Wednesday, December 31, 2008

متحدہ عرب امارات کی ترقی کے37سال ۔تحریر: ناصر محمود کھرل





متحدہ عرب امارات نے گزشتہ37سالوں میں جس تیزی سے اقتصادی شعبے میں ترقی کی اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔ 1971میں سات امارات کے اتحاد سے وجود میں آنے والے متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت ابوظہبی ہے ۔ دبئی ملک کا تجارتی مرکز جبکہ شارجہ، راس الخیمہ، فجیرہ ، ام القیویں اورعجمان متحدہ عرب امارات کے اہم شہرہیں ۔ یہ امارات ابوظہبی کے حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان کی قیادت میں ایک وفاقی ریاست میں یکجا ہوئےں ۔ شیخ زید بن سلطان النہیان UAEکے پہلے صدر بنے اور 2004تک اس منصب پر قائم رہے ۔ اس وقت ان کا بڑا بیٹا شیخ خلیفہ بن زید النہیان UAEکی قیادت کر رہا ہے ۔ ان کی معاونت نائب صدراور دبئی کے حکمران شیخ راشد المکتوم اور دیگر پانچ حکمران کر رہے ہیں ۔ ان سب پر مشتمل ملک کی سب سے اعلیٰ سیاسی فورم سپریم کونسل آف رولرز قائم ہے ۔ UAEکے عوام خوش قسمت ہیں کہ انہیں مدبر، جدت پسند اور واضح تصور والی قیادت کے اعلیٰ معیاری بنیادی ڈھانچے، نوبادیوں کے لئے دوستانہ ماحول، کاروباری منافع پر صفر ٹیکس اور بہت کم درمدی ڈیوٹی کی وجہ سے UAE مصر سے لے کر برصغیر اور جنوبی افریقہ سے لے کر سی ئی ایس کہلانے والے خطے کا تجارتی اور سیاحتی مرکز بن گیا۔شیخ زید بن سلطان النہیان کی فہم وفراست اور قائدانہ صلاحیتوں نے UAEکو دنیا میں ایک نئی پہچان اور عظیم مقام دلایا۔ آج کا جدت پسند UAEجو کہ نے والے دنوں میں کئی ورلڈریکارڈتوڑنے جارہا ہے۔ عالمی سطح پر پوری دنیا کے معاشی بحران میں آنے کے باوجود UAEکی معیشت مضبوط ہے۔ یہاں کی معیشت میں بینکنگ کا شعبہ اور مالیاتی منڈی مضبوط ہے۔ آج UAE پوری دنیا میں ترقی کا علامت بن چکا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مجموعی قومی پیدوار میں 47فیصد کا اضافہ ہوا جو کہ 7729ارب ڈالر بنتی ہے ۔ جو کسی حد تک تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہے۔ تیل کے شعبے کے علاوہ جی ڈی پی کی شرح میں 64.1فیصد کا اضافہ ہو ا۔ یہ اضافہ رئیل اسٹیٹ، تجارتی خدمات اور تعمیراتی شعبے میں اضافے کی وجہ سے ہے۔پاکستان اور UAEکے مابین سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر مثالی تعلقات قائم ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد شیخ زید بن سلطان نے رکھی تھی جو چار دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان اور دبئی کے حکمران شیخ راشد المکتوم نے ان تعلقات کو آسمان کی بلندیوں تک وسعت اور مضبوطی دی اور ہمیشہ ہر سطح پرپاکستان کی حمایت اور تعاون میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ پچھلے سال پاکستان اور UAEکے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم 7ارب ڈالر رہا۔ جس کا توازن UAEکے حق میں رہا۔ 2007-08میں پاکستان سے UAEکو برآمد ات کا حجم 1.8ارب ڈالررہا جو پچھلے سال 1.3ارب ڈالر تھا جبکہ اس مدت میں درمدات 5.2ارب ڈالر تک پہنچ گئیں ۔ جو گزشتہ سال 3.4ارب ڈالر تھیں۔ بینکوں کے ذریعے UAEسے پاکستان کو سالانہ رقم بھیجنے کی شرح 1.22ارب ڈالر ہے جو پچھلے سال 860ملین ڈالر تھی۔ امریکہ کے بعد UAEپاکستان کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔ گزشتہ سال پاکستان اور UAE کے درمیان کئی معاہدے اور مفاہمت کی یاداشتوں پر بھی دستخط ہوئے جس میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین سیاسی مکالمے سے متعلق مفاہمت کی یاداشت، دہشت گردی اور منظم جرائم کے خلاف تعاون سے متعلق معاہدہ، مشترکہ تجارتی کونسل بنانے، میڈیا اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون سے متعلق پروٹوکول بھی شامل ہےں۔ اس کے علاوہ ابوظہبی انٹرنیشنل پیٹرولیم انوسٹمنٹ اور پا ک عرب ریفائنری کا رپوریشن کے مابین بلوچستان کے شہر حب میں خلیفہ کوسٹل ریفائنری بنانے کے معاہدہ پر بھی دستخط ہوئے تھے۔ یہ منصوبہ 5ارب ڈالر کا ہو گااور ریفائنری میں روزانہ 3لاکھ بیرل تیل صاف کیا جاسکے گا۔اس کے علاوہ کئی اماراتی کمپنیاں پاکستان میں ترقی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ Èئندہ سال ان کمپنیوں کی سرمایہ کاری 50ارب ڈالر کے ہدف تک پہنچ جائیگی ۔ متحدہ قومی امارات کے قومی دن کی تقریب میں جانے کا موقع ملا۔ قومی دن جو کسی بھی قوم کے لئے خوشیوں، امنگوں، جوش اور جذبے سے ملک و قوم کی ترقی کے عزم کو دہرانے کا دن ہوتا ہے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر دفاع جناب احمد مختار تھے جبکہ معزز مہمانوں میں سید خورشید شاہ وفاقی وزیر برائے محنت و افرادی قوت، وفاقی وزیر تعلیم میر ہزار خان بجارانی، ڈپٹی چیئرمین سینٹ جان محمد جمالی، چوہدری شجاعت حسین، نثار میمن، ماروی میمن اور دیگر بہت سے سول و فوجی افسران سمیت مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے بھی شرکت کی۔ باہر اچھی خاصی خنکی تھی لیکن شامیانے کے اندر عرب نوجوانوں اور بچوں کے قومی نغموں پر رقص نے ماحول کو گرما رکھا تھا۔ اس موقع پر دو ماہ قبل اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والے نئے سفیر عزت مب علی سیف سلطان العوانی سے ملاقات ہوئی۔ علی سیف سلطان العوانی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اس سے قبل وہ یمن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر رہ چکے ہیں۔ علی سیف سلطان العوانی نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی میں پاکستان کی محنت کش عوام کا بڑا اہم کردار ہے جو کہ متحدہ عرب امارات میں اپنے کاروبار اور ملازمت کے سلسلے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ علی سیف سلطان العوانی نے بتایا کہ UAE کی حکومت نے پاکستان کو چار سو میگا واٹ کا بجلی گھر کا تحفہ بھی دیا ہے جو کہ رواں ماہ کے خر تک پہنچ جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ عزت مب علی سیف سلطان العوانی کے دور سفارتکاری میں پاکستان اور UAE کے مابین کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں دو طرفہ تعلقات میں تیزی ئے گی۔ اے پی ایس

Thursday, December 25, 2008

بے نظیر کی پہلی بر سی کے موقع پر خصوصی اشاعت بے نظیر بھٹوکی ہلاکت ملک دشمنوں کی فتح تھی۔ چودھری احسن پر یمی




دائیں سے با ئیں راقم الحروف چودھری ا حسن پر یمی و افضل راز کا سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھٹو ایک ساتھ ایک یادگار فو ٹو جو 1990ءمیں اسلام آباد میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران لیا گیا


بھارت ابھی تک ممبئی حملوں کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے اور امریکہ اور



