Thursday, October 30, 2008

معاشی بدحالی ، غلط بیانی فرائض سے غفلت اور بدیانتی کا نتیجہ ۔تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس



آج وطن عزیز جس معاشی بدحالی سے دوچار ہے۔بقول مشیر خزانہ شو لت ترین ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ہمارے ہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ قو می خزانے کو لوٹنے اور عوام کا خون نچوڑنے والے سب کے سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔سابقہ حکومت کے لگا ئے ہوئے ایڈوائزر آج بھی وزارت خزانہ اور پلاننگ کمیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اگرچہ قوم کا ایک مجرم سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ملک سے فرار ہے اور اس کا بگ باس قانون شکن جرنیل پرویز مشرف ایک طاقت کے ارتکاز میں لاکرز میں ہے لیکن اس کے حواری آج بھی اہم عہدوں پر بدستور بر اجمان بیٹھے ہوئے ہیں۔شوکت عزیز کی وزیر اکنامک افیئر حنا ربانی کھر جسے شوکت عزیز اپنے بیرونی دوروں میں ساتھ لیکر جاتے تھے وہی آج کے موجودہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ طیارے میں موجودہ ہوتی ہے اگرچہ حالیہ دوروں میں اس کی زچگی کے حوالے سے غالبا ساتھ نہیں لے جایا گیا۔البتہ اس کی طیارے میں سیٹ خالی تھی۔منصوبہ بندی کمیشن میں سب سے زیادہ حق دار ماہر معا شیات کا ہوتا ہے لیکن وہاں ان کا حق مار کر وہاں جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ پودے سابقہ حکومت کے لگائے ہوئے ہیں جن میں ایک دو اٹامک انرجی کمیشن اور چار کے قریب پاک آرمی کے سابق اعلی عہدیدار ہیں۔سارا منظر قارئین کے سامنے ہے کہ وہ کیسی منصوبہ بندی کریںگے۔جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی بھاری شرائط کے ساتھ امداد کا متحمل نہیں ہو سکتا اور فرینڈز آف پاکستان کو پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر امداد فراہم کرنی چاہیے پاکستان امداد نہیں بلکہ تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے مواقع چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے اور پاکستان کے عوام اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے کوئی اقتصادی خوشخبری نہیں ہے، ہمیں امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ چین نقد رقوم کی صورت میں امداد دینے سے گھبراتا ہے، فرینڈز آف پاکستان بھی کیش کی صورت میں ہماری مدد نہیں کریں گے ۔حکومت نے ابھی تک ایک بھی معاشی پالیسی نہیں بنائی، حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنی فضول آسائشوں کو ختم کرے۔ حکومت نے تیاری کئے بغیر چین کے چکر لگائے، ہمیں بہت پہلے چین کی جانب ہاتھ بڑھالینا چاہئے تھاہمیں اپریل اور مئی میں ہی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرلینی چاہئے تھی۔پاکستان چاہے تو آئندہ ایک سال میں قومی خزانے میں 10بلین ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ پانی سر سے گزرچکا ہے، اب آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں ہوگا آئی ایم ایف نے کبھی کسی ملک کے لیے باضابطہ حل نہیں نکالا۔ چین ہمیں مشکلات سے نکالنے کے لیے اقدامات کررہا ہے جبکہ فرینڈز آف پاکستان بھی ملک کو اقتصادی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ ہماری حکومت اس وقت امریکی کونین کے نشے میں ہے، ہمیں امریکی نشے سے نکلنے کے لیے اپنا علاج خود کرنا ہوگا، آئی ایم ایف پاکستان کے لیے نیم حکیم ہے۔ ہر وزیر کم سے کم ماہانہ ایک کروڑ روپے خرچ کردیتا ہے، اکتالیس وزیر بہت زیادہ ہیں ، ان کی تعداد کم کرنا ہوگی۔آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی حکومتی اخراجات میں کمی ہے۔ جبکہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کر نے کے لئے کم سے کم 5 ارب ڈالر کی ضرورت 15 دنوں میں پوری نہ ہوئی تو آئی ایم ایف سے شرائط پر قرضہ حاصل کر نا پڑے گا حکومت معاشی استحکام کے لئے مرکزی بینک سے قرضوں کے حصول میں کمی لائے گی جبکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو بڑھانے کے لئے متعدد شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی میں منصوبہ بندی کلیدی کر دار ادا کر تی ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران منصوبہ بندی کمیشن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حکومت، اخراجات میں کمی اور بعض اہم اقدامات کے ذریعے مالیاتی خسارے میں کمی کے175ارب روپے کے ہدف کو کم کر کے 138ارب روپے تک لے آئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ بدھ کو سینٹ کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کیا ہے۔ ملک میں بجلی اور گیس کے بحرانوں کے علاوہ اعتماد کا بھی فقدان ہے یہ سب کچھ ہماری ناقص منصوبہ بندیوں کے باعث ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہم نے صرف قرضے حاصل کئے لیکن اپنی پیداوار اوربرآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ درآمدات میں اضافہ ہے حکومت کا اس بحران سے نمٹنے کیلئے منصوبہ تیار ہے جس کے تحت آئندہ دو سالوں میں ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیاجائے تاکہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک نہ مانگنی پڑے حکومت میکرو اکنامک استحکام کیلئے مالی خسارے کو کم ، افراط زر پر قابو پائے گی ۔ حکومت کا ہدف ہے کہ رواں سال مالی خسارے کو 4.3فیصد پر لے جایا جائے ساری ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح 10.5 فیصد ہے جس میں اضافے کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا حکومت ٹیکسوں کے حصول کیلئے کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرے گی ۔ درآمدات بڑھنے اور برآمدات کم ہونے سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا جس سے ہمارے لئے معاشی دباو¿ بڑھ گیا انہوں نے کہاکہ ہمارا معاشی پلان یہ ہے کہ ہم دو سالوں کے بعد اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائیں اس وقت ہمارا ہدف یہ ہے کہ دو سال بعد ہم دوسروں سے مدد مانگتے نہ پھریں۔ انہوںنے کہاکہ اس سلسلے میں ہم نے افراط زر کی شرح کم کرنی ہے کیونکہ افراط زر کی موجودگی میں ترقی ممکن نہیں اس کیلئے ہمیں مالیاتی خسارہ7.1 فیصد سے کم کر کے 4فیصد کرنا ہے اس کیلئے ہمیں محصولات میں اضافہ کرنا ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کرنی ہے اس سلسلے میں پوری قوم کو ٹیکس دینا ہو گا اور ٹیکس کے نظام میں بہتری لانی ہے انہوں نے کہاکہ ٹیکس کے حوالے سے جب پالیسی بن جائے گی تو ہمیں ہر اس شخص سے ٹیکس لینا ہو گا جس کے ذمے ٹیکس بنتا ہے انہوں نے کہاکہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے ہمیں حکومتی اخراجات کم کرنا ہوں گے اس کیلئے اعلیٰ قیادت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا انہوں نے کہاکہ ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے کیلئے حکومتی و نجی شعبے کی شراکت داری کو مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے پہلی سہ ماہی کے دوران حکومت اخراجات میں کمی کر کے اور بعض اہم اقدامات اٹھا کر مالیاتی خسارے میں کمی 175ارب روپے کے ہدف کو کم کر کے 138ارب روپے تک لے آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں سال کے دوران ہمیں عالمی بینک ، اے ڈی بی اور دیگر ڈونراداروں سے چار ارب روپے مل جائیں گے انہوں نے کہاکہ تین سے چار ارب روپے مل جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ان ذرائع سے بھی ہمیں مقررہ مدت کے اندر رقم نہیں ملتی تو اس کے لئے آئی ایم ایف سے مدد کیلئے مذاکرات کر نے پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ڈیفالٹ ملک قرار دلوانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اس سے بچنے کیلئے ہم نے ہر ممکن اقدامات کر نے پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے غریبوں کو تحفظ دینا ہے اس وقت 28فیصد آبادی کو ریلیف دی ہے اس وقت 70لاکھ لوگوں کی امداد کرنی ہے ہم غریب کو بہت نظر انداز کر چکے اب ان پر توجہ دینی ہے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کو توسیع دینا ہو گی غریبوں کو ووکیشنل ریلیف دینا ہوگا اس کے علاوہ غریبوں کو میڈیکل فری کیس کی سہولت دینی ہے اس پر فنڈز خرچ کرنے کیلئے ضروری ہوا تو دسرے شعبوں کا بجٹ کم کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاءدرآمد کررہے ہیں اس شعبے کی پیداوار بڑھانے کیلئے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے ہم نے اس حوالے سے گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر 950روپے فی من کر دی ہے گزشتہ چند دھائیوں سے زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کو روز گار فراہم کرنے کیلئے مینو فیکچرنگ کے شعبے پر توجہ دینی ہے کیونکہ اس وقت اس کی ترقی منفی میں جارہی ہے صنعتیں بند ہو رہی ہیں اسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اگر اس پر توجہ نہ دی تو ہم دنیا میں اس شعبے میں پیچھے رہ جائیں گے انہوں نے کہاکہ ہمیں وسیع البنیاد انرجی پلان ترتیب دینا ہے کیونکہ توانائی کے بغیر ہم کسی شعبے میں ترقی نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کہ ہمیں ترقی کیلئے پبلک پرائیویٹ انفراسٹرکچر کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے اس کیلئے ہمیں نجی شعبے کو بھی آگے لانا ہے اور اس کو ایک کردار دینا ہے انہوں نے کہاکہ ہمارے بینکوں نے بڑی ترقی کی ہے مگر انہوں نے عام آدمی کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کیا ہمیں بیکنگ کی ترقی کے ثمرات دیہی علاقوں تک لے جانے ہیں انہوں نے کہاکہ سٹاک ایکس چینج میں رواں سال کے ابتداءمیں 175ارب کی کارٹلائزیشن تھی کیپٹل مارکیٹ کو ریٹل اکانوی میں کردار دینا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت زیرو پر کھڑے ہیں آگے بڑھنے کیلئے ہمیں سخت اقدامات کرنا ہوں گے ملک کی اقتصادی ترقی کی اچھی منصوبہ بندی کر کے اس پر عملد رآمد کرنا ہے اس وقت معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کا کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے اس وقت منصوبہ بندی کمیشن اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ جہاں تک منصوبہ بندی کمیشن کی نا کا می کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور صدر پا کستان آصف زرداری سے گزارش ہے کہ منصو بہ بندی کمیشن میں ما ہر اقتصادیات کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دو ریٹائرڈ جرنیل اور چار بر گیڈیئر اور اٹامک انرجی کے دو سابق اعلی آفیسر کیا کر رہے ہیں ان کو فی الفور فارغ کیا جا ئے اور متعلقہ شعبے میں متعلقہ ما ہرین کی تقرری کی جا ئے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دبئی میں جاری مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کی توثیق کر دی ہے اور اب امداد کے سائز کے تعین کیلئے بات چیت ہو رہی ہے۔ مذاکرات میں شامل پاکستانی وفد کے سینئر عہدیدار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات 30 اکتوبر تک ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ عہدیدار نے کہا کہ معاشی استحکام کے پروگرام کا مقصد موجودہ اخراجات، ترقیاتی بجٹ اور سبسڈیز کو اگلے 21 ماہ میں کم کرتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پانا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف کے توثیق کردہ پروگرام کے تحت کئی وزارتوں اور ڈویڑنز کو ضم کرنے کامنصوبہ بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان نے اتفاق کیا ہے کہ مارکیٹ میں روپے کی قدر میں استحکام کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان مداخلت نہیں کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نرم ایکسچینج ریٹ پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 81, 80 کی حد تک ہی برقرار رہے گی۔ اگلے چند ماہ میں مانیٹری پالیسی سخت ہونے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف اسلام آباد پر دباو¿ ڈال رہا ہے کہ وہ سروس سیکٹرپر جنرل سیلز ٹیکس، زراعت پر انکم ٹیکس اور سٹاک مارکیٹ پر سرمایہ حصول ٹیکس لاگو کرے۔ رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 60 سے 100 ارب روپے کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرائع نے کہا کہ معاشی لحاظ سے ناقابل عمل ترقیاتی منصوبے ختم کر دیئے جائیں گے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف براہ راست دفاعی بجٹ کم کرنے کیلئے نہیں کہے گا۔ وہ صرف مالی خسارہ کم کرنے کیلئے کہے گا اب چاہے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے ہم اپنی آمدن بڑھائیں یا دفاع سمیت دیگر اخراجات کم کریں۔ذرائع نے کہا کہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے اپنی ترجیحات کا تعین اب ہم نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمود 3 سے چار فیصد ہی رہے گی۔ مالیاتی امداد کی حد کا تعین کرنے کیلئے مذاکرات میں سٹیٹ بینک کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر بھی شریک ہوئیں۔ مرکزی بینک کے ترجمان نے تصدیق کی کہ وہ اسلامی مالیاتی کانفرنس میں شرکت کیلئے دبئی گئی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مالی امداد کا تعین ہونے کے بعد پاکستان باقاعدہ طور پر آئی ایم ایف کے ایم ڈی کو خط میں درخواست کرے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ عمل 15 نومبر تک مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر تقریباً 6 ارب ڈالر کی امداد اور سپورٹ کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے 7/ نومبر کو ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی جس میں ایگزیکٹو بورڈ کے تمام 24 ممبران شرکت کریں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں دبئی میں ان کے پاکستانی حکام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر، سیکرٹری خزانہ، ڈاکٹر وقار مسعود اور سیکرٹری اقتصادی امور فرخ قیوم اور دیگر حکام سے تمام بنیادی امور پر بات چیت مکمل ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ان کے ڈائریکٹر محسن خان یکم نومبر کو آئی ایم ایف سے سبکدوش ہو رہے ہیں ان کی جگہ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل آئی ایم ایف میں ایکسٹرنل سیکٹر کے انچارج مسعود احمد یہ ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ آئی ایم ایف کے حکام کی طرف سے پاکستان کو دو طرح کی سپورٹ فوری طور پر فراہم کی جائے گی ان میں ایک امداد قرضے کے طور پر آئی ایم ایف فراہم کرے گا جس کی مالیت 2 ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر ہو گی جبکہ باقی سپورٹ کا بندوبست امریکا، یورپ، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک سے کرایا جائے گا اس سلسلے میں آئی ایف ایم کا ایگزیکٹیو کے اجلاس میں فنڈ کے سربراہ ان تمام ممالک سے پاکستان کو ہنگامی طور پر سپورٹ کرنے پر زور دیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے حکام کے اصرار پر انہیں یقین دلایا کہ آئی ایم ایف کے قرضہ کے حصول کی تمام شرائط پوری کی جائیں گی جس کے تحت اگلے چند ماہ میں رواں مالی سال کے دوران ہی ملکی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں خاطرخواہ کمی کر کے تجارتی خسارہ اور حسابات جاریہ کے خسارے میں 6 فیصد سے 8 فیصد تک کمی لائی جائے گی، اس کے علاوہ مالیاتی خسارہ میں 3 فیصد تک کمی کرنے کیلئے کئی موثر اور فوری اقدامات کئے جائیں گے، اس سلسلے میں کئی شعبوں اور اداروں کے اخراجات منجمد کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر اس عرصے میں 10 ارب ڈالر سے اوپر جانے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرف سے قرضہ کے حصول پر رضا مندی کے پیغام کے بعد پاکستان نے اجلاس کی تیاری شروع کر دی ہے جسے آئی ایم ایف کے پاکستان سے متعلقہ ڈائریکٹر فنڈ کی مینجمنٹ کو پیش کریں گے جس کے سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اس کے بعد ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبران کو اجلاس کا ایجنڈا اور پاکستان کیس کی تفصیلات بھجوائی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کے ماہرین کے مطابق ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا کیونکہ ماضی میں کئی پروگرام ایسے بھی رہے جو قرضہ کی فراہمی کے باوجود پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومتیں مکمل نہیں کر سکیں۔ ان ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی طرف سے نئے قرضے کی فراہمی کے بعد پاکستانی حکومت پیٹرول، ڈیزل کے نرخوں، بجلی کے ٹیرف وغیرہ پر نظرثانی کرے گی، اس کے علاوہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں سرکاری ملازمین اور عام افراد کیلئے ایک ریلیف پیکیج بھی لایا جا رہا ہے تاکہ عوام کو مزید کوئی کڑوی گولی دینے سے پہلے مطمئن کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع نے بتایا کہ ایگزیکٹیو بورڈ کی طرف سے پاکستان کے قرضے کی منظوری کے فوراً بعد عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوسرے عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کو دو سے تین ارب ڈالر کی سپورٹ کے اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔جبکہ پاکستان کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موڈیز(ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والا بین الاقوامی ادارہ) نے پاکستان کے معاشی درجے میں کمی میں جلد بازی کی ہے کیونکہ ابھی تو دو تین پفتے پہلے ہی انہوں نے پاکستان کا درجہ کم کیا تھا۔ ’اب دو ہفتے میں کیا ایسا ہو گیا کہ انہوں نے پھر سے درجہ کم کر دیا۔موڈیز نے گذشتہ منگل کو پاکستان کی معاشی درجہ بندی ایک بار پھر کم کر دی تھی اور موڈیز کے ماہرین نے پاکستان کی عالمی رینکنگ میں اس تنزلی کو پاکستان کے دوست ممالک اور عالمی بنک کی جانب سے زر مبادلہ نہ ملنا قرار دیا تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف سے، اپنے دوستوں اور دیگر عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا راستے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں اور سب کو معلوم ہے تو یہ تھوڑی جلد بازی ہے۔ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں ’مار کھائی‘ ہے کیونکہ یہ اقتصادی بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے اور اب یہ نزلہ ترقی پذیر ممالک پر گِر رہا ہے۔ شدت پسندی تو پہلے کافی زیادہ ہو رہی تھی اور اب تو اس میں کمی آ رہی ہے۔ ’یہ تو پہلے بھی پاکستان کی سرحدوں پر ہوتی رہتی تھی لیکن زر مبادلہ کے ذخائر اچھے تھے، اس زمانےمیں درجہ بہتر تھا کیونکہ کاروبار ہو رہا تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ جب ایک دو ماہ میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آتی ہے تو کیا یہ ایجنسیاں اس وقت بھی اتنی تیزی سے ہی درجہ بندی بہتر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے حالیہ دنوں میں دنیا بھر میں ’مار کھائی‘ ہے کیونکہ یہ اقتصادی بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے اور اب یہ نزلہ ترقی پذیر ممالک پر گِر رہا ہے۔ وفاقی مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ حکومت صحیح سمت میں چل رہی ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کے منفی رد عمل کے بارے میں اطلاعات درست نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین نے یہ نہیں کہا کہ وہ مدد نہیں کریں گے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کشکول توڑنے والے دعوے کے بارے میں موجودہ مشیر خزانہ نے کہا کہ انہوں نے کشکول توڑنے کی بات تو کر دی تھی لیکن پالیسیاں ایسی ہی رکھیں کہ دوبارہ بات امداد کی طرف ہی گئی۔شوکت ترین نے کہا ہے کہ جلد ہی چین کا ایک وفد بات چیت کے لیے آ رہا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ سعودی عرب اور دیگر دوستوں نے کہا ہے کہ وہ نومبر کے وسط میں ہم سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے معاملات بھی جلد حل ہو جائیں گے۔ پاکستان کی ضرورت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال تو تین سے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور چوبیس مہینوں میں پانچ سے دس ارب ڈالر چاہیے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دس ارب ڈالر کی بات اس لیے بھی کر رہے ہیں کیونکہ فرق میں تو کمی آ جائے گی لیکن زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات سے پونے آٹھ ارب ڈالر ہیں جو کم سے کم بارہ سے تیرہ ارب ڈالر ہونا چاہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف کا رویہ بھی اب وہ نہیں رہا جو انیس سو اسی اور نوے کی دہائیوں میں تھا بلکہ ہمارے ہی تیارکردہ پروگرام پر بات ہو گی نہ کہ پہلے کی طرح جب سب کے لیے ایک ہی پروگرام پر اصرار ہوتا تھا۔ ستمبر میں بم دھماکے کے بعد پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں مزید نو کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ ذخائر کم ہو کر آٹھ ارب بیاسی کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پچیس ستمبر تک مرکزی بینک کے پاس پانچ ارب چالیس کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس تین ارب اکتالیس کروڑ ڈالر کے ذخائر موجود تھے۔ رواں ماہ کے پہلے ہفتے تک اسٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب اکانوے ڈالر تھے، جس میں بتدریج کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اب تک ان میں تین سو چھ ملین ڈالرز کی کمی ہوچکی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح پر رہا اور اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت چوراسی رپے تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے بیرونی ادائیگیوں کا حجم بڑھ رہا ہے،جس وجہ سے روپیہ دباو¿ کا شکار ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے۔اس وجہ سے وہ ملک سے چلے بھی گئے ہیں اور اس حساب سے سرمایہ کاری بھی جا رہی ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس ہے اور وہ اپنے سرمائے اور جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔’معیشت کے لیے یہ چیزیں اچھی نہیں ہوتیں۔ باہر سے زرمبادلہ اور سرمایہ کاری واپس لائی جائے۔ دوروں سے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔کراچی سٹاک ایکسچنج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حکومت کی جانب سے مالی امداد کی یقین دہانی کے بعد سٹاک مارکیٹ میں ستائیس اکتوبر سے معمول کا کاروبار بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔یہ فیصلہ ان مذاکرات کے بعد کیا گیا تھا جو ملک کی تمام سٹاک مارکیٹس کی نگرانی کرنے والے ادارے سکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے حکام اور کراچی سٹاک ایکسچنج کے ممبران کے درمیان پچھلے چند دنوں سے جاری تھے۔ سٹاک مارکیٹ فروری کے مہینے میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی اور 100 انڈیکس جس سے حصص یعنی شیئرز کے کاروبار میں اتار چڑھاو¿ کا پتہ چلتا ہے، پندرہ ہزار پوائنٹس سے اوپر تھا لیکن جولائی کے مہینے میں سٹاک مارکیٹ شدید مندی کی لپیٹ میں آگئی اور دو ہفتوں تک مسلسل مندی کے بعد سترہ جولائی کو جب 100 انڈیکس دس ہزار پوائنٹس کی سطح پر آگئی تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے چھوٹے سرمایہ کاروں نے کراچی سٹاک ایکسچنج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کرکے پرتشدد احتجاج کیا اور مارکیٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد سٹاک ایکسچنج کی انتظامیہ نے بڑے سرمایہ کاروں کی مدد سے ایک فنڈ قائم کرکے مندی سے متاثر ہونے والے چھوٹے سرمایہ کاروں سے لگ بھگ سوا چار ارب روپے کے شیئرز خرید لیے۔ لیکن مارکیٹ پھر بھی نہ سنبھلی اور اگست کے مہینے میں جب 100 انڈیکس نو ہزار پوائنٹس کی کم ترین سطح پر آگیا تو کاروبار کو مزید گرنے سے بچانے کے لیے ستائیس اگست کی کاروباری سطح یعنی نو ہزار ایک سو چوالیس پوائنٹس پر منجمد کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ میں جنم لینے والے مالی بحران کے منفی اثرات امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور مارکیٹوں پر تو نظر آئے لیکن کراچی سٹاک ایکسچنج جو پہلے ہی سرمائے کی کمی کا شکار تھی، عالمی مالی بحران کے اثرات سے محفوظ رہی۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کے کاروبار کے اتار چڑھاو¿ کا ملکی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا کیونکہ ملک میں کل 700 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور سٹاک مارکیٹ میں اسی فیصد کاروباردرجن بھر کمپنیوں کے شیئرز کا ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر سرکاری شعبے کی کمپنیاں ہیں یا پھر آئل اینڈ گیس کے شعبے سے متعلق ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے عالمی معاشی بحران کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کیش ریزرو ریکوائرمینٹ کو مزید کم کرکے چھ فیصد کر دیا ۔