوری نہ ہوئی تو آئی ایم ایف سے شرائط پر قرضہ حاصل کر نا پڑے گا حکومت معاشی استحکام کے لئے مرکزی بینک سے قرضوں کے حصول میں کمی لائے گی جبکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو بڑھانے کے لئے متعدد شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی میں منصوبہ بندی کلیدی کر دار ادا کر تی ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران منصوبہ بندی کمیشن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حکومت، اخراجات میں کمی اور بعض اہم اقدامات کے ذریعے مالیاتی خسارے میں کمی کے175ارب روپے کے ہدف کو کم کر کے 138ارب روپے تک لے آئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ بدھ کو سینٹ کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کیا ہے۔ ملک میں بجلی اور گیس کے بحرانوں کے علاوہ اعتماد کا بھی فقدان ہے یہ سب کچھ ہماری ناقص منصوبہ بندیوں کے باعث ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہم نے صرف قرضے حاصل کئے لیکن اپنی پیداوار اوربرآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ درآمدات میں اضافہ ہے حکومت کا اس بحران سے نمٹنے کیلئے منصوبہ تیار ہے جس کے تحت آئندہ دو سالوں میں ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیاجائے تاکہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک نہ مانگنی پڑے حکومت میکرو اکنامک استحکام کیلئے مالی خسارے کو کم ، افراط زر پر قابو پائے گی ۔ حکومت کا ہدف ہے کہ رواں سال مالی خسارے کو 4.3فیصد پر لے جایا جائے ساری ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح 10.5 فیصد ہے جس میں اضافے کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا حکومت ٹیکسوں کے حصول کیلئے کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرے گی ۔ درآمدات بڑھنے اور برآمدات کم ہونے سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا جس سے ہمارے لئے معاشی دباو¿ بڑھ گیا انہوں نے کہاکہ ہمارا معاشی پلان یہ ہے کہ ہم دو سالوں کے بعد اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائیں اس وقت ہمارا ہدف یہ ہے کہ دو سال بعد ہم دوسروں سے مدد مانگتے نہ پھریں۔ انہوںنے کہاکہ اس سلسلے میں ہم نے افراط زر کی شرح کم کرنی ہے کیونکہ افراط زر کی موجودگی میں ترقی ممکن نہیں اس کیلئے ہمیں مالیاتی خسارہ7.1 فیصد سے کم کر کے 4فیصد کرنا ہے اس کیلئے ہمیں محصولات میں اضافہ کرنا ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کرنی ہے اس سلسلے میں پوری قوم کو ٹیکس دینا ہو گا اور ٹیکس کے نظام میں بہتری لانی ہے انہوں نے کہاکہ ٹیکس کے حوالے سے جب پالیسی بن جائے گی تو ہمیں ہر اس شخص سے ٹیکس لینا ہو گا جس کے ذمے ٹیکس بنتا ہے انہوں نے کہاکہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے ہمیں حکومتی اخراجات کم کرنا ہوں گے اس کیلئے اعلیٰ قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا انہوں نے کہاکہ ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے کیلئے حکومتی و نجی شعبے کی شراکت داری کو مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے پہلی سہ ماہی کے دوران حکومت اخراجات میں کمی کر کے اور بعض اہم اقدامات اٹھا کر مالیاتی خسارے میں کمی 175ارب روپے کے ہدف کو کم کر کے 138ارب روپے تک لے آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں سال کے دوران ہمیں عالمی بینک ، اے ڈی بی اور دیگر ڈونراداروں سے چار ارب روپے مل جائیں گے انہوں نے کہاکہ تین سے چار ارب روپے مل جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ان ذرائع سے بھی ہمیں مقررہ مدت کے اندر رقم نہیں ملتی تو اس کے لئے آئی ایم ایف سے مدد کیلئے مذاکرات کر نے پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ڈیفالٹ ملک قرار دلوانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اس سے بچنے کیلئے ہم نے ہر ممکن اقدامات کر نے پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے غریبوں کو تحفظ دینا ہے اس وقت 28فیصد آبادی کو ریلیف دی ہے اس وقت 70لاکھ لوگوں کی امداد کرنی ہے ہم غریب کو بہت نظر انداز کر چکے اب ان پر توجہ دینی ہے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کو توسیع دینا ہو گی غریبوں کو ووکیشنل ریلیف دینا ہوگا اس کے علاوہ غریبوں کو میڈیکل فری کیس کی سہولت دینی ہے اس پر فنڈز خرچ کرنے کیلئے ضروری ہوا تو دسرے شعبوں کا بجٹ کم کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاءدرآمد کررہے ہیں اس شعبے کی پیداوار بڑھانے کیلئے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے ہم نے اس حوالے سے گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر 950روپے فی من کر دی ہے گزشتہ چند دھائیوں سے زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کو روز گار فراہم کرنے کیلئے مینو فیکچرنگ کے شعبے پر توجہ دینی ہے کیونکہ اس وقت اس کی ترقی منفی میں جارہی ہے صنعتیں بند ہو رہی ہیں اسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اگر اس پر توجہ نہ دی تو ہم دنیا میں اس شعبے میں پیچھے رہ جائیں گے انہوں نے کہاکہ ہمیں وسیع البنیاد انرجی پلان ترتیب دینا ہے کیونکہ توانائی کے بغیر ہم کسی شعبے میں ترقی نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کہ ہمیں ترقی کیلئے پبلک پرائیویٹ انفراسٹرکچر کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے اس کیلئے ہمیں نجی شعبے کو بھی آگے لانا ہے اور اس کو ایک کردار دینا ہے انہوں نے کہاکہ ہمارے بینکوں نے بڑی ترقی کی ہے مگر انہوں نے عام آدمی کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کیا ہمیں بیکنگ کی ترقی کے ثمرات دیہی علاقوں تک لے جانے ہیں انہوں نے کہاکہ سٹاک ایکس چینج میں رواں سال کے ابتداءمیں 175ارب کی کارٹلائزیشن تھی کیپٹل مارکیٹ کو ریٹل اکانوی میں کردار دینا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت زیرو پر کھڑے ہیں آگے بڑھنے کیلئے ہمیں سخت اقدامات کرنا ہوں گے ملک کی اقتصادی ترقی کی اچھی منصوبہ بندی کر کے اس پر عملد رآمد کرنا ہے اس وقت معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کا کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے اس وقت منصوبہ بندی کمیشن اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ جہاں تک منصوبہ بندی کمیشن کی نا کا می کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور صدر پا کستان آصف زرداری سے گزارش ہے کہ منصو بہ بندی کمیشن میں ما ہر اقتصادیات کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دو ریٹائرڈ جرنیل اور چار بر گیڈیئر اور اٹامک انرجی کے دو سابق اعلی آفیسر کیا کر رہے ہیں ان کو فی الفور فارغ کیا جا ئے اور متعلقہ شعبے میں متعلقہ ما ہرین کی تقرری کی جا ئے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دبئی میں جاری مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کی توثیق کر دی ہے اور اب امداد کے سائز کے تعین کیلئے بات چیت ہو رہی ہے۔ مذاکرات میں شامل پاکستانی وفد کے سینئر عہدیدار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات 30 اکتوبر تک ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ عہدیدار نے کہا کہ معاشی استحکام کے پروگرام کا مقصد موجودہ اخراجات، ترقیاتی بجٹ اور سبسڈیز کو اگلے 21 ماہ میں کم کرتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پانا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف کے توثیق کردہ پروگرام کے تحت کئی وزارتوں اور ڈویڑنز کو ضم کرنے کامنصوبہ بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان نے اتفاق کیا ہے کہ مارکیٹ میں روپے کی قدر میں استحکام کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان مداخلت نہیں کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نرم ایکسچینج ریٹ پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 81, 80 کی حد تک ہی برقرار رہے گی۔ اگلے چند ماہ میں مانیٹری پالیسی سخت ہونے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف اسلام آباد پر دباو¿ ڈال رہا ہے کہ وہ سروس سیکٹرپر جنرل سیلز ٹیکس، زراعت پر انکم ٹیکس اور سٹاک مارکیٹ پر سرمایہ حصول ٹیکس لاگو کرے۔ رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 60 سے 100 ارب روپے کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرائع نے کہا کہ معاشی لحاظ سے ناقابل عمل ترقیاتی منصوبے ختم کر دیئے جائیں گے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف براہ راست دفاعی بجٹ کم کرنے کیلئے نہیں کہے گا۔ وہ صرف مالی خسارہ کم کرنے کیلئے کہے گا اب چاہے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے ہم اپنی آمدن بڑھائیں یا دفاع سمیت دیگر اخراجات کم کریں۔ذرائع نے کہا کہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے اپنی ترجیحات کا تعین اب ہم نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمود 3 سے چار فیصد ہی رہے گی۔ مالیاتی امداد کی حد کا تعین کرنے کیلئے مذاکرات میں سٹیٹ بینک کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر بھی شریک ہوئیں۔ مرکزی بینک کے ترجمان نے تصدیق کی کہ وہ اسلامی مالیاتی کانفرنس میں شرکت کیلئے دبئی گئی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مالی امداد کا تعین ہونے کے بعد پاکستان باقاعدہ طور پر آئی ایم ایف کے ایم ڈی کو خط میں درخواست کرے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ عمل 15 نومبر تک مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر تقریباً 6 ارب ڈالر کی امداد اور سپورٹ کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے 7/ نومبر کو ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی جس میں ایگزیکٹو بورڈ کے تمام 24 ممبران شرکت کریں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں دبئی میں ان کے پاکستانی حکام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر، سیکرٹری خزانہ، ڈاکٹر وقار مسعود اور سیکرٹری اقتصادی امور فرخ قیوم اور دیگر حکام سے تمام بنیادی امور پر بات چیت مکمل ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ان کے ڈائریکٹر محسن خان یکم نومبر کو آئی ایم ایف سے سبکدوش ہو رہے ہیں ان کی جگہ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل آئی ایم ایف میں ایکسٹرنل سیکٹر کے انچارج مسعود احمد یہ ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ آئی ایم ایف کے حکام کی طرف سے پاکستان کو دو طرح کی سپورٹ فوری طور پر فراہم کی جائے گی ان میں ایک امداد قرضے کے طور پر آئی ایم ایف فراہم کرے گا جس کی مالیت 2 ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر ہو گی جبکہ باقی سپورٹ کا بندوبست امریکا، یورپ، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک سے کرایا جائے گا اس سلسلے میں آئی ایف ایم کا ایگزیکٹیو کے اجلاس میں فنڈ کے سربراہ ان تمام ممالک سے پاکستان کو ہنگامی طور پر سپورٹ کرنے پر زور دیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے حکام کے اصرار پر انہیں یقین دلایا کہ آئی ایم ایف کے قرضہ کے حصول کی تمام شرائط پوری کی جائیں گی جس کے تحت اگلے چند ماہ میں رواں مالی سال کے دوران ہی ملکی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں خاطرخواہ کمی کر کے تجارتی خسارہ اور حسابات جاریہ کے خسارے میں 6 فیصد سے 8 فیصد تک کمی لائی جائے گی، اس کے علاوہ مالیاتی خسارہ میں 3 فیصد تک کمی کرنے کیلئے کئی موثر اور فوری اقدامات کئے جائیں گے، اس سلسلے میں کئی شعبوں اور اداروں کے اخراجات منجمد کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر اس عرصے میں 10 ارب ڈالر سے اوپر جانے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرف سے قرضہ کے حصول پر رضا مندی کے پیغام کے بعد پاکستان نے اجلاس کی تیاری شروع کر دی ہے جسے آئی ایم ایف کے پاکستان سے متعلقہ ڈائریکٹر فنڈ کی مینجمنٹ کو پیش کریں گے جس کے سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اس کے بعد ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبران کو اجلاس کا ایجنڈا اور پاکستان کیس کی تفصیلات بھجوائی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کے ماہرین کے مطابق ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا کیونکہ ماضی میں کئی پروگرام ایسے بھی رہے جو قرضہ کی فراہمی کے باوجود پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومتیں مکمل نہیں کر سکیں۔ ان ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی طرف سے نئے قرضے کی فراہمی کے بعد پاکستانی حکومت پیٹرول، ڈیزل کے نرخوں، بجلی کے ٹیرف وغیرہ پر نظرثانی کرے گی، اس کے علاوہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں سرکاری ملازمین اور عام افراد کیلئے ایک ریلیف پیکیج بھی لایا جا رہا ہے تاکہ عوام کو مزید کوئی کڑوی گولی دینے سے پہلے مطمئن کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع نے بتایا کہ ایگزیکٹیو بورڈ کی طرف سے پاکستان کے قرضے کی منظوری کے فوراً بعد عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوسرے عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کو دو سے تین ارب ڈالر کی سپورٹ کے اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔جبکہ پاکستان کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موڈیز(ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والا بین الاقوامی ادارہ) نے پاکستان کے معاشی درجے میں کمی میں جلد بازی کی ہے کیونکہ ابھی تو دو تین پفتے پہلے ہی انہوں نے پاکستان کا درجہ کم کیا تھا۔ ’اب دو ہفتے میں کیا ایسا ہو گیا کہ انہوں نے پھر سے درجہ کم کر دیا۔موڈیز نے گذشتہ منگل کو پاکستان کی معاشی درجہ بندی ایک بار پھر کم کر دی تھی اور موڈیز کے ماہرین نے پاکستان کی عالمی رینکنگ میں اس تنزلی کو پاکستان کے دوست ممالک اور عالمی بنک کی جانب سے زر مبادلہ نہ ملنا قرار دیا تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف سے، اپنے دوستوں اور دیگر عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا راستے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں اور سب کو معلوم ہے تو یہ تھوڑی جلد بازی ہے۔ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں ’مار کھائی‘ ہے کیونکہ یہ اقتصادی بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے اور اب یہ نزلہ ترقی پذیر ممالک پر گِر رہا ہے۔ شدت پسندی تو پہلے کافی زیادہ ہو رہی تھی اور اب تو اس میں کمی آ رہی ہے۔ ’یہ تو پہلے بھی پاکستان کی سرحدوں پر ہوتی رہتی تھی لیکن زر مبادلہ کے ذخائر اچھے تھے، اس زمانےمیں درجہ بہتر تھا کیونکہ کاروبار ہو رہا تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ جب ایک دو ماہ میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آتی ہے تو کیا یہ ایجنسیاں اس وقت بھی اتنی تیزی سے ہی درجہ بندی بہتر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں ’مار کھائی‘ ہے کیونکہ یہ اقتصادی بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے اور اب یہ نزلہ ترقی پذیر ممالک پر گِر رہا ہے۔ وفاقی مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ حکومت صحیح سمت میں چل رہی ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کے منفی رد عمل کے بارے میں اطلاعات درست نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین نے یہ نہیں کہا کہ وہ مدد نہیں کریں گے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کشکول توڑنے والے دعوے کے بارے میں موجودہ مشیر خزانہ نے کہا کہ انہوں نے کشکول توڑنے کی بات تو کر دی تھی لیکن پالیسیاں ایسی ہی رکھیں کہ دوبارہ بات امداد کی طرف ہی گئی۔شوکت ترین نے کہا ہے کہ جلد ہی چین کا ایک وفد بات چیت کے لیے آ رہا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ سعودی عرب اور دیگر دوستوں نے کہا ہے کہ وہ نومبر کے وسط میں ہم سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے معاملات بھی جلد حل ہو جائیں گے۔ پاکستان کی ضرورت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال تو تین سے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور چوبیس مہینوں میں پانچ سے دس ارب ڈالر چاہیے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دس ارب ڈالر کی بات اس لیے بھی کر رہے ہیں کیونکہ فرق میں تو کمی آ جائے گی لیکن زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات سے پونے آٹھ ارب ڈالر ہیں جو کم سے کم بارہ سے تیرہ ارب ڈالر ہونا چاہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کا رویہ بھی اب وہ نہیں رہا جو انیس سو اسی اور نوے کی دہائیوں میں تھا بلکہ ہمارے ہی تیارکردہ پروگرام پر بات ہو گی نہ کہ پہلے کی طرح جب سب کے لیے ایک ہی پروگرام پر اصرار ہوتا تھا۔ ستمبر میں بم دھماکے کے بعد پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں مزید نو کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ ذخائر کم ہو کر آٹھ ارب بیاسی کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پچیس ستمبر تک مرکزی بینک کے پاس پانچ ارب چالیس کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس تین ارب اکتالیس کروڑ ڈالر کے ذخائر موجود تھے۔ رواں ماہ کے پہلے ہفتے تک اسٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب اکانوے ڈالر تھے، جس میں بتدریج کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اب تک ان میں تین سو چھ ملین ڈالرز کی کمی ہوچکی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح پر رہا اور اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت چوراسی رپے تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے بیرونی ادائیگیوں کا حجم بڑھ رہا ہے،جس وجہ سے روپیہ دباو¿ کا شکار ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے۔اس وجہ سے وہ ملک سے چلے بھی گئے ہیں اور اس حساب سے سرمایہ کاری بھی جا رہی ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس ہے اور وہ اپنے سرمائے اور جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔’معیشت کے لیے یہ چیزیں اچھی نہیں ہوتیں۔ باہر سے زرمبادلہ اور سرمایہ کاری واپس لائی جائے۔ دوروں سے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔کراچی سٹاک ایکسچنج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حکومت کی جانب سے مالی امداد کی یقین دہانی کے بعد سٹاک مارکیٹ میں ستائیس اکتوبر سے معمول کا کاروبار بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔یہ فیصلہ ان مذاکرات کے بعد کیا گیا تھا جو ملک کی تمام سٹاک مارکیٹس کی نگرانی کرنے والے ادارے سکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے حکام اور کراچی سٹاک ایکسچنج کے ممبران کے درمیان پچھلے چند دنوں سے جاری تھے۔ سٹاک مارکیٹ فروری کے مہینے میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی اور 100 انڈیکس جس سے حصص یعنی شیئرز کے کاروبار میں اتار چڑھاو¿ کا پتہ چلتا ہے، پندرہ ہزار پوائنٹس سے اوپر تھا لیکن جولائی کے مہینے میں سٹاک مارکیٹ شدید مندی کی لپیٹ میں آگئی اور دو ہفتوں تک مسلسل مندی کے بعد سترہ جولائی کو جب 100 انڈیکس دس ہزار پوائنٹس کی سطح پر آگئی تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے چھوٹے سرمایہ کاروں نے کراچی سٹاک ایکسچنج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کرکے پرتشدد احتجاج کیا اور مارکیٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد سٹاک ایکسچنج کی انتظامیہ نے بڑے سرمایہ کاروں کی مدد سے ایک فنڈ قائم کرکے مندی سے متاثر ہونے والے چھوٹے سرمایہ کاروں سے لگ بھگ سوا چار ارب روپے کے شیئرز خرید لیے۔ لیکن مارکیٹ پھر بھی نہ سنبھلی اور اگست کے مہینے میں جب 100 انڈیکس نو ہزار پوائنٹس کی کم ترین سطح پر آگیا تو کاروبار کو مزید گرنے سے بچانے کے لیے ستائیس اگست کی کاروباری سطح یعنی نو ہزار ایک سو چوالیس پوائنٹس پر منجمد کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ میں جنم لینے والے مالی بحران کے منفی اثرات امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور مارکیٹوں پر تو نظر آئے لیکن کراچی سٹاک ایکسچنج جو پہلے ہی سرمائے کی کمی کا شکار تھی، عالمی مالی بحران کے اثرات سے محفوظ رہی۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کے کاروبار کے اتار چڑھاو¿ کا ملکی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا کیونکہ ملک میں کل 700 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور سٹاک مارکیٹ میں اسی فیصد کاروباردرجن بھر کمپنیوں کے شیئرز کا ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر سرکاری شعبے کی کمپنیاں ہیں یا پھر آئل اینڈ گیس کے شعبے سے متعلق ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے عالمی معاشی بحران کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کیش ریزرو ریکوائرمینٹ کو مزید کم کرکے چھ فیصد کر دیا ۔سی آر آر یا کیش ریزرو ریکوائرمینٹ بینکنگ کے نظام کا ایک ایسا ضابطہ ہے جو اس زر ضمانت کا تعین کرتا ہے جو تمام شیڈول بینکوں کو اپنے کھاتے داروں کی جانب سے جمع کرائی گئی رقوم کی ضمانت کے طور پر سٹیٹ بینک میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے بتایا تھاکہ سی آر آر میں کمی کے نتیجے میں بینکنگ نظام میں مزید ساٹھ ارب روپے کا سرمایہ دستیاب ہوگا۔ اس سے پہلے گیارہ اکتوبر کو بھی سٹیٹ بینک نے سی آر آر میں کمی کا اعلان کیا تھا اور اسے نو سے آٹھ فیصد کر دیا تھا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے یہ بھی اعلان کیا کہ سی آر آر میں پندرہ نومبر کو پانچ فیصد پر لایا جائے گا تاکہ بینکوں کو زر ضمانت میں مزید سہولت ملے اور اس سے ایک سو بیس ارب روپے کا مزید سرمایہ دستیاب ہوگا۔ اس اقدام کے نتیجے میں مزید ایک سو بیس ارب روپے بینکوں کو دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ہم مجموعی طور پر 240 ارب روپے کا سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔اسکے علاوہ انہوں نے کہا تھاکہ بینکوں کو اٹھارہ اکتوبر سے ایک سال یا اس سے زائد مدت کے ٹائم ڈپازٹس کو ایک اور ضابطے ایس ایل آر یا اسٹیچوری لیکویڈیٹی ریکوائرمینٹ سے مکمل طور پر مستثنی کر دیا گیا ہے۔ ’اس اقدام کے نتیجے میں مزید ایک سو بیس ارب روپے بینکوں کو دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ہم مجموعی طور پر 240 ارب روپے کا سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ اقدامات مارکیٹ میں پائے جانے والے خدشات اور سرمائے کی کمی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے چھوٹے بینکوں کو فائدہ ہوگا جنہیں سرمائے کی کمی کے مسئلے کا زیادہ سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی واضح کیا کہ ان اقدامات کا مقصد بینکوں کو درمیانی اور طویل مدت کی سرمایہ کاری جاری رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔ ’ہم چاہیں گے کہ اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں ان اقدامات سے جو سرمایہ فراہم کررہا ہے اسے مو¿ثر طور پر استعمال کیا جائے یعنی اس سرمائے سے نجی اداروں اور لوگوں کی (بینکوں سے) قرضوں کی طلب کو مو¿ثر طور پر پورا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا بینکاری کا شعبہ مستحکم ہے اور غیرموافق اقتصادی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’بینکوں کی قرضہ دہی اور سرمایہ کاری اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ پروڈینشل ریگولیشنز سے مشروط ہیں جو بینکوں کو مقررہ حد سے زائد قرضے دینے اور غیرمعیاری اثاثوں میں سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک ملک کی فنانشل مارکیٹ کی مسلسل نگرانی کررہا ہے اور ادائیگی کے نظام اور مالیاتی نظام کو مستحکم بنانے کے لئے تمام ضروری پالیسی اقدامات کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بینکاری نظام میں سرمائے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیے گئے یہ اقدامات عارضی ہیں اور انہیں مالیاتی پالیسی میں تبدیلی تصور نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم گیلانی و صدر پاکستان آصف زرداری سے گزارش ہے کہ وطن عزیز جس طرح معاشی بحران سے دو چار ہے اس کے ذ مہ دار اگرچہ ایک سابق وزیر اعظم شوکت عزیز جوملک سے فرار ہے جبکہ دوسرا سابق صدر و قانون شکن ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف طاقت کے ار تکاز میں محفوظ ہے تو کم از کم ان کے دیگر حواری ابھی تک وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں موجودہ جو صورتحال ہے یہ سب ان کی غلط بیانی اور اپنے فرائض سے غفلت اور بدیانتی کا نتیجہ ہیں آپ اگر ان کے خلاف قانون کے مطابق کا روائی نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کو فارغ کریں جو قومی خزانے پر بوجھ اور عوام کا خون نچوڑ کر حاصل کردہ ٹیکس سے عیاشی کر رہے ہیں۔اے پی ایس