عالمی قوتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ماحول بنا رکھا ہے اس کا فائدہ بھارت حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان کی سوچ ہے کہ یہ غیر ضروری ابھا رہے ہیں اس لئے اس کو نیچے لایا جائے ۔ملک کے چھوٹے صوبوں اور کمزور طبقات کو انصاف دینے کی ضرورت ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پیپلز پارٹی عدلیہ کی آزادی اور معزول ججوں کی بحالی کی تحریک میں شامل تھی مگر اب وہ اقتدار میں آنے کے بعد معزول ججزبحال نہیں کر رہی ۔ہر حکمران غلام عدالتیں چاہتا ہے ۔طاقتور کو قانون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج ملک میں لوگوں کو انصاف چاہئے اور انصاف تب ملے گا جب عدالتیں آزاد ہوں گی اور عدالتیں اس وقت آزاد ہوں گی جب معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحال ہوں گے۔ ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانا ہے تو ضروری ہے کہ پاکستان میں قانون کے سامنے سب برابر ہوں ۔عدالتی انصاف کے ساتھ معاشی انصاف بھی ضروری ہے جب کہ پاکستان میں غریب ٹیکس دیتا ہے اور امیر عیاشی کرتا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول 160ڈالر سے 34ڈالر فی بیرل تک نیچے آگیا مگر حکومت قیمتیں کم نہیں کررہی۔ لوگ مہنگائی سے مررہے ہیں۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ 18 فروری کے انتخابات بھی ملک میں تبدیلی نہیں لا سکے سابقہ مشرف دور میں عوام اور ملک کیلئے بے نظیر بھٹو نے جان کا نذرانہ دیا لیکن موجودہ حکومت آج بھی مشرف حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر من و عن عمل پیرا ہے۔پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو گزشتہ27 دسمبر کوہلاک کردیا گیا ۔راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کیا گیا۔ حملے کے بعد انہیں شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن انہیں بچایا نہ جاسکا۔ اس کے فوری بعد بعدوزارت داخلہ نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کردی تھی لیکن یہ واضح نہ ہوسکا کہ وہ خودکش حملے میں زخمی ہوئیں یا انہیں گولی مارکر ہلاک کیا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت پانچ گولیاں بھی چلی تھیں جن میں سے ایک ان کی گردن میں لگی تھی۔ اخباری خبروں کے مطابق اس حملے میں پی پی پی کی رہنما شیری رحمان اور ناہید خان بھی زخمی ہوئی تھیں۔ اس وقت ہسپتال کے باہر بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن جمع تھے اور غم و غصے کا ماحول تھے۔ اس حملے میں کم سے کم پندرہ افراد ہلاک اور متعدد ہوئے تھے۔ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری دوبئی سے پاکستان پہنچے ان کا کہنا تھا کہ بینظیر کی ہلاکت کی خبر پر اس وقت تک یقین نہیں کرسکتے جب تک وہ خود نہ دیکھ لیں۔ ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بینظیر بھٹو کے سینے اورگلے میں گولیاں لگیں تھیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان پر فائرنگ کی گئی اور ریلی میں دھماکہ بھی کیا گیا۔ لیکن اس وقت حالات واضح نہیںتھے۔ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ بینظیر بھٹو صرف زخمی ہیں۔ اسی روزپاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی موت ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نتیجہ ہے۔ان کے بقول بینظیر بھٹو اپنی سکیورٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اورجلسے کے دوران بھی انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بابر اعوان نے کہا کہ وہ صبح بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی جلسے میں گئے تھے۔ ’جلسہ گاہ میں ہم اکھٹے بیٹھے رہے۔ ہم ساتھ ہی ان کے گھر سے آئے تھے۔ وہ بتاتی رہیں کہ انہیں کیا خطرات در پیش ہیں۔ انہوں نے کچھ تفصیلات بھی مجھے دیں جو میں ابھی نہیں بتا سکتا۔ جب ہم جلسے میں بیٹھے ہوئے تھے تب بھی محترمہ نے مجھے کچھ چیزیں لکھ کر دیں۔ وہ اس بارے میں بہت فکرمند تھیں۔ ‘ اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے افسوس ظاہر کیا اور صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا تھا۔ صدر مشرف نے ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی تھی اور کہا کہ وہ ’قوم کے غم‘ میں شامل ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے انتخابی سرگرمیاں معطل کرد یں تھیںاور سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی کے سربراہ الطاف حسین نے واقعہ کو سانحہ قرار دیتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ الطاف حسین کا کہنا تھا سندھ کے تیسرے وزیراعظم کو راولپنڈی میں اس طرح سے قتل کیا گیا ہے، اس سے قبل لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب سندھ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا۔ جبکہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے بھی واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ ذوالفقار علی بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے بعد یہ بھٹو خاندان کے ایک بڑا سانحہ ہے۔ قاضی حسین احمد نے یہ بھی مطالبہ کیا تھاکہ پرویز مشرف فوری طور مستعفی ہوجائیں کیونکہ وہ اس کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوری طور پر سویلین حکومت قائم کی جائے جو عدلیہ اور آئین کو بحال کرے اور انتخابات کے لیے مناسب فضا تیار ہو۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی اطلاع پہنچتے ہی کراچی میں تمام بازار اور دکانیں بند ہوگئیں اور رات دیر تک کھلے رہنے والے بازاروں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پورے شہر میں خوف و دہشت کی فضا تھی۔ سڑکوں پر بھگدڑ کی سی فضا اور ٹریفک بھی بے ہنگم ہوگیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ وہ سڑکیں جو یکطرفہ ٹریفک کے لئے تھیں وہاں دونوں اطراف سے گاڑیاں آجانے سے صدر سمیت کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام تھی جبکہ ٹرانسپورٹ گاڑیاں بھی غائب ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ کئی علاقوں میں پھنس گئے ۔ بینظیر بھٹو کے گھر بلاول ہاوس پر سوگ کی فضا تھی۔ شہر بھر سے آنے والے کارکن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ اسی روزبلاول ہاوس کے جانب سے بتایا گیا تھا کہ آصف علی زرداری بچوں سمیت رات کے کسی وقت راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔دوسری طرف شہر کے کئی علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ لیاری، کھارادر، سلاوٹ پاڑے، گرومندر، ڈیفنس، کلفٹن،گلشن اقبال اور گلشن حدید سمیت دیگر کئی علاقوں میں ہوائی فائرنگ ہوئی۔ مشتعل لوگوں کے ہجوم سڑکوں پر نکلے جو دیوانہ وار نعرے لگا تے رہے اور پتھراو کر تے رہے اور ٹائروں کو آگ لگا تے رہے۔ سب سے جذباتی منظر لیاری میں تھا جو جہاں خواتین بھی سڑکوں پر نکل کر سینہ کوبی اور بین کررہی تھیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں جابجا ایسی افراتفری تھی جیسے عام طور پر زلزلے یا کسی دوسری قدرتی آف کے بعد نظر آتی ہے۔ شہر کے تشدد زدہ علاقوں سے اس روز یہ اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں کہ مشتعل لوگ سرکاری املاک اور گاڑیوں پر پتھراو کر رہے ہیں اور انہوں نے بعض گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا ہے۔ اسی روز کراچی میں ہنگامہ آرائی کے دوران پندرہ سے زائد گاڑیوں کو نظر آتش کیا یہ گاڑیاں ناظم آباد، لیاقت آباد، کیماڑی، اسٹیل ٹاون، راشد منہاس روڈ سہراب گوٹھ پل پر جلائی گئی تھیں۔ گلستان جوہر تھانے پر فائرنگ اور بغدادی تھانے پر کریکر سے حملے کی بھی اطلاعات ملی تھیں۔ جبکہ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے صوبے میں تین روز سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ شروع کر دی اور سڑکوں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کے لگے ہوئے بینرز کو آگ لگا دی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کی موت کی خبر سن کر راولپنڈی کی تمام مارکیٹیں بند ہوگئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جو مری روڈ پر موجود تھی، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور سڑکیں بلاک کر دیں۔ شہر کی پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا گیا اور لوگوں نے خود کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا۔ اس سانحہ کے بعد فیض آباد راولپنڈی میں واقع بسوں کے اڈے بند کر دیے گئے جبکہ ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹل بھی بند کر دیے۔ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں مسلم لیگ قاف کے اس پنڈال میں آگ لگا دی گئی جہاںمسلم لیگ قاف کا جلسہ عام ہونا تھا۔ سینکڑوں مشتعل افراد نے سٹیج، کرسیوں بینر اور پوسٹروں کو آگ لگا دی گئی اس کے علاوہ مسلم لیگ قاف کے تین انتخابی دفاتر کو بھی آگ لگائی گئی۔اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج اور ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کی اطلاعات ملی تھیں۔ پنجاب کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند کر دی گئی تھیں۔بیشتر شہروں میں پٹرول پمپ سینما گھر تھیٹر بند کردیے گئے ۔ لاہور میں پولیس کی دوگاڑیوں کو جلا دیا گیا تیسری کو پولیس اہلکاروں سمیت اغوا کیا گیا بعد میں پولیس اہلکاروں کو تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا۔ شہر کے ایک علاقے میں موبائل فون کے دفتر، ایک پٹرول پمپ اور دوسرے میں ایک ویگن کو نذر آتش کیا گیا ۔ایک گھر کو بھی آگ لگائے جانے کی اطلاع پولیس کو ملی ۔ لاہور میں مختلف مقامات پر ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی اور شاد باغ اور شملہ پہاڑی کے نزدیک زبردست ہوائی فائرنگ کی گئی ۔ مال روڈ شام ہوتے ہی سنسان ہوگئی اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ گوجرانوالہ میں دکانیں بند کرنے میں تاخیر کرنے والوں کی دکانوں میں توڑپھوڑ کی گئی ۔ ملتان میں چوک رشید آباد سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا توڑ پھوڑ کی اور ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی۔ ملتان کے ڈیرہ دارچوک اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ہوائی فائرنگ کی اطلاع ملی۔ پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا تھا پیپلز پارٹی کے کارکن مشتعل ہیں اور متعددنے انتقام کی بات کی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی بینظیر کی ہلاکت کی خبر پہنچتے ہی مختلف علاقوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور توڑ پھوڑ کی۔ پشاور میں جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر پی پی پی کے سینکڑوں کارکن جمع تھے اور سڑک بند کر کے وہاں احتجاج کر تے رہے جی ٹی روڈ پر بعض مشتعل افراد نے ایک گاڑی کو آگ لگائی اور سڑک پر نصب درجنوں سائن بورڈ اور گاڑیوں کے شیشے توڑے۔ پولیس نے مظاہرین کومنتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج اور انسو گیس کے گولے فائر کیے۔ ادھر اس واقعہ کے بعد شہر کے زیادہ تر تجارتی مراکز بند ہوگئے اور لوگ گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ شہر کے زیادہ تر علاقوں میں بجلی کی ترسیل معطل تھی۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کشیدگی کی اطلاعات تھیں جبکہ لورالائی اور تربت میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جوں جوں اطلاعات پہنچ رہی تھیں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ لورالائی شہر میں سب سے پہلے توڑ پھوڑ شروع کی گئی جہاں گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں تھی۔ اس کے علاوہ مکران ڈویڑن کے شہر تربت سے مشتعل افراد نے ہوائی فائرنگ کی اور ایک دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ جعفر آباد اور نصیر آباد کے علاقوں میں مشتعل افراد نے ٹائر جلا کر روڈ بلاک اور دکانیں بند کر دای گئی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں خوف کی غم و غصہ کی فضا پائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ پر بڑی تعداد میں کارکن جمع ہو گئے تھے لیکن کسی تشدد کے واقعے کی اطلاع نہیں تھی۔ اسی رات کوئٹہ میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس ہوا تھا جس میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ اس وقت کے اے پی ڈی ایم کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ فوجی حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو سیاست اور سیاسی جماعتوں کو برداشت نہیں کر رہے۔ کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق تمام اہم مقامات پر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی تھی تاکہ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ لسبیلہ سے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماوں کے مطابق بیلہ میں دکانیں اور بازار بند کر دیے گئے اور تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ۔ اسی رات غیرملکی حکومتوں کا ردعمل بھی دیکھنے میں آیا اس حوالے سے امریکی حکومت نے بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے پاکستان میں مفاہمتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ روس کی حکومت نے بھی حملے کی مذمت کی ۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھ نےمحترمہ بھٹو کی موت پرگہرے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی موت سے برصغیر ایک بہترین رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ محترمہ بھٹو کی موت سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے اور وہ اس مشکل گھڑی میں پاکستانی عوام کے غم میں شریک ہیں۔ فرانس نے بینظیر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ ’قابل نفرت فعل‘ ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ ڈیوِڈ ملیبینڈ نے پاکستان میں ’تحمل اور یکجہتی‘ کی اپیل کی ۔ افغانستان کی حکومت نے بینظیر پر قاتلانے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بربریت‘ قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ بینظیر کے قاتل پاکستان اور امن کے دشمن ہیں۔ بینظیر بھٹو اور حامد کرزئی نے اسی روز اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔ قبل ازیںبینظیر بھٹو پر کراچی میں اٹھارہ اکتوبر پاکستان واپسی پر ایک استقبالیہ ریلی میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان واپسی کے بعد سے ان کی سکیورٹی پر مسلسل تشویش پائی جارہی تھی۔پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کی آٹھ سال سے زیادہ جلا وطنی کے خاتمے کے دن کراچی میں خوفناک بم دھماکوں میں کم از کم 125 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔بینظیر بھٹو کی ریلی میں پہلا دھماکہ کراچی میں شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب رات کو بارہ بجکر پانچ منٹ پر پیش آیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی دوسرا دھماکہ ہوا تھا۔ تاہم بینظیر ان دھماکوں سے محفوظ رہیں۔ دھماکے کے وقت بینظیر بھٹو ٹرک کے عرشے سے اتر کر نیچے ٹرک میں بنائے گئے خصوصی کمرے میں آرام کرنے گئی تھیں۔ انہیں فوراً وہاں سے اتار کر محفوظ مقام پر پہنچایا گیا جبکہ جلسہ گاہ کا کنٹرول رینجرز نے سنبھال لیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد لاوڈ سپیکر سے اعلان کیا گیا کہ بینظیر بھٹو محفوظ ہیں۔کراچی پولیس نے دھماکے کو ایک خود کش حملہ قرار دیا تھا۔ کراچی کے سٹی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی کے مطابق پہلے جلوس میں شریک لوگوں پر ایک گرینیڈ پھینکا گیا اور پھر ایک خودکش بمبار نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپاو نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس دہشت گردی کا نشانہ بینظیر بھٹو تھیں۔ سپرنٹینڈنٹ پولیس (سی آئی ڈی) راجہ عمر خطاب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ریلی پر حملہ ایک خود کش حملہ تھا اور پولیس کو خود کش حملہ آور کا سر مل گیا ہے۔ رات گئے تک دیگر تفصیلات کے مطابق کراچی میںاکہتر لاشوں کی تصدیق کی گئی تھی۔ دھماکے میں پیپلز پارٹی کے رہنما بھی زخمی ہوئے ۔ رکن قومی اسمبلی غلام قادر چانڈیو نے بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما امین فہیم بھی دھماکے میں معمولی زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جناح ہسپتال سے 43 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ جن لاشوں کی شناخت ہو سکی ان میں کراچی لیاری کے علی بخش بلوچ، کراچی گزری کے طاہر ناریجو، پولیس انسپیکٹر شہاب الدین، اور ایک ٹی وی چینل اے آر وائی کے کیمرہ مین محمد عارف شامل تھے جب کہ زخمیوں میں اے ایس پی سہیل ظفر چٹھہ، فوٹو گرافر اظہر سہیل اور ایک ٹی وی چینل کے شاہد انجم شامل تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جناح ہسپتال میں چوبیس، لیاقت نیشنل ہسپتال میں تیس اور سول ہسپتال میں سترہ لاشیں لائی گئی تھیں۔ جناح ہسپتال میں چوالیس، نیشنل ہسپتال میں بیالس، سول ہسپتال میں تینتیس، عباسی شہید ہسپتال میں چار اور آغا خان ہسپتال میں ایک لاش موجود تھی۔ بم دھماکوں کی جگہ پر لاشوں کے ٹکڑے ہر جگہ بکھرے پڑے تھے ۔جناح ہسپتال میں ایک سو سے زائد زخمی موجود تھے۔ شعبہ ایمرجنسی کی ڈپٹی رجسٹرار ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ پچاس فیصد سے زائد زخمیوں کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی۔ ’زخمیوں کو سر اور گلے میں چوٹیں آئیں تھیں جبکہ کے کچھ کو جسم کے نچلے حصے میں زخم آئے جبکہ ایدھی کی گاڑیوں نے دھماکے کے بعد تیس سے زائد لاشوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا ۔ اس سے قبل ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ جمعرات کی شب کراچی میں شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب سابق پاکستانی وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے استقبالیہ قافلے میں دو دھماکے ہوئے ہیں۔یہ دھماکے شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب استقبالیہ قافلے میں ہوئے۔پہلے ایک چھوٹا دھماکہ ہوا جس سے بھگدڑ مچی اور اس کے فوراً بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا جس میں زیادہ تر ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ دھماکے شاہراہ فیصل پر عوامی مرکز اور بلوچ کالونی پل کے درمیان کے علاقے میں ہوئے۔ بینظیر جس ٹرک میں سوار تھیں اس کو بھی دھماکے سے نقصان پہنچا اور اس کی ونڈ سکرین ٹوٹ گئی ۔کراچی میں جناح ہسپتال میں لاشوں کے آنے پر وہاں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور وہاں موجود لوگ مشتعل ہو گئے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے خلاف نعرے لگانے لگے۔دھماکہ اس وقت ہوا جب بےنظیر کا قافلہ مزار قائد کی جانب رواں دواں تھا۔ بی بی سی کے مطابق اس سے قبل طالبان نے بےنظیر بھٹو پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان کے کمانڈر حاجی عمر نے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو امریکہ کے کہنے پر پاکستان آ رہی ہیں تاکہ وہ ’مجاہدین‘ کے خلاف کارروائیاں کرسکیں لیکن اگر انہوں نے ایسے کیا تو صدر جنرل پرویز مشرف کی طرح ان پر بھی حملے کیے جا سکتے ہیں۔ کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے حاجی عمر نے بتایا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ بینظیر بھٹو خود اپنی مرضی سے پاکستان نہیں آ رہیں بلکہ امریکہ کے کہنے پر آ رہیں ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں بھی کافی وقت گزارا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اگر جنرل مشرف کی حکومت ہو یا بعد میں بےنظیر بھٹو کی حکومت بنتی ہے، ہماری جنگ تو دونوں کے خلاف جاری رہے گی۔ایک سوال کے جواب میں حاجی عمر نے بتایا کہ بےنظیر بھٹو اسامہ بن لادن کو گرفتار کرانے میں امریکہ کی کیا مدد کرینگی کیونکہ خود امریکہ اور پاکستان گزشتہ چھ سال سے اسامہ بن لادن کا پتہ نہیں لگا سکے ہیں اور جس سے اب یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اسامہ پاکستان میں موجود نہیں ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی جانب سے کراچی میں بہادر آباد پولیس سٹیشن میں اٹھارہ اکتوبر کے بم دھماکوں کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے ایک درخواست جمع کرائی گئی تھی جس میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ۔یہ درخواست پی پی پی سندھ کے صدر قائم علی شاہ نے پارٹی کے دیگر رہنماوں نثار کھوڑو، آفتاب شعبان میرانی، اور جمیل سومرو کے ساتھ بہادر آباد تھانے پہنچ کر پولیس کے حوالے کی تھی۔ کراچی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی نے بتایا تھاکہ ’اس واقعے کی پہلے ہی ایک ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے اور اس درخواست پر قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جائے گی۔انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھاکہ پولیس بینظیر بھٹو کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست پر ایف آئی آر درج کرے گی یا نہیں اوراس موضوع پر مزید بات کرنے سے انکار کردیا تھا۔قائم علی شاہ نے بتایا تھا کہ ایس ایچ او کی جانب سے ایف آئی آر درست نہیں کیونکہ وہ متاثر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ تفتیشی ٹیموں پر ان کو اعتماد نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اٹھارہ اکتوبر کی رات کو بینظیر بھٹو کے استقبالیہ قافلے میں شارع فیصل پر کارساز موڑ کے قریب ہونے والے دو بم دھماکوں میں 134 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جس کی ایف آئی آر بہادرآباد کے ایس ایچ او عابد علی شاہ کی جانب سے پہلے ہی درج کی جاچکی تھی۔ بینظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ اٹھارہ اکتوبر کو ان کی وطن واپسی پر حکومت کی جانب سے ان کو بتایا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ بینظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں کہا تھا ان کی حکومت کو غیر جمہوری طور پر سن 1996 میں ہٹایا گیا جبکہ ان کو عوام کی حمایت حاصل تھی جس کے بعد ان کو 1999 مجبوراً ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ بینظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ ’اٹھارہ اکتوبر کو ان کی وطن واپسی پر حکومت کی جانب سے ان کو بتایا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کو سولہ اکتوبر کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے ان افراد کی نشاندہی بھی کی تھی جن پر انہوں نے اپنے شک کا اظہار کیا تھا۔ تاہم انہوں نے ان کے نام اپنی درخواست میں واضح نہیں کیے تھے۔بینظیر بھٹو نے مزید کہا کہ ’اٹھارہ اکتوبر کو جب وہ ائرپورٹ سے ایک بہت بڑے جلوس کے ساتھ دس گھنٹے بعد کارساز کے قریب پہنچیں تو دو بم دھماکے کیے گئے جن میں 140 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جس میں وہ بال بال بچ گئیں تھیں‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’یہ دھماکے ان کو اور ان کی پارٹی کی قیادت کو ختم کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ انہوں نے درخواست میں کہا کہ اس واقعہ کا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ اور ایکسپلوسو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔پاکستان کے قیام کے ساٹھ برسوں میں تین صدور اور تین وزراءاعظم سمیت اہم سیاسی شخصیات پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ ان قاتلانہ حملوں میں ایک صدر اور ایک وزیراعظم ہلاک ہوئے جبکہ دیگر بال بال بچ گئے۔قیام پاکستان کے بعد چار برس بعد ہی ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کردیا گیا۔ لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر سنہ انیس سو اکیاون میں اس وقت گولی مار کرکے ہلا ک کیا گیا جب وہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔صدر جنرل ایوب خان ملک کے پہلے صدر تھے جن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ صدر جنرل ایوب پر آٹھ نومبر سنہ انیس سو اڑسٹھ میں پشاور یونیورسٹی میں خطاب کے دوران فائرنگ کرکے ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تاہم صدر ایوب اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔صدر جنرل ضیاءالحق پاکستان کے دوسرے صدر تھے جن پر قاتلانہ حملے ہوئے تاہم ان کی ہلاکت سترہ اگست سنہ انیس سو اٹھاسی میں فوجی طیارے کی تباہی سے ہوئی۔ اس حادثہ سے صدر جنرل ضیاءالحق کے علاوہ اعلی فوجی افسر اور پاکستان میں امریکہ کے سفیر بھی ہلاک ہوگئے۔ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو بھی اپنی بہن کے دورے حکومت میں گولی لگنے سے ہلاک ہوئے۔ میر مرتضیٰ بھٹو بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو اپنے سات ساتھیوں سمیت پولیس فائرنگ سے اپنے آبائی اقامت گاہ سترہ کلفٹن کے باہر ہلاک ہوئے تھے۔نواز شریف ملک کے دوسرے وزیر اعظم تھے جن پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ لاہور کے نواحی علاقے رائے ونڈ میں واقع اپنے فارم پر جارہے تھے اور ان کے راستے میں ایک پل کے نیچے رکھا گیا بم ان کی گاڑی گزرنے کے بعد پھٹا اور اس طرح نواز شریف محفوظ رہے۔صدر جنرل پرویز مشرف پر دسمبر سنہ دوہزار تین میں یکے بعد دیگرے دو انتہائی خطرناک حملے ہوئے۔ تاہم صدر مشرف معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔صدر جنرل مشرف پر پہلا حملہ چودہ دسمبر سنہ دو ہزار تین کو راولپنڈی کے جھنڈا چیچی پل پر ریموٹ کنٹرول بم سے کیا گیا تھا لیکن صدر کے قافلے کی گاڑیوں میں نصب شدہ ’سگنل سینسرنگ‘ آلات کی وجہ یہ بم اس وقت نہیں پھٹ سکا تھا جب گاڑیاں پل سے گزر رہی تھیں۔اس واقعہ کے دس دنوں بعد صدر مشرف پرپچیس دسمبر کو دوسرا حملہ کیا گیا اور ان کو خودکش حملہ کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ راولپنڈی میں صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے پر اس خطرناک خود کش حملے میں کم از کم چودہ افراد ہلاک اور چھیالیس زخمی ہوگئے ہیں۔ صدر مشرف کے قافلے پر دو مختلف اوقات پر دو گاڑیوں سے حملہ کیا گیا۔ یہ گاڑیاں دو پیٹرول سٹیشنوں سے باہر نکلی تھیں۔ اس حملے میں صدر مشرف بال بال بچ گئے۔وزیر اعظم شوکت عزیز پر بھی تیس جولائی سنہ دو ہزار چار میں ان کی انتخابی مہم کے دوران ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے۔ تاہم اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔شوکت عزیز اٹک میں اپنی انتخابی مہم کے دوران فتح جنگ کے قریب ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کر کے باہر آ رہے تھے کہ جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر ان کی گاڑی کے قریب ایک زور دار دھماکہ ہوا تھا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری بھی اس سال سترہ جولائی کی شام اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں ہونے والے وکلاءکنونشن کے پنڈال کے قریب ہونے والے دھماکے میں بال بال بچے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری اپنی معطلی کے دوران ایک جلوس کی شکل میں وکلا کنونشن میں خطاب کے لیے آرہے تھے اور ان کا قافلہ جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر تھا جب پنڈال میں بم دھماکا ہوا۔ اس دھماکے میں کم از کم پندرہ افراد ہلاک اور اسی کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ اس بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن بھی شامل تھے۔سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی اٹھارہ اکتوبر کو آٹھ برسوں کی جلاوطنی کے بعد ملک میں واپسی پر ان کے استقبالیہ جلوس میں خودکش حملے میں ایک سوانتالیس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ بینظیر بھٹو کے ٹرک سے کچھ فاصلے پر ہوئے۔ تاہم بینظیر بھٹو اس انتہائی خطرناک حملے میں محفوظ رہیں۔ لیکن ستائیس دسمبر کوپاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ہلاک کردیا گیا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کیا گیا حملے میں بینظیر بھٹو انتقال کرگئیں۔ حملے کے بعد انہیں شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن انہیں بچایا نہ جاسکا۔ راولپنڈی میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کو لاڑکانہ میں ان کے آبائی گاو¿ں گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کیا گیا۔اس موقع پرگڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے کارکن ہزاروں کی تعداد میں جمع تھے جبکہ پورے پاکستان سے کارکنوں کے قافلے اپنی رہنماءکی آخری رسومات میں شرکت کے لیے لاڑکانہ پہنچے تھے۔ بینظیر بھٹو کا جسد خاکی پاکستان ایئرفورس کے ایک 130-C طیارے کے ذریعے راولپنڈی سے سکھر اور پھر وہاں سے ہیلی کاپٹر پر ان کے آبائی شہر لاڑکانہ کے موہنجوداڑو ایئرپورٹ پہنچایا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو کی میت پاکستانی وقت کے مطابق رات ایک بجکر بیس منٹ پر راولپنڈی کی چکلالہ ائیربیس سے سکھر کے لیے روانہ کی گئی ۔ طیارے میں ان کے شوہر آصف علی زداری اور بچے بلاول، بختاور اور آصفہ بھی موجود تھے۔ آصف علی زرداری اور ان کے بچے خصوصی طیارے کے ذریعے دبئی سے اسلام آباد پہنچے تھے۔موہنجوداڑو ایئرپورٹ سے بینظیر بھٹو کی میت لاڑکانہ میں ’نوڈیرو ہاوس‘ پہنچی تو موقع پر موجود سینکڑوں کارکن زار و قطار رونے لگے۔ ان میں سے کئی نے سینہ کوبی شروع بھی کر دی تھی۔میت کے ساتھ ان کے پیپلز پارٹی رہنماءمخدوم امین فہیم، راجہ پرویز اشرف، شیریں رحمان اور دیگر شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماوں کا کہنا تھا کہ تدفین کا وقت بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی رہنماوں سے مشاورت کے بعد طے کریں گے۔ اس سے قبل پاکستان کے نگران وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد نواز نے اعلان کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی میت اسی رات ہی لاڑکانہ بھجوا دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی میت ان کے شوہر آصف زرداری کے حوالے کی جائے گی۔ بے نظیر بھٹو کو جب ہسپتال لایا گیا تو وہ دم توڑ چکی تھیں۔ پروفیسر مصدق خان نے کہا کہ انہیں اوپن ہارٹ مساج کے ذریعے انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ ڈاکٹروں نے یہ بھی بتایا کہ ایک گولی ان کی شہ رگ میں لگ کر سر سے نکلی ہے، جس سے دماغ کا پچھلا حصہ اڑ گیا۔ تاہم ڈاکٹروں کی ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ یہ زخم دو الگ الگ گولیوں کی وجہ سے آئے۔ ابھی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے بھی ہسپتال کا دورہ کر کے پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں سے تعزیت کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر کی جنگ اب وہ لڑیں گے۔ بینظیر دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے 1979ءمیں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ءمیں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ءمیں جنرل ضیاءالحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔ بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک تھا۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔ بینظیر بھٹو کی دو بار حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔ تاہم 1988ءمیں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماو¿ں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔ بینظیر بھٹو نے 1953ءمیں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان کی بجائے صحافی یا وکیل بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔ جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ءمیں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔ علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاءالحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ءمیں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 1988ءمیں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔ بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی جبکہ گزشتہ سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔ بینظیر بھٹو 1999ءمیں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔ خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔ بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔ مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔ اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی اب اکتالیس برس کی ہوگئی ہے۔ ان اکتالیس برسوں میں پارٹی نے کئی نشیب و فراز دیکھے اور پارٹی کے کئی ممتاز رہنماوں نے مشکل گھڑی میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی اور پارٹی کے نام کےساتھ لاحقہ لگا کر نئی جماعتیں تشکیل دیں تاہم وقت کے ساتھ افادیت ختم ہونے پر نومولود جماعتیں بھی ختم ہوگئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی اکتا لیس برس قبل تیس نومبر 1967 کو وجود میں آئی اور اس جماعت کے پہلے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پیپلز پارٹی نے 1970 میں ہونے والے عام انتخابات میں مغربی پاکستان سے بھرپور انداز میں کامیابی حاصل کی۔پیپلزپارٹی پر مشکل وقت کے دوران پارٹی کے ممتاز رہنماوں نے اس سے علیحدگی اختیار کی تاہم اقتدار ملنے پر ان میں کئی رہنما پارٹی میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے کئی رہنماوں نے اسی جماعت کے نام پر نئی جماعتیں قائم کیں اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد اس میں دوبارہ شامل ہوگئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں پہلی حکومت بنائی اور مارچ 1977 کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی تاہم پانچ جولائی1977میں جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا لگا کر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردی جس کے بعد پارٹی میں اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد بھٹو کابینہ کے وزیر قانون ایس ایم مسعود نے ایک قرارداد کے ذریعے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا تاحیات صدر بنا دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی کوثر نیازی نے مشکل کی اس گھڑی میں علیحدگی اختیار کر لی اور پروگریسِو پیپلز پارٹی کے نام سے جماعت بنالی۔ نیازی کی پیپلز پارٹی میں بھٹو کا ساتھ چھوڑنے والے رہنما شامل ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بنایا گیا۔سن 1986 میں بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی اور بھٹو کے سیاسی شاگرد غلام مصطفیٰ کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی تاہم کچھ عرصہ کے نیشنل پیپلز پارٹی مزید دو، جتوئی اور کھر گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔انیس سو اٹھاسی میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد غلام مصطفیٰ کھر نے اپنے گروپ کواصل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا۔بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارٹی کی چیئرپرسن اور اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹا دیا اور خود پارٹی کی چیئرپرسن بن گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی تبدیلی کے بعد ان کے حامی رہنماوں نے نصرت بھٹو کی سربراہی میں پارٹی کا شہید بھٹو گروپ بنا لیا اور نہ صرف بھٹو کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا گیا بلکہ بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پر شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھال لی۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو کے ہاتھ میں آگئی اور وہ تاحال شہید بھٹو گروپ کی سربراہ ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 1996 میں تحلیل کر دیا اور بھٹو کے قربیی ساتھی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نگران مقرر کر دیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود نے بھی 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ پر پیپلز پارٹی زید اے بھٹو کے نام پر جماعت بنائی تاہم اکتوبر دوہزار دو میں عام انتخابات سے قبل رانا شوکت محمود دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔سردار فاروق لغاری نے صدر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملت پارٹی بنائی اور اس جماعت میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماوں نے شمولیت کی۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب شرپاو نے اختلافات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی شرپاو گروپ کے نام جماعت بنائی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو نے خود پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کا سربراہ مخدوم امین فہیم کومقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے سنہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ جماعت بینظیر بھٹو کی واپسی اور اسمبلیوں کی تحلیل کےساتھ ہی عملی طور پرختم ہوگئی تھی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی پیڑیاٹ قائم کی اور مسلم لیگ قاف کو حکومت بنانے میں مکمل مدد اور تعاون فراہم کیا۔پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرایا گیا تھا تاہم آفتاب شرپاو کے سوا پیپلز پارٹی پیڑیاٹ مسلم لیگ قاف میں شامل ہوگئی۔بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھاجس پر سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور شرپاو گروپوں کے انضمام کرکے انہیں پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور پیپلز پارٹی کا نام بحال کر دیا تھا۔پیپلز پارٹی اپنے قیام سے اب تک چار مرتبہ اقتدار میں آئی ۔پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے اور دو مرتبہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو اقتدار میں رہنے کاموقع ملا۔جبکہ اب بے نظیر کے شو ہر آصف زرداری صدر جبکہ ان کی پارٹی کے ایک ورکر سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بےنظیر بھٹو کے نام سے منسوب کر دیا ہے جبکہ راولپنڈی جنرل ہسپتال اور مری روڈ کا نام بھی بےنظیر بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔وفاقی حکومت نے اس ضمن میں پنجاب حکومت کے ساتھ مشاورت کی تھی اور باہمی رضا مندی کے ساتھ ان جگہوں کے نام بینظیر بھٹو کے نام کے ساتھ منسوب کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس سال بیس جون کو بےنظیر بھٹو کی پچپن ویں سالگرہ کے موقع پر ان جگہوں کو بےنظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی سالگرہ اکیس جون کو منائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ان مقامات کے نام سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے خدمات کے اعتراف میں رکھے گئے ہیں۔ گذشتہ سال ستائیس دسمبر کو بےنظیر بھٹو راولپنڈی میں لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ اس خودکش حملے میں جب بےنظیر بھٹو زخمی ہوئیں تھیں تو انہیں طبی امداد کے لیے راولپنڈی جنرل ہسپتال لایا گیا تھا لیکن وہ جان بچا نہ سکیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے لیے ابتدائی طور پر پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ لیاقت باغ کے باہر جس جگہ بےنظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا اس جگہ ایک یادگار تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ ہوا تھا جس کے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی مدعو کیا جائےگا۔ ملک کی اہم سیاسی شخصیت بینظیر بھٹو کو قتل ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔انہیں گزشتہ برس آج کے ہی دن راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں پچیس دیگر افراد سمیت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس ایک اہم ترین قتل کے پیچھے کون لوگ تھے یہ معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔قتل کے فورا بعد جائے وقوع کی دھلائی سے جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ قاتلوں کو چھپایا جا رہا ہے وہ مبصرین کے نزدیک آج سچ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت کی نگران حکومت اس واقعے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ بےنظیر بھٹوکے قتل میں قبائلی جنگجو بیت اللہ محسود ملوث ہے۔ وزارت داخلہ نے صحافیوں کو اس ضمن میں ایک ریکارڈنگ بھی سنائی جس میں بیت اللہ کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنایا گیا۔ تاہم اس ٹیپ میں یہ کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ بےنظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس واقعہ کے چوبیس گھنٹوں میں تین مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا۔ پہلے وزارت داخلہ نے بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ گولی اور بعد میں بم کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی لاش کاپوسٹ مارٹم نہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے کی تفتیش اس طرح نہیں ہوسکی جس طرح قتل کے دوسرے مقدمے میں پولیس تفیش کرتی ہے۔اسی طرح بےنظیر بھٹو کی سیکورٹی پر مامور ایس ایس پی میجر ریٹائرڈ امتیاز کا بیان بھی پولیس نے قلمبند نہیں کیا۔اور پھر ان کی موت کی وجہ ان کا سر گاڑی کی چھت کے ایک لیور سے ٹکرانے کو قرار دیا۔ ایک غیرملکی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا تھاکہ اسے ملنے والی ایک ویڈیو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بےنظیر بھٹو کو سر میں گولی لگی تھی۔ اس دعوے نے اس وقت کے حکومتی موقف کو مذید مشکوک بنا دیا تھا۔اس مقدمے کی تفتیش کے لیے پنجاب پولیس کے کرائم انسوسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں ایک مشترکہ تفیشی ٹیم بنائی گئی جس میں پولیس کے علاوہ اٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش میں تکنیکی معاونت کے لیے سکاٹ لینڈیارڈ کی ٹیم گزشتہ چار جنوری کو پاکستان آئی۔ اس ٹیم نے اپنی تفتیش کے دوران حکومت کے موقف کی تائید کی کہ بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ ان کا سر کا کسی آہنی چیز ٹکرانا تھا۔ تاہم اس وقت پیپلز پارٹی نے یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس غیر ملکی تفتیشی ٹیم کو یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ مشکوک افراد سے پوچھ گچھ کریں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سال جنوری میں ڈیرہ اسماعیل خان سے قتل میں ملوث ہونے کے شبہے میں اعتزاز شاہ اور شیر زمان کو گرفتار کیا تھاجس کے بعد راولپنڈی سے محمد رفاقت، حسنین گل اور قاری عبدالرشید کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم محمد رفاقت کے والد صابر حسین کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا اور ان کا داماد حسنین گل بےنظیر بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا بیٹا پانچ جنوری سے لاپتہ تھا جس کی گمشدگی کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کروانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کی رپورٹ درج نہیں کی اور بعدازاں انہیں سات فروری کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا اور داماد بینظیر بھٹو کیس میں پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے بیٹے اور داماد پر پستول اور ہینڈ گرنیڈ بھی ڈال دیئے تھے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی پولیس نے رفاقت اور حسنین گل کو جی ایچ کیو کے قریب خودکش حملے میں بھی نامزد ملزمان قرار دیا ہوا ہے۔ راولپنڈی پولیس نے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن کے قتل کے مقدمے کا چالان وقوعہ کے تین ماہ کے بعد ہی عدالت میں پیش کر دیا تھا۔یہ پیش کردہ چالان گرفتار ملزمان کے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے اقبالی بیانات پر مبنی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس چالان کی روشنی میں بےنظیر بھٹو قتل کی سازش کا منصوبہ ساز پاکستانی طالبان شدت پسندوں کے رہنما بیت اللہ محسود کو قرار دیا اور ان سمیت بعض ملزمان کو مفررو ظاہر کیا ہے۔ اس مقدمے کی تفتیش میں معاونت کرنے والے راولپنڈی پولیس کے شعبہ تفتیش کے سربراہ رانا شاہد کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس ضمن میں جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان کے خلاف بےنظیر بھٹو قتل میں ملوث ہونے کے اہم شواہد ملے ہیں۔ ایک غیر ملکی نشر یاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ اس مقدمے میں ملزمان کا اقبالی بیان کافی اہم ہے۔ رانا شاہد نے کہا کہ عدالت نے اس مقدمے میں قبائلی شدت پسند بیت اللہ محسود سمیت پانچ افراد کو اشتہاری قرار دیا ہے۔ ایس پی انوسٹیگیشن نے کہا کہ اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیئے جانے والے افراد میں سے دو افراد سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اسماعیل اور دلاور شامل ہیں۔ اس مقدمے میں سرکاری وکیل سردار اسحاق نے کہاکہ اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف جو شواہد عدالت میں جمع کروائے گئے ہیں وہ انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان رفاقت، حسنین گل اور عبدالرشید کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں جبکہ اعتزاز شاہ اور شیر زمان پر قتل کی دفعات لاگو نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اس مقدمے میں ایک سو کے قریب گواہان ہیں اور اس مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے اس خط کو اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم کے حوالے کیوں نہیں کرتی جس میں انہوں نے خود کو کچھ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے نام لیے تھے ۔اس وقت کے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بےنظیر بھٹو پر ہونے والے خودکش حملے کی جگہ کو دھونے کو راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ہیڈ کوراٹر کی سربراہی میں بننے والی اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کو پیش کی۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس کمیٹی کی رپورٹ میں اس وقت کے سٹی پولیس افسر سعود عزیز کو ذمہ دار کو ٹھرایا گیا جس کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن اس جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس پولیس افسر کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے آبائی شہر ملتان میں پولیس کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔سعود عزیز کا موقف تھا کہ پولیس نے جائے حادثہ سے تمام ضروری شواہد حاصل کرنے کے بعد اسے دھو یا تھا۔ بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ گدشتہ برس اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں بےنظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر خود کش حملے کے بعد اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن اس واقعہ کی دوبارہ ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں تو اب اس وقت جب یہ جماعت برسراقتدار ہے تو بےنظیر بھٹو کے قتل کی دوبارہ آیف ائی ار درج کیوں نہیں کرواتی ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے اس خط کو اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم کے حوالے کیوں نہیں کرتی جس میں انہوں نے خود کو کچھ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے نام لیے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات سے متعلق تمام ثبوت صرف اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرے گی۔یہ بات پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینٹر بابر اعوان نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔انہوں نے تحقیقات بیرون ملک تفتیش کاروں سے کروانے کی حکومتی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا تھاکہ حکومت ’ملزم بچاو‘ مہم میں مصروف ہے جو کہ بقول ان کے انتہائی شرمناک عمل ہے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کی جانب سے لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری اور بےنظیر بھٹو کی ہلاکت میں کسی مماثلت کے نہ ہونے کے بیان پر شدید تنقید کی تھی۔ انہوں نے سانحے کے دو گھنٹے کے اندر اندر جائے وقوع کو دھونے پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے پہلے یہ کہا تھاکہ اگر پاکستانی حکومت نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے مدد کی درخواست کی تو مثبت جواب دیا جائےگا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون کے ترجمان نے کہا تھا کہ اب تک حکومت پاکستان نے ان سے تحقیقات میں مدد کی درخواست نہیں کی ہے۔ سینٹر بابر اعوان نے یہ بھی الزام لگایا تھاکہ صوبہ سندھ میں دو لاکھ پارٹی کارکنوں کے خلاف اب تک ساڑھے چار ہزار مقدمات درج کیے گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ابتدائی رپوٹوں میں پارٹی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام امیدوار اور وارڈ کی حد تک کارکن نامزد کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات کے مدعی سیاسی لوگ ہیں۔ یہ گرینڈ دھاندلی کی سکیم کا حصہ ہو سکتا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’سندھ کو مرہم کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں خون اور بارود ہے‘۔ انہوں نے سندھ میں فوج کشی کے فیصلے کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’ہماری پارٹی کسی کو وفاق توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آج تک بہت سے ایسے سوال ابھر رہے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یا جن کے پاس ہے وہ دینا نہیں چاہتے۔ بر طانوی صحافی فرینک گارڈنر جوبی بی سی نامہ نگار سکیورٹی امورہیں انھوں نے بھی اپنے ایک مضمون" بینظیر بھٹو کو کس نے مارا؟ " میں لکھا تھا کہ ان کے اصل قاتل کی شناخت کبھی معلوم ہو بھی گئی تو وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کو بھیجنے والے کون تھے اور انہوں نے ایسا کیوں کیا؟پاکستان میں جہاں افواہوں کا بازار گرم ہے اس وقت دو متضاد آراءگردش کر ہی ہیں۔ ایک رائے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ہے کہ قاتل القاعدہ یا طالبان یا دونوں تھے۔ یقیناً رش والی جگہ پر خودکش حملہ القاعدہ کا پسندید طریقہ ہے، لیکن اس بار حملہ آور نے ناکامی کا امکان ختم کرنے کے لیےاپنے آپ کو اڑانے سے قبل فائرنگ بھی کی۔ القاعدہ اور طالبان کے پاس بینظیر بھٹو کو مارنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سیکولر، مغرب میں تعلیم یافتہ اور ایک ایسی خاتون سیاستدان کی حیثیت سے جس کے برطانیہ اور امریکہ سے قریبی تعلقات تھے وہ اسلامی انتہاپسندوں کو مخالفت کی کئی وجوہات فراہم کرتی تھیں۔ آئی ایس آئی نے ایک طویل عرصے تک افغانستان میں طالبان اور اور کشمیری علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ صدر مشرف نے امریکہ کو قائل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں کہ انہوں نے آئی ایس آئی میں اایسے عناصر کو ختم کردیا ہے جن کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ ابھی پرانے رابطے پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ انہوں نے کھلے عام صدر مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اسلامی انتہاپسندوں کو کمزور کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے اور انہوں نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا کہ اسلامی انتہاپسندوں کی پشت پناہی کرتی ہے جن کے القاعدہ سے تعلقات ہیں۔ اگر اس واقعے کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ ہے تو ان کے طریقہ کار کے مطابق وہ کنفیوڑن میں اضافے کے لیے کچھ دیر رکنے کے بعد انٹرنیٹ پر ایک محتاط بیان جاری کرتی ہے جس میں خودکش حملہ آور کی تعریف اور حملے کی وجوہات کو مذہبی اصطلاحات میں پرو کر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے جو محترمہ بھٹو کے حامیوں کے نزدیک درست ہے یہ ہے کہ حملے میں حملے کی ذمہ دار صدر مشرف کی حکومت ہے۔ وہ خاص طور پر آئی ایس آئی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کے مطابق بینظیر بھٹو کی اقتدار میں متوقع واپسی سے اتنی پریشان تھی کہ اس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلے کیا۔ اس رائے کو لوگ جتنے بھی اعتماد سے پیش کریں اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے آزاد شواہد نہیں ہیں اور مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار انکوائری کے بغیر حقیقت شاید کبھی بھی معلوم نہ ہو سکے۔ پاکستانی سیاست کے گنجل میں بہت سے ایسے اسلامی عسکریت پسند گروپ ہیں جن کا تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ حکومت سے لیکن اس کے باوجود کسی ایک سے یا دونوں سے روابط ہیں۔ بر طانوی صحافی کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستانی کی داخلی صورتحال کا دارومدار اس پر ہوگا کہ آیا کہ حملہ آور کو پاکستان میں سے ہی بھیجا گیا تھا یا باہر سے۔ اگر تو اس میں القاعدہ یا طالبان ملوث ہیں تو یہ معاشرے کو اکٹھا کرنے میں مددگار ہوگا جو ایک قومی ایک رہنما کے قتل پر غمگین ہے۔ دوسری صورت میں اگر قاتل پاکستانی معاشرے کے کسی ایک دھارے کا حصہ نکلے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ 29 دسمبر2007 کوتحریک طالبان پاکستان نے وزارت داخلہ کے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے اس وقت کے وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیر جاوید اقبال چیمہ کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی جو انہوں نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مولوی عمر نے کسی نامعلوم مقام سے بات کر تے ہوئے انھیںکہا تھاکہ چونکہ بینظیر کا قتل ایک سیاسی معاملہ ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس میں حکومت یا اس کی ایجنسیاں ملوث ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھٹو خاندان کے ساتھ کافی عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ، پہلے اس خاندان کے تین افراد ذولفقار علی بھٹو، شاہ نواز بھٹواور مرتضی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب بے نظیر کو ہلاک کیا گیا تو یہ وہی پرانی دوشمنی کا تسلسل ہے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلیے کیا گیا ہے۔ طالبان تحریک نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک کےلیے ایک بڑا سانحہ قرار دیا تھا اور لوگوں سے اپیل کی کہ مصبیت کی اس گھڑی میں صبر وتحمل سے کام لیں۔ اس سے پہلے مشرف حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کی خودکش حملے میں ہلاکت کے ذمہ دار قبائلی علاقوں میں طالبان کے کمانڈر بیت اللہ محسود ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ حملے کے لیے بیت اللہ محسود ذمہ دار تھے۔تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کےمطابق مشرف حکومت قبائلیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور انہیں کچلنے کے لیے اس قسم کے الزامات لگا رہی ہے۔ پہلے بھی حکومت نے یہ الزام لگایا کہ اسامہ بن لادن باجوڑ میں ہیں اور اب یہ الزام عائد کیا گیا ہے تو ان سب باتوں کا مقصد قبائلیوں کو بدنام کرنا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ اقوام متحدہ نے پاکستان کی درخواست پر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ سابق وزیر اعظم کی ہلاکت کے بعد کی جانے والی پہلی پریس کانفرنس میں اس وقت کی حکومت کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیا تھا۔ تاہم حکومت میں آنے کے بعد اس مطالبے کی قرارداد کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں منظور کیا گیا۔ ’اس تحقیق کی درخواست دینے کے بعد اس کمیشن کے مینڈیٹ اور حدود کے بارے میں پاکستان نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل فیصلہ کرے گی۔ اور اس درخواست کو لے کر کل کو پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جن کو اس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ سے تحقیق کی درخواست کے بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا گیا کہ نہ تو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اور نہ ہی پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان اس بات کے حق میں تھے کہ اقوام متحدہ سے تحقیقات کرائی جائیں کیونکہ پاکستان کی حساس تنصیبات تک کی رسائی مانگی جا سکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سے تحقیقات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین و قانون دانوں کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی درخواست دینے کے بعد اس کمیشن کے مینڈیٹ اور حدود کے بارے میں پاکستان نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل فیصلہ کرے گی۔ اور اس درخواست کو لے کر کل کو پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جن کو اس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جب حکومت یہ کہے گی کہ القائدہ کا ہاتھ ہے یا طالبان کا لیکن اس کا تعین اقوام متحدہ کا کمیشن کرے گا تو کیا وہ ان علاقوں میں نہیں جائیں گے اور کیا وہ سکیورٹی اہلکاروں کو انٹرویو نہیں کریں گے جو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ملوث ہیں۔بعض کا کہنا تھا کہ پاکستان حکومت سکیورٹی کونسل کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ ان کے قائم کردہ کمیشن کو کیا اختیارات ہوں گے اور کیا نہیں۔ ’ایک بار درخواست دے دی اور اس پر سکیورٹی کونسل کمیشن تشکیل دے دیتا ہے تو پاکستان کا کردار اس کمیشن کے مینڈیٹ کے بارے میں ختم ہو جائے گا۔ اس کمیشن کا مینڈیٹ سکیورٹی کونسل وضح کرے گی اور اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اگر ابتدائی مرحلے میں اقوام متحدہ مینڈیٹ محدود ہی رکھے لیکن جب چھ یا ایک سال بعد اس کمیشن کے کام میں توسیع کی جاتی اور اس وقت سکیورٹی کونسل اس کے مینڈیٹ کو وسیع کر دیتی تو پاکستان کیا کرتا۔ وزیر قانون فاروق نائیک نے بائیس مئی کو ایک پریس بریفنگ میں خود کہا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس وسائل نہیں کہ اتنی بڑی تحقیق کر سکیں، اس بات کو لے کر کل کو اقوام متحدہ کا کوئی رکن ملک کہہ سکتا ہے کہ چونکہ پاکستان خود ہی تسلیم کر چکا ہے کہ اس کی تحقیقاتی اور سکیورٹی فورسز کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اس لیے پاکستان میں اقوام متحدہ کی فورس پاکستان بھیجنی چاہیے جو کہ اس ملک میں قائم دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی تفتیش کر سکے۔اس وقت پاکستان دفاع میں کیا کہے گا؟ پاکستانی حکومت نے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے نام پر انسانی حقوق ایوارڈ کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق یہ ایوارڈ ہر سال انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دو تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین افراد کو دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے نام پر انسانی حقوق فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں ابتدائی طور ایک کروڑ روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔اس بات کا اعلان وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وزارت انسانی حقوق کی طرف سے مرحومہ بے نظیر بھٹو کو اقوام متحدہ کا ایوارڈ ملنے کے موقع پر ایک منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ ہر سال 27 دسمبر کو بےنظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر مختلف افراد کو انسانی حقوق ایوارڈ دیئے جائیں گے اور یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے افراد اور تنظیموں کے نام یوم آزادی یعنی 14 اگست کو بتائے جائیں گے۔ اس فنڈز سے ایسے افراد کی داد رسی کی جائے گی جن کے حقوق پامال کیے گئے ہوں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت جلد ہی انسانی حقوق کے بارے میں ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا۔ یہ کمیشن اپنی کارروائی کرنے میں مکمل آزاد ہوگا اور حکومت اس ادارے کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنے منشور کی روشنی میں انسانی حقوق کی وزارت قائم کی ہے۔ صوبائی اور ضلع کے سطح پر بھی انسانی حقوق کے بارے میں مانیٹرنگ کمیٹیاں بھی قائم کی جا رہی ہیں تاکہ ان علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جا سکے۔ مرحومہ بےنظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے ملنے والے ایوارڈ سے ہمارے عزم کو تقویت ملی ہے۔ بینظیر بھٹو چند عالمی رہنماوں میں سے ہے جنہیں یہ اعزاز ملا ہے ۔پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ان کی والدہ کے قتل کے بعد وہ اور ان کے والد آصف علی زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کی ?قیادت نہ سنبھالتے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا۔بلاول بھٹو زرداری نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں جنرل اسبملی کی طرف سے بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ دیے جانیوالے انسانی حقوق کا اعزاز وصول کرنے کے بعد ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہو ئے کہی۔ اقوام متحدہ میں یہ بریفنگ بلاول بھٹو سمیت انسانی حقوق کے اعزازات لینے والوں کیطرف سے منعقد کی گئی تھی جن میں امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک ، ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کییئنتھ روتھ بھی شریک تھے۔ اس سے قبل انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے کی ساٹھویں سالگرہ اور نسل کشی کیخلاف عالمی کنونشن کے دن یعنی دس دسبمر کو اقوام متحدہ میں ایک تقریب میں بلاول بھٹو زرداری نے بینظیر بھٹو کو جنرل اسبملی کی طرف سے دیا جانے والا اعزاز وصول کیا۔ یہ اعزاز بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ انہیں ان کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات اور اداروں کو یہ اعزاز ہر پانچویں سال دیا جاتا ہے اور اب تک یہ اعزاز امریکہ میں شہری حقوق کے بڑے رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونئیر، سابق امریکی صدر جمی کارٹر، نیلسن منڈیلا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ میں پریس بریفنگ میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک صفحہ اپنی والدہ کی خود نوشت سوانح عمری سے پڑہ کر سنایا اور کئی سوالات کے جوابات دیے۔ یورپ، امریکہ، مشرق وسطی اور دنیا کے دوسرے خطوں میں شاید ہی کوئی بڑا اخبار ہو جس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر کو شہ سرخی میں شائع نہ کیا ہو۔جتنی بڑی یہ خبر ہے اتنی ہی زیادہ اسے کوریج دی گئی ۔ بے نظیر کے قتل کی تفصیلی رپورٹ، تعزیتی نوٹ، ان کی موت سے پاکستان، خطے اور عالمی سیاست میں پیدا ہونے والا خلاء، پیپلزپارٹی کی قیادت اب کون سنبھالے گا، اداریے، تبصرے، تصاویر، سب ہی کچھ اخبارات نے شائع کیا ہے۔ سب ہی اخبارات نے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔برطانوی اخبار گارڈین نے پہلے سات صفحات اسی خبر کے لیے مختص کئے۔ پہلے صفحہ پر خبر کو اس تصویر کے ساتھ شائع کیاگیا ہے جس میں بے نظیر بھٹو اپنی کار کی چھت سے نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہی ہیں۔ اخبار نے ان کے مشتبہ قاتلوں کے بارے میں تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ کئی گروہ بے نظیر کی جان کے درپے ہوسکتے ہیں مگر اصل قاتلوں کا پتہ شاید ہی چل سکے۔ اسی طرح کے شک و شبہ کا اظہار دوسرے اخباروں نے بھی کیا ۔ دی انڈیپنڈنٹ نے اپنے پہلے صفحے پر صرف ایک تصویر شائع کی جس میں پیپلزپارٹی کے غمزدہ کارکن اپنی قائد کے تابوت کو اٹھائے ہوئے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ سرخی ہے، پاکستان کے لیے اب کیا؟ اخبار لکھتا ہے کہ ایک موہوم سے امید تھی مگر اب وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ انڈیپنڈنٹ میں شائع ایک مضمون کی سرخی ہے۔۔۔ پریشان واشنگٹن ایک بار پھر ناقابل اعتبار مشرف کی گود میں آگیا۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی کا حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسی طرح دی ٹائمز لکھتا ہے کہ بے نظیر کے قتل نے پاکستان کو بحران اور افراتفری کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون نے تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ بے نظیر کی ہلاکت سے صدر مشرف کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بے نظیر کے قتل سے بش انتظامیہ کی وہ کوششیں خاک میں مل گئی ہیں جو وہ پاکستان کے منقسم سیاسی دھڑوں کو یکجا کرنے کے لیے کر رہی تھی۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس سانحے سے صدر بش کی دو کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایک مسلم دنیا میں جمہوریت کا فروغ اور مسلم شدت پسندوں کی بیخ کنی۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ پاکستان کے جمہوریت کی راہ پر آنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں جو امریکہ کے لیے پہلے سے زیادہ فکر کی بات ہے۔ یواے ای کے اخبار خلیج ٹائمز نے اپنے ادارے میں لکھا ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعد نہ صرف پاکستان میں افراتفری بڑھ گئی ہے بلکہ اس سے نفرت کی ایک نئی لہر کے جنم لینے کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور قومی اور بین الاقوامی سیاست، سلامتی اور جمہوریت کا توازن بالکل بگڑ گیا ہے۔ کئی اخبارات نے بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے بارے میں ان لوگوں کے مضامین بھی شائع کیے جو کسی نہ کسی حیثیت میں بے نظیر سے ملے تھے۔ بہت سے اخبارات نے اپنے انٹر نیٹ شماروں میں بے نظیر کے قتل اور زندگی کے بارے میں آڈیو نشر جبکہ ویڈیو بھی ریلیز کیں۔پاکستان میں مختلف مکاتبِ فکر کے تمام اخبارات نے بھی گزشتہ سال اپنی اٹھائیس دسمبر کی اشاعت میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ۔اردو کے سرکردہ قومی اخبارات نے بینظیر بھٹو کو ’شہید‘ قرار دیتے ہوئے ان کی زندگی اور سیاسی کیریئر پر خصوصی ایڈیشن شائع کیے ۔ روزنامہ جنگ نے بینظیر بھٹو کی سیاسی اور خاندانی زندگی کی تصاویر پر مشتمل چار صفحات کا خصوصی شمارہ شائع کیا ۔ اخبار لکھتا ہے ’بھٹو خاندان کا ایک اور فرد سیاست کی جنگ میں زندگی کی بازی ہار گیا۔‘ روزنامہ خبریں اخبار کی شہ سرخی ہے ’دخترِ مشرق بینظیر بھٹو شہید‘ جبکہ اخبار نوائے وقت لکھتا ہے ’لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خودکش حملہ اور فائرنگ، بینظیر شہید‘۔نوائے وقت نے اپنے اداریے میں بینظیر بھٹو کے قتل کو ایک قومی سانحہ قرار دیا ہے اور ایک خصوصی سپلیمنٹ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ’روشن منزلوں کی راہیں موت کی تاریکی میں کھو گئیں، بینظیر بھٹو کو بھی بارود نے نگل لیا۔‘ انگریزی روزنامہ ڈان کی شہ سرخی ہے ’گڑھی خدا بخش کو ایک اور بھٹو کا انتظار‘۔ خلاف معمول صفحہ اوّل پر شائع کیے گئے اپنے اداریے میں ڈان لکھتا ہے کہ بینظیر بھٹو کی ہلاکت سے پاکستان اپنی ایک بہترین بیٹی سے محروم ہوگیا ہے اور بینظیر کے بغیر پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اب کبھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ روشن منزلوں کی راہیں موت کی تاریکی میں کھو گئیں، بینظیر بھٹو کو بھی بارود نے نگل لیا۔نوائے وقت ۔اردو روزنامہ ایکسپریس کی شہ سرخی ہے ’بینظیر تیس جانثاروں سمیت شہید، ملک سوگ کے اندھیرے میں ڈوب گیا‘۔انگریزی اخبار دی نیوز نے صفحہ اوّل پر بینظیر بھٹو کی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ تصویر شائع کی ہے جبکہ اخبار ڈیلی ٹائمز نے اپنے صفحہ اّول کو سیاہ رنگ میں ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر کے عکس میں شائع کیا ہے اور اس کی شہ سرخی ہے ’دخترِ مشرق قتل‘۔ اخبار نے بینظیر بھٹو کی تصویر بھی شائع کی تصویر کے نیچے اخبار نے بینظیر بھٹو کے خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ تعزیتی پیغام شائع کیا ہے۔ اخبارات نے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کے آخری خطاب کے اقتباسات شائع کیے اور قتل کے بعد ملک گیر مظاہروں اور جلاو گھیراو کی تفصیلات تصاویر سمیت شائع کیں۔کئی ایک اخبارات کے مطابق دم توڑنے سے پہلے بینظیر بھٹو کے منہ سے نکلنے والا آخری لفظ ’اللہ‘ تھا۔وہ چھوٹی سی بچی جس نے المرتضی لاڑکانہ میں اپنے باپ کے ہاتھوں بندوق سے فائر کرکے درخت پر سے ایک طوطے کو مارنے پر دو دن تک کھانا نہیں کھایا تھا وہ قتل ہوگئی۔’پنکی، بے بی، سر، بی بی، محترمہ، وزیر اعظم، بینظیر آخرکار اس خدشے کے سچ ہونے کا نشانہ بنی جس کا اظہار وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک کرتی رہی تھی یعنی کہ مشرف حکومت کی مجرمانہ غفلت اس کے شریک جرم ہوکر اپنے قتل ہوجانے کا وہی خدشے۔اپنے قتل سے صرف چند روز قبل اپنی ایک ای میل میں انہوں نے امریکہ میں اپنے دوست مارک سیگل کو لکھا: ’اگر میں قتل ہوجاوں تو اس کا ذمہ دار صدر پرویز مشرف کو سمجھا جائے کہ میرے مانگنے پر بھی انہوں نے مطلوبہ سیکیورٹی آلات مہیا نہیں کیے‘ یہ بات مارک سیگل سی این این پر کہہ رہے تھے۔ اسے القائدہ یا طالبان نے مارا یا پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے لیکن راولپنڈی سے ہمیشہ مقبول لیڈروں کی لاشیں پاکستان کے عوام کو بھیجی گئی ہیں۔وہ ایسے قتل ہوئی ہیں جسے پاکستان میں پاپولر بھٹو قتل ہوتے ہیں۔ جیسے انڈیا میں اندرا گاندھی قتل ہوئیں۔ جیسے امریکہ میں کینیڈی اور یونانی المیائی کرداروں کا انجام۔ میں بینظیر سر شاہنواز بھٹو کی اس بیٹی کا نام تھا جو وہ جوانی میں ہی جونا گڑھ میں بیماری میں فوت ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بڑی بیٹی کا نام اپنی اس چہیتی بہن کے نام پر رکھا تھا۔ سب سے پہلے بینظیر بھٹو اسوقت عام لوگوں کی نظر میں آئی تھیں جب وہ اپنے والد وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ مذاکرات کو جانیوالے وفد میں شامل تھیں۔ اگر کچھ شاعر آنیوالے دنوں کو دیکھ سکتے ہیں تو رئیس امروہی نے بینظیر بھٹو کا مقام تاریخ میں جولائی انیس سو باہہتر میں دیکھ لیا تھا جب مقتول شاعر رئیس امروہی نے قطعہ لکھا تھا: 'شملہ مذاکرات تھے تاریخ گیر بھیپر عزم اور عظیم بھی لیکن حقیر بھیآراستہ تھی محفل صدر و وزیر بھیتاریخ کی نگاہ میں تھی بینظیر بھی-' ایک بے فکر لیکن سنجیدہ اور بلیوں سے پیار کرنے والی بینظیر بھٹو کی زندگی کے اسٹیشن پر دکھوں اور حادثوں سے بھری ٹرین اسوقت داخل ہوتی ہے جب وہ جولائی انیس سو ستتر کی گرمیوں کی چھٹیوں پر تھیں اور انکے والد ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ ان کے ہی ترقی دیے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاءالحق نے الٹ دیا۔ اس دن سے لےکر وہ ’بقول شحضے‘ ریل کی پٹریوں پر ہاتھ پاوں باندہ کر پھینکی جانیوالی ہیروئین تھی اور ہر وقت کا صدر اور چیف آف دی آرمی اسٹاف ایک ولن! ضیاءالحق سے جنرل پرویز مشرف تک آخری دم تک یہی کہانی رہی۔ شاہ لطیف بھٹائی نے کہا تھا ’سامائی تاں سکھ ویا‘ (وہ جب جوان ہوئی تو اسکے سکھ چلے گئے) اور یہی کچھ بینظیر بھٹو کےساتھ ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی ضیاءحکومت کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر قتل کے مقدمے کے خلاف سندھ میں ان کے احتجاجی دورے کے دوران ہالا کے قریب اسے گرفتار کرکے نظربند کردیا گا۔ پی پی پی کے جیالے تب اسے ’بے بی‘ کہتے۔ پہلے وہ ستر کلفٹن اور پھر سکھرجیل میں نظربند کی گئیں۔ سکھر جیل میں بھی انہیں قتل کرنےکی سازش کی گئی۔ جب سکھر جیل کے قیدیوں نے دیواروں پر چڑھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کی۔ستر کلفٹن کی دیواریں تھیں اور ان میں تنہا نظربند ۔انیس سو اناسی میں ضیاءالحق نے انہیں نظربندی سے رہا کیا اور انہوں نے بذریعہ خیبر میل کراچی سے لاڑکانہ کا سفر کیا جب تمام راستے ہزاروں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے چلتی ریل کی پٹریوں پر لیٹ گئے تھے۔ ہر طرف ماتم کرتے انسانی سر اور ہاتھ تھے۔ کالے سندھی اجرک اور کالے چشمے میں ریل کے ڈبے سے ہاتھ ہلاتی تقریر کرتی بینظیر۔ لاڑکانہ پہنچتے ہی فوج نے اسے پھرگرفتار کرلیا۔ جلاوطنی میں لندن جاتی ہوئی بینظیر اور عوام سے پریس کے ذریعے یہ وعدہ کہ میدان میں ملیں گے۔ اپنے جواں سال بھائی شاہنواز کی جنوبی فرانس سے لاش لیکر وطن لوٹتی ہوئی ٹوٹی پھوٹی بینظیر۔ اسے لاڑکانہ میں لاکھوں عوام کی طرف سے پذیرائی حاصل ہوئی۔ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے گاوں کے قریب بھی اس کی پیجارو جیپ پر حملہ کرکے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئی تھیں کہ دو انتظامی افسران نے انہیں پہلے سے ہی اس سازش سے آگاہ کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے روڈ کے ذریعے اپنا سفر منسوخ کردیا لیکن اپنی جیپ کو جانے دیا تھا جہاں اسی جگہ ان کی جیپ پر حملہ ہوا تھا۔ پاکستانی قوم کی اس لیڈر کو پاکستان کے تمام کتوں نے گھیر گھار کر جلاوطنی سے واپس لاکر چیر پھاڑ دیا۔ جنرل مشرف طاقتور اور پاکستان کے عوام لاورث تھے کہ انہیں ہیلی کاپٹروں میں اپنی محبوب لیڈر کی لاش بھیح دی گئی ۔ کیا اسے ان جرنیلوں اور ملاوں نے ملکر مارا جو کہتے ہیں تیس روز کے بعد عورت کے بیٹھنے سے کرسی نجس ہوجاتی ہے؟ یا ان عالمی طاقتوں نے مارا جن کی ملک دشمن سازشوں اور نا پا ک عزئم کی تکمیل میں بے نظیر بھٹو ایک رکاوٹ تھیں۔بے نظیر بھٹو کی شہادت ملک دشمنوں کی فتح تھی۔ بے نظیر کے جانشین کئی ایک پیدا ہو جائیں لیکن ایک وژن اور ایک لیڈر بننے کیلئے ملک اور اس کے عوام کی بہتری کیلئے انتھک جدو جہد، اس راہ میں حا ئل رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقا بلہ کر نے وا لے اوصاف کے علاوہ خدا تعالی کی رحمت شامل حال جب تک نہ ہو۔لیڈر شپ نا مکمل رہتی ہے۔پا کستان کی مو جودہ صورتحال اور عنقریب مستقبل میں پاکستان کے عوام کو محسوس ہو گا کہ بے نظیر کے بعد پاکستان سیاسی طور پر یتیم ہو چکا ہے۔ اگر بے نظیر کی زند گی وفا کر تی تو پاکستان کی تا ر یخ مختلف ہو تی۔اے پی ایس

Sunday, November 9, 2008

نقش ثا نی" مجموعہ کلام کے شاعر۔۔۔۔۔ اطہر قیوم راجہ شاعر امروز فردا ۔تحریر: چو دھری احسن پریمی






اطہر قیوم راجہ کا تعلق ایک ایسے پہاڑی علاقے سے ہے جسے قدرت نے تمام تر حسن تو عطا کیا ہے مگر دنیاوی دولت سے محروم کر رکھا ہے۔یہاں لوگوں کو اللہ تعالی نے شاید فطرت کی نگہبانی کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔بقول اقبال
فطرت کے مقا صد کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کو ہستانی
اطہر قیوم راجہ کا تعلق اسی سلسلہ کوہستان کہوٹہ سے ہے اطہر قیوم راجہ راولپنڈی کی قدیم درسگاہ گورنمنٹ کالج اصغر مال کے فارغ التحصیل ہیں۔راجہ قیوم نے اسی درسگاہ سے بی ایس سیکیا۔اور بعد ازاں انگلش اور اردو میں ایم اے کیا کچھ عرصہ بعد انھوں نے اقبالیات میں ایم فل کیا۔ راجہ اطہر قیوم جو اس وقت ڈائریکٹر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں۔اس حوالےسے مر تضی بر لاس کا شعر یا د آ جا تا ہے
شاعروں میں افسر ہوں افسروں میں شاعر ہوں
اس حوالے سے میرے اپنے ایک بزرگ خوشی محمد نا ظر مر حوم جو ہری سنگھ کے دور حکومت میں ان کی کیبنٹ میں واحد مسلمان وزیر تعلیم تھے جو بعد ازاں کشمیرکے پہلے گور نر جنرل بھیتعینات رہے۔ ان کی قبر میرے آبائی علاقہ گجرات کے نواحی گا ئوں ہر یہ والا میں ہے۔ان کا بھی اہل قلم میں شمار ہوتا ہے ان کی ایک نظم "جوگی" جو کہ بعد ازاں ہمارے اردو کے نصاب میں بھی پڑھائی جا تی رہی۔ راجہ صاحب کا چو نکہ پہا ڑی علاقہ سے تعلق ہے خوشی محمد نا ظر کی نظم جو گی کا ایک مصر عہ ہے
جوگی اتر پہا ڑوں آ یا
جوگی،فقیر، قلندر،درویش اگر چہ نام مختلف ہیں لیکن تمام کے او صاف یکساں ہیں۔جس طرح اطہر قیوم راجہ کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ وہ ایک افسر ہیںاور بیورو کر یسی کا حصہ ہیں اسی طرح انھیں یہ بھی معلوم نہیںکہ ان کا فقر میں کیا بلند مر تبہ ہے۔بہر حال یہ ان کا کام نہیں کیو نکہ وہ آنکھ کسی کے پاس نہیں جو اپنے آپ کو دیکھ سکے۔ اللہ تعالی نے درویش کے بلند مر تبہ کا پیما نہ اس کی عا جزی میں رکھا ہے اور وہ عا جزی جسے خدا تعالی پسند فرما تا ہے وہ عاجزی اطہر قیوم راجہ میں قدرت کی طرف سے کو ٹ کو ٹ کر بھری ہو ئی ہے۔اطہر قیوم راجہ کا تازہ کلام نقش ثانی کی اشاعت سے قبل ان کا مجموعہ کلام نقش امروز جنوری1996 میں منظر عام آیا تھا جو چند ماہ قبل کے عرصے میں کسی تشہیری مہم کے بغیر ہی ختم ہوگیا تھا اور اس وقت اس کتاب کا ایک نسخہ بھی ما رکیٹ میں دستیات نہیں جبکہ ان کا دوسرا اور حالیہ مجموعہ کلام نقش ثانی پہلے سے بھی ز یا دہ مقبول ہوا ہے۔اور اس کی پذیرائی بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہے۔ کیونکہ اب دنیا میں اس فکری اور تہذیبی نظریے کے ساتھ وابستگی کا احیا ءہو رہا ہے۔جو مذکورہ مجموعے کے شاعر کے جذبے اور فکرکا محور ہے۔اس فکر اور جذبے کا اظہار شاعرکے ایک ایک شعر میں جس حسن اور سلوک کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہر پڑھنے والے کو اپنے دل کی د ھڑکنوں میں سرایت کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔شاعر کی ذہنی تر بیت،جدو جہد اورجہت کو سمجھنے کیلئے اس کے ما حول کا تذکرہ ضروری ہے۔ کیونکہ فن اور فکرکے سوتوں ہی سے اپنا آب و رنگ حاصل کرتے ہیں۔اطہر قیوم راجہ کا جس علاقے سے تعلق ہے اس کے گردو پیش میں دور دور تک مناظر فطرت کی رنگا رنگ دل آویزیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ جو پہا ڑوں، آبشاروں، گھنی شاخسا روںمیں ڈوب کر گزرتی ہوئی د ھندلی پگڈ نڈیوں،تختہ بہ تختہ لہلاتے ہوئے پھلوں کے متعلق با غات اور حد نظر تک سبزا و گل، ان سب پر کیف منا ظر کا اثر اطہر قیوم راجہ کی شا عری میں بدرجہ اتم مو جود ہے۔ جس سے اس کتاب کے قا رئین لطف اندوز ہو رہے ہیں۔اطہر قیوم راجہ کی شخصیت اور فن کے لحاظ سے سادہ دل،حلیم الطبع، فقیر منش، اور حساس شخص ہیں۔ جن کا فقیری اثا ثہ خواب اور خواہش کے سوا کچھ اور نہیں اور یہ ان کی شا عری کی اساس ہے۔لہکن گمان غالب ہے کہ یہ راز ابھی تک اطہر قیوم راجہ پر بھی نہیں کھلا جبکہ یہ چو نکا دینے والی بات ان کی شا عری میں جا بجا دکھا ئی دیتی ہے۔ محکمہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر فا ئز ہیں۔ محکمہ کے ہوم پبلسٹی کا شعبہ ان کے قبضے میں ہے۔ان کے فرائض منصبی میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کر کے دکھا نا سب سے اہم کام ہے مگر را جہ صا حب کیلئے یہی سب سے مشکل کام ہے چنا نچہ ان کے اعلی حکام اکثر ان سے نا راض رہتے ہیں۔ اصل میں ان کے محکمے کی بھی کچھ مجبو ریاں ہیں۔ان کا پا لا بھی کچھ ایسے لو گوں سے رہتا ہے جن کے با رے میں شو کت تھا نوی نے کہا تھا ۔
لو گو مجھے سلام کرو میں وزیر ہوں
سلامی کا یہ مرض ہمارے ہاں بہت پرانا ہے آج تک اس کی کو ئی مجرب دوا ایجاد نہیں ہوسکی۔ بلکہ اب تو یہ مرض اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ بقول شاعر


مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی
اپنے اس بیان کی تصدیق میں را جہ صا حب کے مجموعہ میں شامل ان کا ایک قطعے سے کروں گا ۔ جس کا عنوان ہے۔انفارمیشن گروپ خبر چھا پنا تو کو ئی فن نہیں ہے حقیقت میں فن ہے خبر کو چھپانافسانوں کی ہم تو بنا دینگے خبریںبنا ئیں گے پھر ہرخبر کا فسانہراجہ صاحب فسا نہ عجائب کی طرز پر کتاب تو لکھ سکتے ہیں مگر خبر کا افسانہ بنا نا ان کے بس کا کام نہیں۔فقیر منش،سادہ مزاج اطہر قیوم راجہ کی کیا خبر لیں گے خبر لینا شاید انہی کے محکمے کی ایجاد ہے مگر وہ خبر دیتے ضرور ہیں لیتے نہیں۔سول سروس میں شمولیت کے بعد ٹریننگ کے دوران مسا ئل کے ساتھ ساتھ راجہ صا حب کی مشق شخص بد ستور جاری رہی۔سول سروس اکیڈمی میں قیام کے دوران انھوں نے زیر تر بیت افسران جو مختلف گروپوں سے تعلق رکھتے تھے کو بھی تختہ مشق بنا یا ان دنوں مشہور ادا کارہ انجمن کی ایک انکم ٹیکس افسر سے شادی کا بڑا چر چا تھا۔یہ افسر را جہ صا حب کا بیج میٹ تھا۔ ملا حظہ ہو
ا نکم ٹیکس
ٹیکسوں کا بو جھ کھا گیا فرخ کی صحت کو
پر ٹیکس تر مذی کو بڑے راس آگئے
اتنی سنائیں تو نے حکایات انجمن
بھو لے سے ہم کبھی جو ترے پاس آگئے

پوسٹل سروس کے زیر تر بیت افسران سے را جہ صا حب کچھ یوں مخا طب ہیں
۔خط زندگی میں ایک ملا اپنے وقت پر
گو مد توں سے آنکھ ہے رہ پر لگی ہوئی
شہناز و کوثر و شہ عرفاں کے سا تھ سا تھ
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہو ئی

اطہر قیوم راجہ کا شعف شعر بہت داد طلب ہے۔کیونکہ تخلیق شعر میں اطہر قیوم راجہ جہاں ذات کے خلوت کدے کی غواصی کرتے ہیں وہاں وہ معروض کی صدا قتوں اور معاشرے کی رویوں سے برابر راابطہ رکھتے ہیں۔ان کے ہاں ایک درد مند شا عر اور صا حب نظر شاعر با ہم دگر متحد ہو کر سا منے آتے ہیں۔ ان کے مطا بق کلا سیکیت اور روایت اطہر قیوم راجہ کے مزاج سے بھی مر بو ط ہے۔مرزا غالب اور انگریزی کے شا عر جان ڈن ان کے پسندیدہ شا عر ہیں۔ڈن کی شاعری کا منطوم تر جمہ ہمیشہ سے ان کے خوابوں کا حصہ رہا ہے۔ان کا یہ خواب اب حقیقت کا روپ د ھار چکا ہے۔اور انہوں نےڈن کی کئی نظموں کاترجمہ بھی کر لیا ہے اگرچہ انہوں نے لفظی تر جمہ سے ماورا ہو نے کی کوشش کی ہے تاہم ڈن کی نظموں کو انہوں نے اردو کا خوبصورت لبادہ پہنا یا ہے۔جان ڈن کی ترجمہ شدہ چند نظموں کے اشعارملا حظہ ہوں
۔آزاد نظم
لو ٹا دو مجھ کو وہ میری آنکھیں
مجھے لو ٹا دوجو کتنی مدت سے ترے چرنوں میں رو رہی ہیں
تیری معیت میں میری آنکھوں نے
سیکھ لی ہے
وہی تصنع وہی بنا وٹ
وہ ساری جھوٹی تری لگاوٹ
کہ اب حقیقت کو دیکھنے کی
ان میں طاقت نہیں رہی ہے
سو ان کو تم اپنے پاس رکھ لو
مجھ کو لو ٹا دو پھر سے میرا
وہ سیدھا سادا
وہ بھو لا بھا لا
وہ دل ہمارا
کبھی بھی جس پہ سو چوں
کا رنگ غالب نہ آسکا تھا

"نقش ثانی" میں اطہر قیوم کے ذہن رسائے مشرق اور مغرب دونوں کا بھر پور سفر کیا ہے۔اور اس سفرکیا ہے اور اس سفرنامے کو نادر کو راجہ صاحب نے بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ مثلاجان ڈن کی ایک اور نظم پیغام
تم اس سے پہلے ہی ختم کردو
اس سے پہلے کہ سو گوار اختتامی بوسہ
ہماری روحوں کو چاٹ لے اور
ہمارے جسموں کو پھونک کو ڈالے
ختم کردوتم اپنے سائے کو اس طرف اور میں اپنے
سائے کو اس طرف
کچھ ایسے پھیریں
اور اس طرح اپنی زندگی کےحسین تریں دن کو
ایک اندھیری مہیب شب کے حوالے کر دیں
ہمیں محبت کے راستے میں
کوئی اجازت کہاں طلب تھی
کہاں طلب ہے وہ موت ہم کو
بچھڑ کے جا نے کو کیسے کہہ
ہم ایسی ارزاں اجل کو پائیں
چلے بھی جائو
میں اس سے آسان موت پائوں
مگر اگر یہ لفظ مہیب تم سے
تمہاری جان پہلے لے چکا ہے
تو ایک قا تل کی منصفانہ سزا یہی ہے
کہ موت کو وہ گلے لگائے
مگر مجھے دیر ہو چکی ہے
قضا کو اپنے گلے لگانے میں
کہ میں تو دو بارہ مر چکا ہوں

اپنے بارے میں اطہر قیوم راجہ کا ایک قطعہ ملا حظہ ہو
۔میں شاعر مد ہوش ہوں دیوانہ نہیں ہوں
حا لات کی رفتار سے بیگانہ نہیں ہوں
پہچان مرے ظرف کی نسبت سے ہے میری
جو بھر کے چھلک اٹھے وہ پیمانہ نہیں ہوں
قلندر صفت اطہر قیوم راجہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ دوستوں کے دوست تو ہیں ہی مگر زندگی میں انہیں جس کسی نے دکھ دیا یا اس کے لئے بھی ان کے دل میں کبھی بد خواہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے حق میں دعا ہی کی۔
جس نے مجھے تباہ کیا اس کی خیر
ہو
وا ماندہ کیا اس کی خیر ہو
ہم سے شکست عہدہ وفا کس طرح کیا
غیروں سے کیا نباہ کہیں اس کی خیر ہو
میری وفا کو دیتا رہا کس قدر فری
ب
در ماندہ راہ راہ کیا اس کی خیر ہو


شعر کو قوت بیان ندرت اظہار اور خصوصا اظہار کے ذاتی قرینے اور شاعر کے اپنے لہجے کی حاجت اور محاورہ کی درستی کے ساتھ ساتھ زبان کے خلاقانہ استعمال سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ شاعر اپنے حوالے سےمزید تازہ لب و لہجہ تشکیل دے سکے۔ اطہر قیوم راجہ کے مجموعہ کلام کے مطالعہ کے بعد کے بعد یہ واضح ہے کہ شاعری کے جدید رحجانات سے وہ غافل نہیں ہیں۔ان کی شاعری اردو ادب میں حسین اضافہ ہے
۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

کا لا دھن، کا لا قانون اور کا لا راج؟ ۔تحریر:نگہت نسیم سڈنی




کچھ ھی دن پہلے ایک سیاہ فام نے سپر پاور کی ساری پاور اپنے نام کر لی اور آتے ھی نامی گرامی کالے لوگوں کو اپنے ھمراہ بھی کر لیا ۔ اور یوں کئی ملکوں میں اندھیری راتوں کی سویر ھونے سے پہلے ان کے مقدر اور بھی سیاہ لگنے لگے ۔ سائل جتنے بھی ھوں ان کاحل ضررو ھوا کرتا ھے بس ھماری دیدہ وری کی پہنچ مہیں نہیں آتا یا پھر ھم ھی دوکوس منزلوں کو سو کوس دور سمجھ لیتے ھیں ۔ اور پھر ھماری ھی سوچ ھماری سیاہ راتوں کو اور بھی لمبی اور تاریک کر دیتی ھے ۔ تاریخ یہ بھی شہادت دیتی ھے کہ جن ملکوں کے لوگ جلد بیدار نہیں ھوتے ان پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ھیں جو اللہ بزرگ و برتر سے بھی نہیں ڈرتے ۔ اور پھر یہی تاریخ یہ بھی بتاتی ھے کہ ان ملکوں کی تاریخ بھی زندہ نہیں رھتی۔ آج پورے میڈیا میں باتیں ھورھی ھیں کہ کالیا خنانی گروپ کاچیف پکڑا گیا اور یوں اسے وہ ذلت اٹھانی پڑ رھی ھے جو اس نے کبھی کئی لوگوں کی قسمت کی ھو گی اور کئی لوگوں کی قسمت بنائی بھی ھو گی ۔ اور پھر یہی اعمال انسان کو دنیا ھی میں جنت اور جہنم کا سفر کرا دیتے ہیں ۔۔ شاید اسی کو مکافاتٍ عمل بھی کہتے ھیں ۔دوستو ! ایک بات بڑی عجیب ھے کہ ھم رنگ و نسل کی بات میں تعصب کی بات کرجاتے ھیں ۔ جیسا کہ گورے کالوں کے ساتھ کرتے آئے ھیں ۔ لیکن ھم میں سے کتنے ایسے لوگ ھیں جو کالے نہیں ھیں لیکن کالیا خنانی کے چیف جیسے ھیں ۔ جو ھر پروفیشن میں اپناکالا دھندہ کرتے ھیں ۔لیکن انہیں کوئی بھی رنگے ھاتھوں نہیں پکڑ پاتا ۔ ابھی اور بھی کئی کالیئے ھیں جنہیں آپ اور میں بہت اچھی طرح سے جانتے ھیں ۔ جیسے محکمہ صحت کی کڑی شرائط کے باوجود دواوں کی چوری کرنے والوں اور جعلی دوایئاں بنانے والوں کو کسی نے کبھی پکڑا ھے ۔کتنے انجنیئرز ھیں ؟ ۔جنہوں نے اپنے پراجیکٹز کو ایمانداری سے نبھایا ھو یا ان کی تعمیر کی ھوئی عمارتیں سالہا سال زندہ رھی ھوں ۔ اور جن کی بنائی ھوئی سڑکوں کی بد حالی کا نوحہ کسی دور میں نہ پڑھا گیا ھو ۔اب بات کرتے ھیں انصاف کی تو کیا یہاں کالا دھندا نہیں ھو رھا ؟ کیا کسی ملک کو یہ جائز ھے کہ ان کے وکیلوں کی آپس کی رنجش اور نا انصافی کی سزا معصوم لوگوں کو ملے اور وہ ایسے کہ بغیر مقدمے کے کئی مہینوں تک جیلوں میں قید رھیں ۔ اب بات کرتے ھیں قلم بیچنے والوں کی ، جس پر مجھے اپنے بابا (جناب صفدر ھمدانی ) کی بات بہت یاد آرھی ھے جو انہوں نے آج بھی کہی تھی “ کالیا کوئی کسی ایک شعبے میں نہیں۔ہر شعبہ زندگی میں ایک نہیں کئی کئی کالیے ہوتے ہیں۔ خود ہمارا صحافتی اور ادبی شعبہ بھی ایسے ایسے کالیوں سے بھرا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ ۔ یہ کالیئے اندر باہر سے کالیے ہیں۔ یہ لکھتے نہیں بلکہ قے کرتے ہیں۔ یہ وہ گدھ ہیں جو کسی کے شکار کو کھا کر زندہ ہیں اور جن کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیزنہیں۔ یہ اپنے ناموں کے متضاد ہیں۔ نام کا مطلب روشنی ہے لیکن قلم سے ،زبان سے اور ذہن سے بس تاریکی پیھلاتے ہیں۔ چوغہ صوفیا کا پہنتے ہیں اور کام فکر یزید والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی کے کیئے ہوئے کام کو اپنا نام دیتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور کسی کے گھر پر اپنی تختی لگا کر خوش ہوتے ہیں۔ یاوہ گوئی،پھکڑ پن اور سوقیانہ باتوں کو شعر گوئی کہتے ہیں۔ یہ ادب کے کالیئے اندر باہر سے کالے ہیں۔ ۔ یہ کالیئے وہ بالشتیے ہیں جو بانس پر لٹک کر اپنے کو قدآور بنا لیتے ہیں“ ۔ گزشتہ روز علامہ اقبال کاایک سو اکتیسواں یوم ٍ پیدایئش منا یا گیا ۔۔ اور میں اسں دن کو یومٍ پاکستان کانام بھی دیتی ھوں کہ انہوں نے ھی سب سے پہلے یہ خواب ظلم سہتے انسانوں کو امید کی طرح ھاتھوں میں دیا تھا ۔۔ اس وقت انہیں بھی کہاں معلوم تھا کہ پاکستان اپنے وجود سے لے کر آج تک کئی کالیوں کے ھاتھوں یرغمال بنا رھے گا ۔۔ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ھے بڑی مشکل سے ھوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا دوستو! جس ملک میں اتنے کالیئے ھوں وھاں سویر کیسے ھو ۔۔؟؟ھماری سویر کیسے ھو ۔۔؟

Friday, October 31, 2008

تین نومبر سیاہ دور کا سیاہ اقدام پر عوام کا یوم مذمت۔ چودھری احسن پریمی اے پی ایس



جمعہ کے روز بھی حسب روایت شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے میں ٢٠ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکی جاسوس طیاروں سے یہ میزائل حملہ میر علی گاوں سے دو کلو میٹر دور عیسوڑی میں کیا گیا جبکہ حملے کے بعد وہاں کھڑی گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی۔یہ میزائل حملہ ایک مقامی قبائل کے گھر پر کیا گیا ہے۔جبکہ امریکہ بہادر نے کہا ہے کہ کسی ملک کو دہشت گردی کا خطرہ ہو تو اسے سرحد پار حملے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے سربراہ مائیکل شر ٹوف نے کہا کہ بین الا اقوامی قانون میں ایسی شق ہونا چاہیے جس کے تحت وہ ممکنہ طور پر دہشت گردی روکنے کیلیے کاروائی کر سکے چاہے یہ پیشگی حملہ ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیاہے کہ بین الاقو امی قانون میں اب یہ بات شامل کی جائے کہ خود مختاری کی ذمہ داری کے تحت کوئی ملک اپنی سرزمین سے دوسرے پر حملوں کے لیے پلیٹ فارم نہ بنے۔ ملک بھر کے عوام،وکلاءاور قاضی حسین احمد سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے عوام نے 3نومبر کو یوم سیاہ و یوم مذمت منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارشل لاءطاغوت کی ایک شکل ہے۔ قوم ہمیشہ کے لیے طے کرلے کہ فوجی حکمرانی کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اوراپنے بنیادی حقوق کا ہرقیمت پر تحفظ کرے گی۔ تبدیلی کے لیے دستوری راستہ اختیار کریںگے ۔قوم کو موجودہ عدلیہ قبول نہیں ہے، سب نے دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف اٹھایاہے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی جدوجہد میں وکلا برادری کا بھرپورساتھ دیں گے۔عوامی حکومت سویلین آمریت قائم کرنے کے بجائے انصاف اور میرٹ پر عملداری کو یقینی بنائے،اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرے۔حکمران طبقے کے بیرون ملک بنکوں میں جمع30ارب ڈالر ملک واپس لائے جائیں تو معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔آئین توڑنے اور قتل عام کے جرم میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جائے اور لوٹی دولت کا حساب لیا جائے۔پرویز مشرف نے 3نومبر2007ءکوسیاہ اقدام کیا۔ پوری قوم 3نومبر کو فوجی حکمرانی اور مشرف اقدام کے خلاف یوم سیاہ و یوم مذمت مناکرفوجی قیادت کو پیغام دے۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ انگریز کی شاگرد ہے۔ جیسے ہی سیاسی جماعتیں اور عوام آزاد ہونے لگتے ہیں ملک کو فوجی غلامی کے شکنجے میں دے دیا جاتا ہے۔قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بننے کے فوری بعد سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی مہم چلائی ۔ اس مطالبے کے نتیجے میں قراردادمقاصد پاس ہوئی جس میں اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے ،لیکن اسے صرف دستور کی زینت کے لیے استعمال کیا گیااور آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔فوج جب چاہتی ہے، دستور توڑ کر ملک پر قابض ہوجاتی ہے،تمام انسانی حقوق معطل کردیے جاتے ہیں،اور دستور کے بجائے فردواحد کی وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے جو طاغوت کی ہی ایک شکل ہے۔ مارشل لا میں تمام قوانین ایک فرد کی مرضی سے بنتے اور ٹوٹتے ہیں، مارشل لا ایڈمنسٹریٹربندوق کے زور پر اپنا حکم منواتا ہے،اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ فوجی حکومت میں ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہوا۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی، یحیی خان نے اسے انجام تک پہنچایا، ضیاء الحق نے سیاچین بھارت کے حوالے کردیا جبکہ پرویز مشرف نے ملک کو معاشی بدحالی سے دوچار کیا، ایک ایٹمی مملکت کو امریکی کالونی بنادیااور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن کرکے ملکی سلامتی کے خلاف سازش کی۔انھوں نے کہا کہ فاٹا،سوات اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی پالیسی ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے جس سے حکومت اور فوج کو مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ انھوںنے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف ووٹ لیا لیکن اس کی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اورامریکی مصلحتوں کی خاطر اپنی قوم کوجیٹ طیاروںسے نشانہ بنایا جارہاہے ۔ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتی ہیں اور اب بھی ان غلطیوں کو دہرایا جارہاہے،اور عوامی حکومت کا دعویدار ہونے کے باوجود عوامی احساسات کی ترجمانی نہیں کی جارہی۔ ملک و قوم کو ایک امین اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو قومی خزانے پرغریب اورمظلوم کے پہلے حق کو تسلیم کرے اور اس کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو اپنا فرض سمجھے۔ چستان میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ کوئٹہ سے زیارت تک تباہی کے آثار ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔پوری قوم کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی دل کھول کرمددکرے۔جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے پنجاب مشکل کی گھڑی میں بلوچستان کے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے 10کروڑ روپے کا چیک لے کر آئے ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید امداد بھی مہیا کریں گے۔ ضروری امدادی اشیاء پر مشتمل 50ٹرکوں کا قافلہ صوبائی وزیر سردار دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں کل یہاں پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے ‘ صورتحال کا جائزہ لینے اور امداد کی فراہمی کیلئے کوئٹہ پہنچے پر کیا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی ‘ صوبائی وزراء ،مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ سردار یعقوب ناصر اور دیگر قائدین نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقہ ضلع زیارت کا دورہ کیا جہاں انہیں پاک فوج کے ریلیف کمشنر نے اب تک متاثرین کو دی جانے والی ریلیف کے متعلق تفصیلاً بریفنگ دی ۔ میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ہم اس دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے غمزدہ بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں ۔میں نے بلوچستان کے زلزلہ زدگان کی بحالی اور ریلیف کے لئے جو اپیل کی ہے پنجاب کے عوام نے اس کا بھر پور جواب دیا ہے اور وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سینئر مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی متاثرہ بلوچی بھائیوں کی ضروریات اور انہیں ریلیف کی فراہمی کے لئے دن رات کام کر رہی ہے جس کی کاوشوںسے پنجاب سے اشیائے ضروریہ اور خوراک کی ترسیل بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جاری ہے۔ انہوں نے 10کروڑ روپے کا چیک وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پیش کرتے ہوئے کہاکہ امدادی اشیاء پر مشتمل 50 ٹرکوں کا قافلہ بھی صوبہ پنجاب سے روانہ ہو چکا ہے جو کل تک متاثرہ علاقوں میں پہنچ جائے گا۔ اس میں20 لاکھ روپے مالیت کے خیمے اور دیگر امدادی اشیاءبھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی متاثرین کو جس چیز کی ضرورت ہوگی ہم وہ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کریں گے ۔ اس موقع پر ضلعی رابطہ افسر اسفند یار نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پنجاب حکومت کی جانب سے آئے ہوئے امدادی اشیاء پر مشتمل 10 ٹرکوں کی چابیاں حوالے کیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا اس موقع پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ کی طرح مصیبت کی اس گھڑی میں صوبہ پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کی بھر پور مدد کی ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ امدادی اشیاءکی حقیقی متاثرین تک بھر پور رسائی کیلئے ایماندار اور مخلص لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاکہ انہیں امدادی اشیاءجلد از جلد فراہم ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو تمام نقصانات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں متاثرین کو بھر پور ریلیف دیاجائے گا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونے والے ’بلوچستان جرگے‘ کی اہمیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی توقعات کے منافی کسی اقدام کا ارادہ کیا گیا تو سب سے پہلے میں اس کی مخالفت کروں گا۔انھوں نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری نے مجھے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جس پر مجھے سخت حیرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے منتخب اراکین نے بلا مقابلہ جس شخص کو وزیرِاعلیٰ چنا ہے، جو صوبے کے تقریباً سو فیصد عوام کا نمائندہ ہو، اسے صوبے سے متعلق فیصلوں اور مشاورت میں شریک نہ کرنا اچنبھے کی بات ہے۔وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے عوام کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں سب سے پہلے اس کی مخالفت کروں گا۔اس استدلال پر کہ صدرزرداری کی صدارت میں ہونے والے بلوچستان جرگے کا مقصد انٹلیکچول اِن پ±ٹ (Intellectual Input) بتایا جا رہا ہے، نواب اسلم رئیسانی نے کہا تو کیا وہ ہمیں ’جاہل‘ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں صرف حکومتی نہیں صوبے کا سیاسی قائد بھی ہوں اور جسے تمام اراکین کا اعتماد حاصل ہے۔ میں فیڈرل یونٹ کی سب سے اہم سیاسی شخصیت ہوں۔ مجھے مدعو نہ کیا جانا بڑے دکھ کی بات ہے۔صوبہ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں وزیرِاعلیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی انتظامیہ دستیاب وسائل میں تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی ہے اور ہم بین الاقوامی اداروں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ، یورپی یونین، کویت، متحدہ عرب امارات، چین اور متعدد ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے امداد کی پیش کش کی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زلزلوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو سرکاری طور پر بتائی جا رہی ہے۔اے پی ایس

امریکہ معاشی اور سیاسی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے ۔ تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس




امریکہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے آنے والے دنوں میں امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں ماندھ پڑ جائیں گی اب وہ دوسرے ملکوں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ۔ ہانگ کانگ کے معاشی تجریاتی ادارے پی ای آر سی نے دنیا میں مالیاتی بحران کا محور امریکہ کو قرار دیتے ہوئے ۔ 16 ملکوں کے جائزے کے بعدعالمی مالیاتی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بھارت ‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ 2009 ء میں انتہائی سیاسی اور معاشرتی خطروں سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں جس کی اہم وجہ داخلی عدم استحکام ہے ۔ تجزیے کے اس پیمانے میں معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بہترین حالت والے ملک کو صفر اور انتہائی خطرے والے ملک کو 10 نمبر دیا گیا ہے ۔ بھارت کا سکور 6.87 ء ہے جس میں آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت پسندانہ حملوں کے اندیشوں کو شامل رکھا گیا ہے ۔ مالیاتی بحران کا بھارت ‘ ملائیشیاءاور تھائی لینڈ پر بہت زیادہ خراب اثر نہیں پڑے گا لیکن عالمی اقتصادی طوفان ان ملکوں میں داخلی صورت حال بد سے بدتر بنا سکتا ہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے بھارتی کشش آئندہ انتخابات میں کوئی بھی کامیاب ہو ‘ برقرار رہے گی ۔ پی ای آر سی کے مینجنگ ڈائریکٹر رابرٹ بروڈفٹ نے کہا ہے کہ بھارت ‘ تھائی لینڈ اور ملائیشیا کو عالمی مالیاتی بحران سے اتنا خطرہ نہیں جتنا انہیں داخلی محاذ پرہے ۔ تھائی لینڈ 6.87 ءسکور کے ساتھ دوسری پوزیشن پرہے جہاں موجودہ سیاسی اتھل 2009 ء میں ملک کے کلیدی اداروں کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے ۔ ملائیشیاء خطرے سے دوچار ملکوں میں تیسرے پوزیشن پر ہے جہاں سیاسی اقتدار کی جدوجہد ‘ نسلی اور مذہبی تناو¿ کو بڑھا رہی ہے جاپان ‘ ہانگ کانگ ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا انتہائی مستحکم اور بہت کم سیاسی خطرے سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں لیکن 2009 ء میں ان کی معیشت عالمی مالیاتی بحران کی زد میں آسکتی ہے ۔ امریکہ کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ مالیاتی بحران کا محور ہے اور اقتصادی اور نفسیاتی طور پر کمزور ملک بن گیا ہے اس لئے امریکہ کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں پہلے کے مقابلے میں ماند پڑ سکتی ہیں اور دوسرے ملکون پر اپنے خیالات و نظریات مسلط کرنے کے معاملے میں پہلے کی طرح جارح نہیں رہ پائے گا ۔ اور ایشیاء میں وہ جاپان ‘ سنگاپور اور آسٹریلیا کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا چین کی پوزیشن 5.33 ء بتائی گئی ہے جس کے لئے 2009 ءآسان نہیں ہو گا اور ایکسپورٹ مارکیٹ کمزور پڑنے کی وجہ سے اسے اپنی اقتصادی سرگرمی اور داخلی مانگ سے نمٹنے میں دشواری پیش آئے گی اور اوسطاً چینی عوام اپنے اخراجات کے تئیں محتاط ہو جائیں گے۔جبکہ امریکی کریڈیٹ بحران کے باعث پاکستانی برآمدات پر بھی ممکنہ طور پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔آج سے تقریباًتیرہ برس قبل جے پی مورگن نے ایک فنانشل ایجاد کریڈیٹ دیفالٹ سویپ کا پہلا سودا متعارف کروایا اور اس انسٹرومنٹ کے بازار کا حجم2007ء کے وسط تک 45کھرب ڈالر ہو گیا ۔یہی وہ فنانشل انسٹرومنٹ ہے جس نے سب پرائم مورٹ گیج بحران کے اثرات کو پھیلانے میں چین کا کام کیا اور اب اس بحران سے امریکی معیشت میں آنے والا سلو ڈاو¿ن معیشت کو ریسیشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے،چونکہ امریکا دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے اس لئے وہ ممالک جو امریکا سے تجارت کرتے ہیں امریکی طلب میں کمی کے نتیجے میں بحران کی زد میں یا تو آچکے ہیں یا آئیں گے۔پاکستانی تاجر کہتے ہیں کہ انہیں امریکی کسٹمرز نے خطوط لکھنا شروع کر دیئے ہیں کہ وہ اپنا مال یا تو روک لیں یا اس میں کمی کریں جبکہ دوسری طرف کچھ تجزیہ کاروں کا نقطہ نظر قدرے مختلف ہے۔ان کا خیال ہے کہ امریکی کریڈیٹ بحران ابھی ان کے منیو فیکچرنگ سیکٹر میں داخل نہیں ہوا لیکن جب یہ سیکٹرمتاثر ہوا تو اس کے اثرات پاکستانی برآمدات پر پڑیں گے۔واضح رہے کہ پاکستان کی امریکا کو کی جانے والی برآمدات کا حجم کل برآمدات کے پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔عالمگیر سطح پر امریکی ہتھیاروں کی معاملتوں میں گزشتہ ال تقریباً پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 2006ءمیں 16.7 بلین ڈالرز سے بڑھ کر 24.8 بلین ڈالرز ہو گئے ۔ امریکی کانگریس کے لیے نئی جاری کردہ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔ 2007ء میں امریکہ میں اس طرح کے معاہدے 41.5 فیصد ہو گئے۔ اس کے بعد 17.3 فیصد کے ساتھ 10.3 بلین ڈالرز کا روس کا نمبر ہے ۔ کانگریشنل ریسرچ سروس نے مورخہ 23 اکتوبر کی اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ بات کہی۔ اس کے بعد برطانیہ کا تیسرا نمبر ہے جس کے اسلحہ کے معاملت کی لاگت 9.8 بلین ڈالرز ہے جبکہ 2006 میں 4.1 بلین ڈالرز تھی۔ رپورٹ جس کا عنوان ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی روایتی منتقلی 2006-2007 ء سے ہے یہ بات کہی گئی ہے جس کی بنیاد غیر مصرحہ امریکی حکومت کے غیر درجہ بندی ڈاٹا پر ہے ۔ گزشتہ سال امریکی اسلحہ کی معاملتوں میں 48.5 فیصد اچھال آیا تھا جو مستقبل کی پیش قیاسی کے لیے ایک چوٹی کا نشانہ ہو سکتا ہے کیونکہ معاشی دشواریوں کا بڑے خریداروں کو سامنا ہے ۔ رپورٹ کے مصنف رچرڈگر یمنٹ نے مزید یہ کہا ہے کہ اس کے علاوہ یہ امریکہ کا مکمل مظہر ہے یعنی مستحکم دفاعی انتظامات سے فائدہ اٹھانا جس کی بنیاد امریکہ ہتھیاروں کے رینج پر ہے جو دنیا بھر کی ملٹریز کے ساتھ پہلے سے ہی زیر استعمال ہے ۔ معاملت جس پر 2007 ء پر دستخط کی گئی تھی ۔ اس میں یہ صرف بڑے ہتھیار شامل ہیں بلکہ سابق میں فروخت شدہ ہتھیاروں کی جدید کاری کے ساتھ ہوئے معاہدے بھی ہیں جو فاضل پرزوں کے ایک وسیع تر رینج سے متعلق ہیں۔ گولہ بارود، آرڈنینس ٹریننگ اور سپورٹ سروس ان میں سے ہیں۔ 2007 ءمیں ترقی پذیر خریداریوں میں سعودی عرب سے سے بڑا خریدار ہے جس کی اسلحہ کی معاملتوں میں 10.6 بلین ڈالرز کی معاملتیں شامل ہیں۔ جبکہ مالی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر پاکستان کو دوست ممالک سے امداد ملی تو آئی ایم ایف کی شرائط سے بچ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پیش کردہ شرائط پر غور کیا جا نا ناگزیر ہے اگرچہ عوام اس حق میں نہیں کہ پاکستان مزید مقروض ہو اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو ٹیکسوں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑے۔ اگرچہ فرینڈز آف پاکستان اس بحران سے نکلنے کے لیے پیکیج تیار کررہا ہے۔جبکہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوست ممالک نے فوری مددکی تو ہمیں شاید آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت نہ رہے۔وزیر اعظم نے اس افواہ کومسترد کردیا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرے ہے۔پاکستانی علاقوں پر امریکی فوج کے حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا ک ہے کہ قبائلی علاقوں پر امریکی حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے نقصان دہ ہیں اوراس سے کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اپنے ملک پر امریکی فوج کے حملوں سے نا خوش ہیں اور ان حملوں کو ملک کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سمجھتے ہیں۔جبکہ ملک بھر کے وکلاء 3نومبر کو ملک بھر میں ” یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں شاہراہ دستور سمیت تمام بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی اور دو گھنٹے کیلئے دھرنے دیئے جائیں گے جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس روز راولپنڈی بار سے خطاب میں اہم انکشافات کریں گے۔ 3نومبر 2007کو ملک کی آزاد عدلیہ پر وار کرنے والے مجرموں کا آج تک احتساب نہیں کیا گیا۔ جبکہ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاءتحریک نے گذشتہ ایک سال میں کئی کامیابیاں حاصل کیں جن میں 18فروری کے انتخابات میں عوام کا پرویز مشرف کے حامیوں کو مسترد کرنا اور آمر کی ایوان صدر سے رخصتی بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت معزول ججوں کی بحالی کا تحریری معاہدہ ہوا جس پر موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری میاں نواز شریف اسفندیار ولی مولانا فضل الرحمن اور منیر اورکزئی کے دستخط موجود ہیں۔ 3نومبر کو پاکستان میں عدلیہ پر گھناو¿نے اور مہلک وار کی برسی ہے۔وکلاءاس دن کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے ، احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی ۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے کانوں میں محترمہ شہید کا 10نومبر 2007ءکا اعلان ضرور گونج رہا ہوگا جس میں انہوںنے کہا تھاکہ جسٹس افتخار چودھری میرے اور پاکستان کے چیف جسٹس ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد میں خود ان کی رہائشگاہ پر پاکستان کا جھنڈا لہراوں گی۔ تین نومبر کو معزول چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بار سے خطاب کریں گے جس میں وہ اہم پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھائیں گے جو آج تک ان کے سینے میں دفن ہیں ۔خوفناک زلزلہ کے باعث بلوچستان کوتین نومبر کے پروگرام سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔باقی تینوں صوبوں کے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ دو گھنٹے کا دھرنا بھی دیا جائے گاجبکہ 8نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری گوجرانوالہ ڈویڑن کے وکلاءکنونشن سے خطاب کیلئے براستہ جی ٹی روڈ سیالکوٹ جائیں گے ۔تمام راستے ہر شہر میں ان کا بھرپور استقبال کیا جائے گا۔جبکہ 15نومبر کو معزول چیف جسٹس نیویارک جائیں گے جہاں پاکستانی اور امریکی عوام اور وکلاءان کا بھرپور استقبال کریں گے ۔17نومبر کو نیویارک بار چیف جسٹس کو تاحیات اعزازی ممبر شپ دے گی ۔18نومبر کو جسٹس افتخار محمد چودھری نیویارک کے ایک لاءکالج میں لیکچر دیں گے جبکہ 19نومبر کو ہاورڈ یونیورسٹی کی جانب سے معزول چیف جسٹس کو ”میڈل آف فریڈم “دیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی 360سالہ تاریخ میں یہ میڈل اس سے پہلے امریکی وکیل تھروکٹ مارشل جو بعد میں سپریم کورٹ آف امریکہ کے جج بھی بنے انہیں اور جنوبی افریقہ کے سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا کو دیا گیا ہے ۔چیف جسٹس تیسرے شخص ہیں جنہیں یہ میڈل دیا جارہا ہے۔ اے پی ایس

قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ غیر تہذیب یافتہ عالمی طاقتیں۔تحریر: چودھری احسن پریمی،اے پی ایس





معلوم ہوا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی خاموش سفارتی کوششوں سے سعودی عربیہ ، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر ، مراکش ، سوڈان، ترکی، تیونس، یمن ، سمیت یورپی ممالک، کینڈا، آسٹریلیا ، جرمنی، فرانس، برازیل، ڈنمارک و جاپان ، چین، تھائی لینڈ ، برطانیہ ، ایران نے پاکستان میں معاشی خوشحالی لانے کے لئے فوری امداد کا یقین دلایا ہے ۔امریکا کے دورے سے واپسی کے بعد آصف زرداری نے تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں پاکستان کی معیشت کو بچانے کیلئے خود رابطے کرنا پڑیں گے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے پیٹرول کے علاوہ پاکستان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے بھی امداد کا یقین دلایا ہے ۔صدر زرداری کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر شاہ عبداللہ پاکستانی عوام کو بڑی امداد کی خوش خبری دیں گے ۔ ادھر جرمنی ، فرانس، برطانیہ، چین اور جاپان نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کا ہر ممکن یقین دلایا ہے اگلے چند ہفتوں میں ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے لئے امداد آنے کی امید ہے ایران نے بھی پیٹرول اور بجلی تین برسوں تک اسلامی بھائی چارے کے تحت تحفتاً دینے کا وعدہ کیا ہے صدرآصف زرداری کا اس حوالے سے یہ اقدام خوش آئند ہے جبکہ عوام نے صدر آصف زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ وطن عزیز جو اس وقت ایک خوفناک معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ قومی بچت میں کفایت شعاری کرنے سے بھی کا فی بچت ہوسکتی ہے اور اس ضمن میں ضروری ہے کہ تمام اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کی بھاری بھرکم تنخوا ہوں کو کم کر کے پانچ ہزار اعزازیہ مقرر کر دیا جا ئے۔اگرقومی مفاد میںیہ بات کسی پارلیمنٹرین کو ناگوار گذرتی ہے تو اس کو ہٹا کر کسی دوسرے رضا کار ممبران کی خدمات حاصل کی جا ئیں۔کیونکہ ایک طرف ٹیکسوں کی مد اور مہنگائی کی شکل میں عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہما رے پارلیمنٹرین قومی خزانے سے کروڑوں روپے اپنی تنخواہوں،الائونس،اور مراعات کی شکل میں حا صل کر رہے ہیں۔عوام کا خیال ہے کہ ہمارے پا رلیمنٹرین کے اور بھی دولت کمانے کے دھندے کا فی ہیں کیونکہ ان میں اکثریت امیر ترین جا گیر داروں،اور ملک بھر کے ٹاپ صنعتکاروں کی ہے۔اس لحاظ سے ان کا بھو کے مرنے کا کوئی خدشہ نہیں جب کہ دوسری طرف عوام جن سے یہ ووٹ لیکر آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں البتہ وہ ضرور بھو ک اور فا قہ کشی سے مر رہی ہے۔نیز صدر پاکستان آصف زرادری سے یہ بھی گذارش ہے کہ ملک بھر سے کروڑوں روپیہ روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں موجود موبائل کمپنیاں جھا ڑوں لگا کر اکٹھا کر رہی ہیں کیا ایسا ممکن ہے آپ کی حکومت بھی ایک کھمبا اور ایک ڈبہ بنا نے کا حکم دے کر اس صنعت میں خود کفیل ہوجا ئے اور پہلے سے موجود مو بائل کمپنیوں کو خبردار کر دیا جا ئے کہ آپ کا آیندہ ری کنٹر یکٹ لا ئسنس نہیں ہوگا اور اپنا بندو بست کر یں۔امید ہے کہ ایسا کر نے سے مزید آپ کو وطن عزیز کیلئے دربدر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔سننے میں یہی آیا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں ما ہانہ کروڑوں رو پے ادا کر تی رہی ہیں اور اس کے عوض ملک کی اندرونی معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔جبکہ ملکی معشیت کو مزید بہتر بنا نے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجا رہ اداری ختم کی جا ئے۔ہمارے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ ہمارا ہی پینے کا پا نی ہمارے آگے سیل کررہی ہیں۔بات کرنے کا مقصد وہ ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے سرمایہ باہر جا رہا ہے۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے کسی حکمران نے کبھی اس غرض سے بیرونی دورہ نہیں کیا کہ جس میں اسکا یہ ایجنڈا ہو کہ کسی قسم کی بھی ٹیکنا لو جی میں خود کفیل ہوا جا ئے ہر ایک کا اپنا ایجنڈا رہا ہے کہ ملک و قوم کے نام پر لوٹنا کس طرح ہے اور ذاتی کاروبار کس طرح چمکانا ہے۔جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور نے کہا ہے کہ شوکت عزیز اور ان کی اقتصادی ٹیم موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار ہے، انہیں اور ان کی ٹیم کو طلب کیا جائے،اور 2003ءسے 2005ء کے درمیان پیدا ہونے والے اسٹاک مارکیٹ بحران کی ازسرنو تحقیقات کی جائیں، مشیر خزانہ نے یقین دلایا ہے کہ حکومت معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور ترقیاتی پروگرام کے لیے رقم نہیں موجودہ بجٹ غلط ہے، 2 سال کے اندر اندر ملک بحران سے نکل آئے گا، افراط زر کی شرح میں کمی زرعی اور صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنایا جائیگا، ملک 70 کھرب روپے کا مقروض ہے، زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت ساڑھے 7ارب ڈالر ہیں، آئی ایم ایف سے مالی امداد اپنی شرائط پر لیں گے، انہوں نے کہاکہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے صورتحال کو درست کر لیا جائیگا،قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاو¿س میں چیئرپرسن فوزیہ وہاب کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین اور کمیٹی کے اراکین عبدالرشید گوڈیل، محمد جمیل ملک، خواجہ محمد آصف، مخدوم فیصل صالح حیات، قیصر اورکزئی، ریاض فتیانہ، محمد افضل سندھو، کشمالہ طارق، بشریٰ گوہر، نگہت پروین، خالدہ صفدر اور شہناز وزیر علی کے علاوہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا مکمل جائزہ پیش کیا اور ارکان کے مختلف سوالات کے جواب دیے، کشمالہ طارق ، خواجہ محمد آصف اور دیگر ارکان نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر خزانہ عمر ایوب، ڈاکٹر سلمان شاہ اور ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا، کشمالہ طارق نے کہا ہے شوکت عزیز کو اجلاس میں طلب کیا جانا چاہئے تاکہ وہ معیشت کے اس نوبت تک پہنچنے کی وجوہات بتائیں، مخدوم فیصل صالح حیات نے کہا کہ شوکت عزیز کے ساتھ ان کی پوری اقتصادی ٹیم کو بلایا جائے۔جہاں تک شوکت عزیز اور ان کی ٹیم کا تعلق ہے تو شوکت عزیز ہی اس وقت فرار ہیں اگر وہ آ بھی جا ئیں تو وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی ٹیم ادھر ہی ہے سیاسی لوگ ایوانوںمیں جبکہ ان کے دور کے ایڈوائزر اور افسر شاہی سارے اپنی اپنی سیٹوں پر ریڈ ٹائی لگا کر کام کر رہے ہیں وہ کیا کا م کر رہے یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا لیکن تنخواہیں ضرور وصول کر رہے ہیں۔انھوں نے پاکستانی معشیعت کا بیڑا غرق کیوں کیا یہ سوال ہم ان سے اس لئے نہیں پوچھ سکتے کیونکہ وہ بھی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہیں۔جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور کسی دو چار بڑے مگر مچھوں کو قو می خزانہ لوٹنے پر پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے سرعام لائیو کوریج کے ساتھ کر نیوں سے فضا میں لٹکا کر پھا نسی نہیں دی جا تی کو ئی بھی قومی اقتصادی ڈاکو عبرت نہیں پکڑے گا۔کیونکہ اس وقت قوم کے مجرم طاقت ور ہیں جبکہ ان کی رعایا بے بس ہے۔جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قرار دیا گیا آزاد منش، لائق ، غیر جانبدار ججوں پر مشتمل عدلیہ ہی انصاف فراہم کرتی ہے ، آئین کی حکمرانی پر عمل پیرا قومیں ہی معاشی وسماجی ترقی کرتی ہیں، وکلاءاور قوم اس ملک میں آزاد عدلیہ کے قیام کیلئے ایک تاریخی جدوجہد کر رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب وکلاءاور پوری قوم کاآزاد عدلیہ کا خواب پورا ہوگا۔پاکستان اس حوالے سے اپنے سیاسی اداروں کو جمہوریت کے راستے پر چلانے اور آئین کے استحکام کے لئے بہت زیادہ خوش قسمت نہیں ہے اس ملک کی تاریخ مختلف ہے، یہاں کئی آئینی بحران آئے ، فوج کی دخل اندازی سے آئین منسوخ یا معطل کیا گیا، پارلیمنٹ تحلیل اور حکومت برطرف رہی، یہ غیر آئینی اقدامات سپریم کورٹ کے لئے چیلنج تھے، اس عدالت کے سابقہ فیصلوں کا ریکارڈ قابل رشک نہیں، ان فیصلوں نے عام طور پر فوجی اقدامات کو کسی نہ کسی بنیاد پر جائز قراردیا،ایک ایکشن اوورایکشن انقلابی جواز کی ڈاکٹرائن کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا جبکہ ایک دوسرا ایکشن نظریہ ضرورت کے تحت حق بجانب قرار دیا لہٰذا یہاں تواتر سے آئین و قانونی حکمرانی میں وقفے آئے اور جمہوریت متعدد بار انتشار کا شکار رہی یکے بعد دیگرے بننے والے دستایر اور خاص طور پر 1973 کا آئین جو موجودہ اعلیٰ ترین قانون ہے وہ آزاد عدلیہ فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کو ایک وفاق قرار دیتا ہے، نگرانی توازن کے تحت اختیارات کی علیحدگی فراہم کرتا ۔اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک کی معزول ججوں کی بحالی کیلئے مذاکرات کی دعوت کے بارے میں ساتھیوں کی مشاورت کے بعد اپنا فیصلہ سامنے لائیں گے۔ علی احمد کرد اور ان کے ساتھیوں کو اسی ”ون پوائنٹ ایجنڈہ“ پر ووٹ ملے ہیں اوران کی پہلی ترجیح اسی ایک نکاتی ایجنڈہ کا حصول ہے۔وہ آئندہ تین چار روز میں نو منتخب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اجلاس اسلام آباد میں بلا رہے ہیں جس میں وہ اس دعوت کو زیر غور لائیں گے اور اس موضوع پر مشاورت کریں گے۔ خوبصورت مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی معاملہ پر دعوت پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں اور تحریک میں شامل دوستوں سے مشاورت کی جائے۔ ملک بھر میں جاری اس بڑی تحریک میں شامل لوگوں کو بڑی توقعات وابستہ ہیں اور یہی طریقہ کار ہوا چاہیے کہ سب سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔پاکستان کے عوام کیلئے عالمی برادری اور ترقی یافتہ مما لک کا غیر تہذیب یافتہ چہرہ جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ مما لک جنھیں تیسری دنیا کے مما لک اور اس کے عوام نے مہذب مما لک سمجھا ہوا ہے وہ ان کا دہرا معیار ہے۔اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے کہ عالمی برادری نے معزول ججز کو بحال نہ کر نے کی موجودہ حکومت سے ضمانتلی ہوئی ہے۔جس کا اعتراف موجودہ حکومت بھی کئی ایک دفعہ کر چکی ہے۔لہذا پاکستان میں قا نون کی حکمرانی کے نفاذ میں سب سے بڑی رکا وٹ غیر تہذب یا فتہ عالمی برادری ہے وہی نہیں چا ہتی کہ معزول چیف جسٹس بحال ہوں۔اسے خدشہ ہے کہ قانون کی حکمرانی سے سابقہ کسی حکمران کو عبرت کا نشان بنا یا گیا تو آئندہ پاکستان میں کو ئی بھی حکمران اس کا آلہ کا ر بن کر اسلام، پاکستان اور اس کے عوام دشمن پالیسیوں پر عمل کر کے ان طا قتوں کے مفادات کیلئے کام نہیں کرے گا۔اے پی ایس