سی آر آر یا کیش ریزرو ریکوائرمینٹ بینکنگ کے نظام کا ایک ایسا ضابطہ ہے جو اس زر ضمانت کا تعین کرتا ہے جو تمام شیڈول بینکوں کو اپنے کھاتے داروں کی جانب سے جمع کرائی گئی رقوم کی ضمانت کے طور پر سٹیٹ بینک میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے بتایا تھاکہ سی آر آر میں کمی کے نتیجے میں بینکنگ نظام میں مزید ساٹھ ارب روپے کا سرمایہ دستیاب ہوگا۔ اس سے پہلے گیارہ اکتوبر کو بھی سٹیٹ بینک نے سی آر آر میں کمی کا اعلان کیا تھا اور اسے نو سے آٹھ فیصد کر دیا تھا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے یہ بھی اعلان کیا کہ سی آر آر میں پندرہ نومبر کو پانچ فیصد پر لایا جائے گا تاکہ بینکوں کو زر ضمانت میں مزید سہولت ملے اور اس سے ایک سو بیس ارب روپے کا مزید سرمایہ دستیاب ہوگا۔ اس اقدام کے نتیجے میں مزید ایک سو بیس ارب روپے بینکوں کو دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ہم مجموعی طور پر 240 ارب روپے کا سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔اسکے علاوہ انہوں نے کہا تھاکہ بینکوں کو اٹھارہ اکتوبر سے ایک سال یا اس سے زائد مدت کے ٹائم ڈپازٹس کو ایک اور ضابطے ایس ایل آر یا اسٹیچوری لیکویڈیٹی ریکوائرمینٹ سے مکمل طور پر مستثنی کر دیا گیا ہے۔ ’اس اقدام کے نتیجے میں مزید ایک سو بیس ارب روپے بینکوں کو دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ہم مجموعی طور پر 240 ارب روپے کا سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ اقدامات مارکیٹ میں پائے جانے والے خدشات اور سرمائے کی کمی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے چھوٹے بینکوں کو فائدہ ہوگا جنہیں سرمائے کی کمی کے مسئلے کا زیادہ سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی واضح کیا کہ ان اقدامات کا مقصد بینکوں کو درمیانی اور طویل مدت کی سرمایہ کاری جاری رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔ ’ہم چاہیں گے کہ اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں ان اقدامات سے جو سرمایہ فراہم کررہا ہے اسے مو¿ثر طور پر استعمال کیا جائے یعنی اس سرمائے سے نجی اداروں اور لوگوں کی (بینکوں سے) قرضوں کی طلب کو مو¿ثر طور پر پورا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا بینکاری کا شعبہ مستحکم ہے اور غیرموافق اقتصادی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’بینکوں کی قرضہ دہی اور سرمایہ کاری اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ پروڈینشل ریگولیشنز سے مشروط ہیں جو بینکوں کو مقررہ حد سے زائد قرضے دینے اور غیرمعیاری اثاثوں میں سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک ملک کی فنانشل مارکیٹ کی مسلسل نگرانی کررہا ہے اور ادائیگی کے نظام اور مالیاتی نظام کو مستحکم بنانے کے لئے تمام ضروری پالیسی اقدامات کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بینکاری نظام میں سرمائے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیے گئے یہ اقدامات عارضی ہیں اور انہیں مالیاتی پالیسی میں تبدیلی تصور نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم گیلانی و صدر پاکستان آصف زرداری سے گزارش ہے کہ وطن عزیز جس طرح معاشی بحران سے دو چار ہے اس کے ذ مہ دار اگرچہ ایک سابق وزیر اعظم شوکت عزیز جوملک سے فرار ہے جبکہ دوسرا سابق صدر و قانون شکن ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف طاقت کے ار تکاز میں محفوظ ہے تو کم از کم ان کے دیگر حواری ابھی تک وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں موجودہ جو صورتحال ہے یہ سب ان کی غلط بیانی اور اپنے فرائض سے غفلت اور بدیانتی کا نتیجہ ہیں آپ اگر ان کے خلاف قانون کے مطابق کا روائی نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کو فارغ کریں جو قومی خزانے پر بوجھ اور عوام کا خون نچوڑ کر حاصل کردہ ٹیکس سے عیاشی کر رہے ہیں۔اے پی ایس




No comments: