

بھارت ابھی تک ممبئی حملوں کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے اور امریکہ اور
عالمی قوتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ماحول بنا رکھا ہے اس کا فائدہ بھارت حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان کی سوچ ہے کہ یہ غیر ضروری ابھا رہے ہیں اس لئے اس کو نیچے لایا جائے ۔ملک کے چھوٹے صوبوں اور کمزور طبقات کو انصاف دینے کی ضرورت ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پیپلز پارٹی عدلیہ کی آزادی اور معزول ججوں کی بحالی کی تحریک میں شامل تھی مگر اب وہ اقتدار میں آنے کے بعد معزول ججزبحال نہیں کر رہی ۔ہر حکمران غلام عدالتیں چاہتا ہے ۔طاقتور کو قانون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج ملک میں لوگوں کو انصاف چاہئے اور انصاف تب ملے گا جب عدالتیں آزاد ہوں گی اور عدالتیں اس وقت آزاد ہوں گی جب معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحال ہوں گے۔ ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانا ہے تو ضروری ہے کہ پاکستان میں قانون کے سامنے سب برابر ہوں ۔عدالتی انصاف کے ساتھ معاشی انصاف بھی ضروری ہے جب کہ پاکستان میں غریب ٹیکس دیتا ہے اور امیر عیاشی کرتا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول 160ڈالر سے 34ڈالر فی بیرل تک نیچے آگیا مگر حکومت قیمتیں کم نہیں کررہی۔ لوگ مہنگائی سے مررہے ہیں۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ 18 فروری کے انتخابات بھی ملک میں تبدیلی نہیں لا سکے سابقہ مشرف دور میں عوام اور ملک کیلئے بے نظیر بھٹو نے جان کا نذرانہ دیا لیکن موجودہ حکومت آج بھی مشرف حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر من و عن عمل پیرا ہے۔پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو گزشتہ27 دسمبر کوہلاک کردیا گیا ۔راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کیا گیا۔ حملے کے بعد انہیں شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن انہیں بچایا نہ جاسکا۔ اس کے فوری بعد بعدوزارت داخلہ نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کردی تھی لیکن یہ واضح نہ ہوسکا کہ وہ خودکش حملے میں زخمی ہوئیں یا انہیں گولی مارکر ہلاک کیا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت پانچ گولیاں بھی چلی تھیں جن میں سے ایک ان کی گردن میں لگی تھی۔ اخباری خبروں کے مطابق اس حملے میں پی پی پی کی رہنما شیری رحمان اور ناہید خان بھی زخمی ہوئی تھیں۔ اس وقت ہسپتال کے باہر بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن جمع تھے اور غم و غصے کا ماحول تھے۔ اس حملے میں کم سے کم پندرہ افراد ہلاک اور متعدد ہوئے تھے۔ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری دوبئی سے پاکستان پہنچے ان کا کہنا تھا کہ بینظیر کی ہلاکت کی خبر پر اس وقت تک یقین نہیں کرسکتے جب تک وہ خود نہ دیکھ لیں۔ ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بینظیر بھٹو کے سینے اورگلے میں گولیاں لگیں تھیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان پر فائرنگ کی گئی اور ریلی میں دھماکہ بھی کیا گیا۔ لیکن اس وقت حالات واضح نہیںتھے۔ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ بینظیر بھٹو صرف زخمی ہیں۔ اسی روزپاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی موت ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نتیجہ ہے۔ان کے بقول بینظیر بھٹو اپنی سکیورٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اورجلسے کے دوران بھی انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بابر اعوان نے کہا کہ وہ صبح بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی جلسے میں گئے تھے۔ ’جلسہ گاہ میں ہم اکھٹے بیٹھے رہے۔ ہم ساتھ ہی ان کے گھر سے آئے تھے۔ وہ بتاتی رہیں کہ انہیں کیا خطرات در پیش ہیں۔ انہوں نے کچھ تفصیلات بھی مجھے دیں جو میں ابھی نہیں بتا سکتا۔ جب ہم جلسے میں بیٹھے ہوئے تھے تب بھی محترمہ نے مجھے کچھ چیزیں لکھ کر دیں۔ وہ اس بارے میں بہت فکرمند تھیں۔ ‘ اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے افسوس ظاہر کیا اور صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا تھا۔ صدر مشرف نے ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی تھی اور کہا کہ وہ ’قوم کے غم‘ میں شامل ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے انتخابی سرگرمیاں معطل کرد یں تھیںاور سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی کے سربراہ الطاف حسین نے واقعہ کو سانحہ قرار دیتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ الطاف حسین کا کہنا تھا سندھ کے تیسرے وزیراعظم کو راولپنڈی میں اس طرح سے قتل کیا گیا ہے، اس سے قبل لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب سندھ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا۔ جبکہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے بھی واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ ذوالفقار علی بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے بعد یہ بھٹو خاندان کے ایک بڑا سانحہ ہے۔ قاضی حسین احمد نے یہ بھی مطالبہ کیا تھاکہ پرویز مشرف فوری طور مستعفی ہوجائیں کیونکہ وہ اس کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوری طور پر سویلین حکومت قائم کی جائے جو عدلیہ اور آئین کو بحال کرے اور انتخابات کے لیے مناسب فضا تیار ہو۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی اطلاع پہنچتے ہی کراچی میں تمام بازار اور دکانیں بند ہوگئیں اور رات دیر تک کھلے رہنے والے بازاروں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پورے شہر میں خوف و دہشت کی فضا تھی۔ سڑکوں پر بھگدڑ کی سی فضا اور ٹریفک بھی بے ہنگم ہوگیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ وہ سڑکیں جو یکطرفہ ٹریفک کے لئے تھیں وہاں دونوں اطراف سے گاڑیاں آجانے سے صدر سمیت کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام تھی جبکہ ٹرانسپورٹ گاڑیاں بھی غائب ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ کئی علاقوں میں پھنس گئے ۔ بینظیر بھٹو کے گھر بلاول ہاوس پر سوگ کی فضا تھی۔ شہر بھر سے آنے والے کارکن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ اسی روزبلاول ہاوس کے جانب سے بتایا گیا تھا کہ آصف علی زرداری بچوں سمیت رات کے کسی وقت راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔دوسری طرف شہر کے کئی علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ لیاری، کھارادر، سلاوٹ پاڑے، گرومندر، ڈیفنس، کلفٹن،گلشن اقبال اور گلشن حدید سمیت دیگر کئی علاقوں میں ہوائی فائرنگ ہوئی۔ مشتعل لوگوں کے ہجوم سڑکوں پر نکلے جو دیوانہ وار نعرے لگا تے رہے اور پتھراو کر تے رہے اور ٹائروں کو آگ لگا تے رہے۔ سب سے جذباتی منظر لیاری میں تھا جو جہاں خواتین بھی سڑکوں پر نکل کر سینہ کوبی اور بین کررہی تھیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں جابجا ایسی افراتفری تھی جیسے عام طور پر زلزلے یا کسی دوسری قدرتی آف کے بعد نظر آتی ہے۔ شہر کے تشدد زدہ علاقوں سے اس روز یہ اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں کہ مشتعل لوگ سرکاری املاک اور گاڑیوں پر پتھراو کر رہے ہیں اور انہوں نے بعض گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا ہے۔ اسی روز کراچی میں ہنگامہ آرائی کے دوران پندرہ سے زائد گاڑیوں کو نظر آتش کیا یہ گاڑیاں ناظم آباد، لیاقت آباد، کیماڑی، اسٹیل ٹاون، راشد منہاس روڈ سہراب گوٹھ پل پر جلائی گئی تھیں۔ گلستان جوہر تھانے پر فائرنگ اور بغدادی تھانے پر کریکر سے حملے کی بھی اطلاعات ملی تھیں۔ جبکہ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے صوبے میں تین روز سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ شروع کر دی اور سڑکوں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کے لگے ہوئے بینرز کو آگ لگا دی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کی موت کی خبر سن کر راولپنڈی کی تمام مارکیٹیں بند ہوگئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جو مری روڈ پر موجود تھی، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور سڑکیں بلاک کر دیں۔ شہر کی پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا گیا اور لوگوں نے خود کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا۔ اس سانحہ کے بعد فیض آباد راولپنڈی میں واقع بسوں کے اڈے بند کر دیے گئے جبکہ ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹل بھی بند کر دیے۔ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں مسلم لیگ قاف کے اس پنڈال میں آگ لگا دی گئی جہاںمسلم لیگ قاف کا جلسہ عام ہونا تھا۔ سینکڑوں مشتعل افراد نے سٹیج، کرسیوں بینر اور پوسٹروں کو آگ لگا دی گئی اس کے علاوہ مسلم لیگ قاف کے تین انتخابی دفاتر کو بھی آگ لگائی گئی۔اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج اور ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کی اطلاعات ملی تھیں۔ پنجاب کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند کر دی گئی تھیں۔بیشتر شہروں میں پٹرول پمپ سینما گھر تھیٹر بند کردیے گئے ۔ لاہور میں پولیس کی دوگاڑیوں کو جلا دیا گیا تیسری کو پولیس اہلکاروں سمیت اغوا کیا گیا بعد میں پولیس اہلکاروں کو تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا۔ شہر کے ایک علاقے میں موبائل فون کے دفتر، ایک پٹرول پمپ اور دوسرے میں ایک ویگن کو نذر آتش کیا گیا ۔ایک گھر کو بھی آگ لگائے جانے کی اطلاع پولیس کو ملی ۔ لاہور میں مختلف مقامات پر ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی اور شاد باغ اور شملہ پہاڑی کے نزدیک زبردست ہوائی فائرنگ کی گئی ۔ مال روڈ شام ہوتے ہی سنسان ہوگئی اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ گوجرانوالہ میں دکانیں بند کرنے میں تاخیر کرنے والوں کی دکانوں میں توڑپھوڑ کی گئی ۔ ملتان میں چوک رشید آباد سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا توڑ پھوڑ کی اور ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی۔ ملتان کے ڈیرہ دارچوک اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ہوائی فائرنگ کی اطلاع ملی۔ پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا تھا پیپلز پارٹی کے کارکن مشتعل ہیں اور متعددنے انتقام کی بات کی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی بینظیر کی ہلاکت کی خبر پہنچتے ہی مختلف علاقوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور توڑ پھوڑ کی۔ پشاور میں جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر پی پی پی کے سینکڑوں کارکن جمع تھے اور سڑک بند کر کے وہاں احتجاج کر تے رہے جی ٹی روڈ پر بعض مشتعل افراد نے ایک گاڑی کو آگ لگائی اور سڑک پر نصب درجنوں سائن بورڈ اور گاڑیوں کے شیشے توڑے۔ پولیس نے مظاہرین کومنتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج اور انسو گیس کے گولے فائر کیے۔ ادھر اس واقعہ کے بعد شہر کے زیادہ تر تجارتی مراکز بند ہوگئے اور لوگ گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ شہر کے زیادہ تر علاقوں میں بجلی کی ترسیل معطل تھی۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کشیدگی کی اطلاعات تھیں جبکہ لورالائی اور تربت میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جوں جوں اطلاعات پہنچ رہی تھیں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ لورالائی شہر میں سب سے پہلے توڑ پھوڑ شروع کی گئی جہاں گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں تھی۔ اس کے علاوہ مکران ڈویڑن کے شہر تربت سے مشتعل افراد نے ہوائی فائرنگ کی اور ایک دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ جعفر آباد اور نصیر آباد کے علاقوں میں مشتعل افراد نے ٹائر جلا کر روڈ بلاک اور دکانیں بند کر دای گئی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں خوف کی غم و غصہ کی فضا پائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ پر بڑی تعداد میں کارکن جمع ہو گئے تھے لیکن کسی تشدد کے واقعے کی اطلاع نہیں تھی۔ اسی رات کوئٹہ میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس ہوا تھا جس میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ اس وقت کے اے پی ڈی ایم کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ فوجی حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو سیاست اور سیاسی جماعتوں کو برداشت نہیں کر رہے۔ کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق تمام اہم مقامات پر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی تھی تاکہ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ لسبیلہ سے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماوں کے مطابق بیلہ میں دکانیں اور بازار بند کر دیے گئے اور تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ۔ اسی رات غیرملکی حکومتوں کا ردعمل بھی دیکھنے میں آیا اس حوالے سے امریکی حکومت نے بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے پاکستان میں مفاہمتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ روس کی حکومت نے بھی حملے کی مذمت کی ۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھ نےمحترمہ بھٹو کی موت پرگہرے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی موت سے برصغیر ایک بہترین رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ محترمہ بھٹو کی موت سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے اور وہ اس مشکل گھڑی میں پاکستانی عوام کے غم میں شریک ہیں۔ فرانس نے بینظیر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ ’قابل نفرت فعل‘ ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ ڈیوِڈ ملیبینڈ نے پاکستان میں ’تحمل اور یکجہتی‘ کی اپیل کی ۔ افغانستان کی حکومت نے بینظیر پر قاتلانے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بربریت‘ قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ بینظیر کے قاتل پاکستان اور امن کے دشمن ہیں۔ بینظیر بھٹو اور حامد کرزئی نے اسی روز اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔ قبل ازیںبینظیر بھٹو پر کراچی میں اٹھارہ اکتوبر پاکستان واپسی پر ایک استقبالیہ ریلی میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان واپسی کے بعد سے ان کی سکیورٹی پر مسلسل تشویش پائی جارہی تھی۔پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کی آٹھ سال سے زیادہ جلا وطنی کے خاتمے کے دن کراچی میں خوفناک بم دھماکوں میں کم از کم 125 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔بینظیر بھٹو کی ریلی میں پہلا دھماکہ کراچی میں شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب رات کو بارہ بجکر پانچ منٹ پر پیش آیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی دوسرا دھماکہ ہوا تھا۔ تاہم بینظیر ان دھماکوں سے محفوظ رہیں۔ دھماکے کے وقت بینظیر بھٹو ٹرک کے عرشے سے اتر کر نیچے ٹرک میں بنائے گئے خصوصی کمرے میں آرام کرنے گئی تھیں۔ انہیں فوراً وہاں سے اتار کر محفوظ مقام پر پہنچایا گیا جبکہ جلسہ گاہ کا کنٹرول رینجرز نے سنبھال لیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد لاوڈ سپیکر سے اعلان کیا گیا کہ بینظیر بھٹو محفوظ ہیں۔کراچی پولیس نے دھماکے کو ایک خود کش حملہ قرار دیا تھا۔ کراچی کے سٹی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی کے مطابق پہلے جلوس میں شریک لوگوں پر ایک گرینیڈ پھینکا گیا اور پھر ایک خودکش بمبار نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپاو نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس دہشت گردی کا نشانہ بینظیر بھٹو تھیں۔ سپرنٹینڈنٹ پولیس (سی آئی ڈی) راجہ عمر خطاب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ریلی پر حملہ ایک خود کش حملہ تھا اور پولیس کو خود کش حملہ آور کا سر مل گیا ہے۔ رات گئے تک دیگر تفصیلات کے مطابق کراچی میںاکہتر لاشوں کی تصدیق کی گئی تھی۔ دھماکے میں پیپلز پارٹی کے رہنما بھی زخمی ہوئے ۔ رکن قومی اسمبلی غلام قادر چانڈیو نے بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما امین فہیم بھی دھماکے میں معمولی زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جناح ہسپتال سے 43 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ جن لاشوں کی شناخت ہو سکی ان میں کراچی لیاری کے علی بخش بلوچ، کراچی گزری کے طاہر ناریجو، پولیس انسپیکٹر شہاب الدین، اور ایک ٹی وی چینل اے آر وائی کے کیمرہ مین محمد عارف شامل تھے جب کہ زخمیوں میں اے ایس پی سہیل ظفر چٹھہ، فوٹو گرافر اظہر سہیل اور ایک ٹی وی چینل کے شاہد انجم شامل تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جناح ہسپتال میں چوبیس، لیاقت نیشنل ہسپتال میں تیس اور سول ہسپتال میں سترہ لاشیں لائی گئی تھیں۔ جناح ہسپتال میں چوالیس، نیشنل ہسپتال میں بیالس، سول ہسپتال میں تینتیس، عباسی شہید ہسپتال میں چار اور آغا خان ہسپتال میں ایک لاش موجود تھی۔ بم دھماکوں کی جگہ پر لاشوں کے ٹکڑے ہر جگہ بکھرے پڑے تھے ۔جناح ہسپتال میں ایک سو سے زائد زخمی موجود تھے۔ شعبہ ایمرجنسی کی ڈپٹی رجسٹرار ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ پچاس فیصد سے زائد زخمیوں کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی۔ ’زخمیوں کو سر اور گلے میں چوٹیں آئیں تھیں جبکہ کے کچھ کو جسم کے نچلے حصے میں زخم آئے جبکہ ایدھی کی گاڑیوں نے دھماکے کے بعد تیس سے زائد لاشوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا ۔ اس سے قبل ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ جمعرات کی شب کراچی میں شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب سابق پاکستانی وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے استقبالیہ قافلے میں دو دھماکے ہوئے ہیں۔یہ دھماکے شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب استقبالیہ قافلے میں ہوئے۔پہلے ایک چھوٹا دھماکہ ہوا جس سے بھگدڑ مچی اور اس کے فوراً بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا جس میں زیادہ تر ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ دھماکے شاہراہ فیصل پر عوامی مرکز اور بلوچ کالونی پل کے درمیان کے علاقے میں ہوئے۔ بینظیر جس ٹرک میں سوار تھیں اس کو بھی دھماکے سے نقصان پہنچا اور اس کی ونڈ سکرین ٹوٹ گئی ۔کراچی میں جناح ہسپتال میں لاشوں کے آنے پر وہاں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور وہاں موجود لوگ مشتعل ہو گئے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے خلاف نعرے لگانے لگے۔دھماکہ اس وقت ہوا جب بےنظیر کا قافلہ مزار قائد کی جانب رواں دواں تھا۔ بی بی سی کے مطابق اس سے قبل طالبان نے بےنظیر بھٹو پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان کے کمانڈر حاجی عمر نے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو امریکہ کے کہنے پر پاکستان آ رہی ہیں تاکہ وہ ’مجاہدین‘ کے خلاف کارروائیاں کرسکیں لیکن اگر انہوں نے ایسے کیا تو صدر جنرل پرویز مشرف کی طرح ان پر بھی حملے کیے جا سکتے ہیں۔ کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے حاجی عمر نے بتایا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ بینظیر بھٹو خود اپنی مرضی سے پاکستان نہیں آ رہیں بلکہ امریکہ کے کہنے پر آ رہیں ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں بھی کافی وقت گزارا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اگر جنرل مشرف کی حکومت ہو یا بعد میں بےنظیر بھٹو کی حکومت بنتی ہے، ہماری جنگ تو دونوں کے خلاف جاری رہے گی۔ایک سوال کے جواب میں حاجی عمر نے بتایا کہ بےنظیر بھٹو اسامہ بن لادن کو گرفتار کرانے میں امریکہ کی کیا مدد کرینگی کیونکہ خود امریکہ اور پاکستان گزشتہ چھ سال سے اسامہ بن لادن کا پتہ نہیں لگا سکے ہیں اور جس سے اب یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اسامہ پاکستان میں موجود نہیں ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی جانب سے کراچی میں بہادر آباد پولیس سٹیشن میں اٹھارہ اکتوبر کے بم دھماکوں کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے ایک درخواست جمع کرائی گئی تھی جس میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ۔یہ درخواست پی پی پی سندھ کے صدر قائم علی شاہ نے پارٹی کے دیگر رہنماوں نثار کھوڑو، آفتاب شعبان میرانی، اور جمیل سومرو کے ساتھ بہادر آباد تھانے پہنچ کر پولیس کے حوالے کی تھی۔ کراچی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی نے بتایا تھاکہ ’اس واقعے کی پہلے ہی ایک ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے اور اس درخواست پر قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جائے گی۔انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھاکہ پولیس بینظیر بھٹو کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست پر ایف آئی آر درج کرے گی یا نہیں اوراس موضوع پر مزید بات کرنے سے انکار کردیا تھا۔قائم علی شاہ نے بتایا تھا کہ ایس ایچ او کی جانب سے ایف آئی آر درست نہیں کیونکہ وہ متاثر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ تفتیشی ٹیموں پر ان کو اعتماد نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اٹھارہ اکتوبر کی رات کو بینظیر بھٹو کے استقبالیہ قافلے میں شارع فیصل پر کارساز موڑ کے قریب ہونے والے دو بم دھماکوں میں 134 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جس کی ایف آئی آر بہادرآباد کے ایس ایچ او عابد علی شاہ کی جانب سے پہلے ہی درج کی جاچکی تھی۔ بینظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ اٹھارہ اکتوبر کو ان کی وطن واپسی پر حکومت کی جانب سے ان کو بتایا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ بینظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں کہا تھا ان کی حکومت کو غیر جمہوری طور پر سن 1996 میں ہٹایا گیا جبکہ ان کو عوام کی حمایت حاصل تھی جس کے بعد ان کو 1999 مجبوراً ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ بینظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ ’اٹھارہ اکتوبر کو ان کی وطن واپسی پر حکومت کی جانب سے ان کو بتایا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کو سولہ اکتوبر کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے ان افراد کی نشاندہی بھی کی تھی جن پر انہوں نے اپنے شک کا اظہار کیا تھا۔ تاہم انہوں نے ان کے نام اپنی درخواست میں واضح نہیں کیے تھے۔بینظیر بھٹو نے مزید کہا کہ ’اٹھارہ اکتوبر کو جب وہ ائرپورٹ سے ایک بہت بڑے جلوس کے ساتھ دس گھنٹے بعد کارساز کے قریب پہنچیں تو دو بم دھماکے کیے گئے جن میں 140 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جس میں وہ بال بال بچ گئیں تھیں‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’یہ دھماکے ان کو اور ان کی پارٹی کی قیادت کو ختم کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ انہوں نے درخواست میں کہا کہ اس واقعہ کا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ اور ایکسپلوسو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔پاکستان کے قیام کے ساٹھ برسوں میں تین صدور اور تین وزراءاعظم سمیت اہم سیاسی شخصیات پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ ان قاتلانہ حملوں میں ایک صدر اور ایک وزیراعظم ہلاک ہوئے جبکہ دیگر بال بال بچ گئے۔قیام پاکستان کے بعد چار برس بعد ہی ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کردیا گیا۔ لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر سنہ انیس سو اکیاون میں اس وقت گولی مار کرکے ہلا ک کیا گیا جب وہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔صدر جنرل ایوب خان ملک کے پہلے صدر تھے جن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ صدر جنرل ایوب پر آٹھ نومبر سنہ انیس سو اڑسٹھ میں پشاور یونیورسٹی میں خطاب کے دوران فائرنگ کرکے ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تاہم صدر ایوب اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔صدر جنرل ضیاءالحق پاکستان کے دوسرے صدر تھے جن پر قاتلانہ حملے ہوئے تاہم ان کی ہلاکت سترہ اگست سنہ انیس سو اٹھاسی میں فوجی طیارے کی تباہی سے ہوئی۔ اس حادثہ سے صدر جنرل ضیاءالحق کے علاوہ اعلی فوجی افسر اور پاکستان میں امریکہ کے سفیر بھی ہلاک ہوگئے۔ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو بھی اپنی بہن کے دورے حکومت میں گولی لگنے سے ہلاک ہوئے۔ میر مرتضیٰ بھٹو بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو اپنے سات ساتھیوں سمیت پولیس فائرنگ سے اپنے آبائی اقامت گاہ سترہ کلفٹن کے باہر ہلاک ہوئے تھے۔نواز شریف ملک کے دوسرے وزیر اعظم تھے جن پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ لاہور کے نواحی علاقے رائے ونڈ میں واقع اپنے فارم پر جارہے تھے اور ان کے راستے میں ایک پل کے نیچے رکھا گیا بم ان کی گاڑی گزرنے کے بعد پھٹا اور اس طرح نواز شریف محفوظ رہے۔صدر جنرل پرویز مشرف پر دسمبر سنہ دوہزار تین میں یکے بعد دیگرے دو انتہائی خطرناک حملے ہوئے۔ تاہم صدر مشرف معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔صدر جنرل مشرف پر پہلا حملہ چودہ دسمبر سنہ دو ہزار تین کو راولپنڈی کے جھنڈا چیچی پل پر ریموٹ کنٹرول بم سے کیا گیا تھا لیکن صدر کے قافلے کی گاڑیوں میں نصب شدہ ’سگنل سینسرنگ‘ آلات کی وجہ یہ بم اس وقت نہیں پھٹ سکا تھا جب گاڑیاں پل سے گزر رہی تھیں۔اس واقعہ کے دس دنوں بعد صدر مشرف پرپچیس دسمبر کو دوسرا حملہ کیا گیا اور ان کو خودکش حملہ کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ راولپنڈی میں صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے پر اس خطرناک خود کش حملے میں کم از کم چودہ افراد ہلاک اور چھیالیس زخمی ہوگئے ہیں۔ صدر مشرف کے قافلے پر دو مختلف اوقات پر دو گاڑیوں سے حملہ کیا گیا۔ یہ گاڑیاں دو پیٹرول سٹیشنوں سے باہر نکلی تھیں۔ اس حملے میں صدر مشرف بال بال بچ گئے۔وزیر اعظم شوکت عزیز پر بھی تیس جولائی سنہ دو ہزار چار میں ان کی انتخابی مہم کے دوران ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے۔ تاہم اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔شوکت عزیز اٹک میں اپنی انتخابی مہم کے دوران فتح جنگ کے قریب ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کر کے باہر آ رہے تھے کہ جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر ان کی گاڑی کے قریب ایک زور دار دھماکہ ہوا تھا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری بھی اس سال سترہ جولائی کی شام اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں ہونے والے وکلاءکنونشن کے پنڈال کے قریب ہونے والے دھماکے میں بال بال بچے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری اپنی معطلی کے دوران ایک جلوس کی شکل میں وکلا کنونشن میں خطاب کے لیے آرہے تھے اور ان کا قافلہ جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر تھا جب پنڈال میں بم دھماکا ہوا۔ اس دھماکے میں کم از کم پندرہ افراد ہلاک اور اسی کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ اس بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن بھی شامل تھے۔سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی اٹھارہ اکتوبر کو آٹھ برسوں کی جلاوطنی کے بعد ملک میں واپسی پر ان کے استقبالیہ جلوس میں خودکش حملے میں ایک سوانتالیس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ بینظیر بھٹو کے ٹرک سے کچھ فاصلے پر ہوئے۔ تاہم بینظیر بھٹو اس انتہائی خطرناک حملے میں محفوظ رہیں۔ لیکن ستائیس دسمبر کوپاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ہلاک کردیا گیا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کیا گیا حملے میں بینظیر بھٹو انتقال کرگئیں۔ حملے کے بعد انہیں شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن انہیں بچایا نہ جاسکا۔ راولپنڈی میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کو لاڑکانہ میں ان کے آبائی گاو¿ں گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کیا گیا۔اس موقع پرگڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے کارکن ہزاروں کی تعداد میں جمع تھے جبکہ پورے پاکستان سے کارکنوں کے قافلے اپنی رہنماءکی آخری رسومات میں شرکت کے لیے لاڑکانہ پہنچے تھے۔ بینظیر بھٹو کا جسد خاکی پاکستان ایئرفورس کے ایک 130-C طیارے کے ذریعے راولپنڈی سے سکھر اور پھر وہاں سے ہیلی کاپٹر پر ان کے آبائی شہر لاڑکانہ کے موہنجوداڑو ایئرپورٹ پہنچایا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو کی میت پاکستانی وقت کے مطابق رات ایک بجکر بیس منٹ پر راولپنڈی کی چکلالہ ائیربیس سے سکھر کے لیے روانہ کی گئی ۔ طیارے میں ان کے شوہر آصف علی زداری اور بچے بلاول، بختاور اور آصفہ بھی موجود تھے۔ آصف علی زرداری اور ان کے بچے خصوصی طیارے کے ذریعے دبئی سے اسلام آباد پہنچے تھے۔موہنجوداڑو ایئرپورٹ سے بینظیر بھٹو کی میت لاڑکانہ میں ’نوڈیرو ہاوس‘ پہنچی تو موقع پر موجود سینکڑوں کارکن زار و قطار رونے لگے۔ ان میں سے کئی نے سینہ کوبی شروع بھی کر دی تھی۔میت کے ساتھ ان کے پیپلز پارٹی رہنماءمخدوم امین فہیم، راجہ پرویز اشرف، شیریں رحمان اور دیگر شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماوں کا کہنا تھا کہ تدفین کا وقت بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی رہنماوں سے مشاورت کے بعد طے کریں گے۔ اس سے قبل پاکستان کے نگران وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد نواز نے اعلان کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی میت اسی رات ہی لاڑکانہ بھجوا دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی میت ان کے شوہر آصف زرداری کے حوالے کی جائے گی۔ بے نظیر بھٹو کو جب ہسپتال لایا گیا تو وہ دم توڑ چکی تھیں۔ پروفیسر مصدق خان نے کہا کہ انہیں اوپن ہارٹ مساج کے ذریعے انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ ڈاکٹروں نے یہ بھی بتایا کہ ایک گولی ان کی شہ رگ میں لگ کر سر سے نکلی ہے، جس سے دماغ کا پچھلا حصہ اڑ گیا۔ تاہم ڈاکٹروں کی ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ یہ زخم دو الگ الگ گولیوں کی وجہ سے آئے۔ ابھی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے بھی ہسپتال کا دورہ کر کے پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں سے تعزیت کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر کی جنگ اب وہ لڑیں گے۔ بینظیر دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے 1979ءمیں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ءمیں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ءمیں جنرل ضیاءالحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔ بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک تھا۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔ بینظیر بھٹو کی دو بار حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔ تاہم 1988ءمیں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماو¿ں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔ بینظیر بھٹو نے 1953ءمیں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان کی بجائے صحافی یا وکیل بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔ جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ءمیں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔ علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاءالحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ءمیں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 1988ءمیں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔ بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی جبکہ گزشتہ سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔ بینظیر بھٹو 1999ءمیں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔ خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔ بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔ مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔ اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی اب اکتالیس برس کی ہوگئی ہے۔ ان اکتالیس برسوں میں پارٹی نے کئی نشیب و فراز دیکھے اور پارٹی کے کئی ممتاز رہنماوں نے مشکل گھڑی میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی اور پارٹی کے نام کےساتھ لاحقہ لگا کر نئی جماعتیں تشکیل دیں تاہم وقت کے ساتھ افادیت ختم ہونے پر نومولود جماعتیں بھی ختم ہوگئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی اکتا لیس برس قبل تیس نومبر 1967 کو وجود میں آئی اور اس جماعت کے پہلے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پیپلز پارٹی نے 1970 میں ہونے والے عام انتخابات میں مغربی پاکستان سے بھرپور انداز میں کامیابی حاصل کی۔پیپلزپارٹی پر مشکل وقت کے دوران پارٹی کے ممتاز رہنماوں نے اس سے علیحدگی اختیار کی تاہم اقتدار ملنے پر ان میں کئی رہنما پارٹی میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے کئی رہنماوں نے اسی جماعت کے نام پر نئی جماعتیں قائم کیں اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد اس میں دوبارہ شامل ہوگئے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں پہلی حکومت بنائی اور مارچ 1977 کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی تاہم پانچ جولائی1977میں جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا لگا کر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردی جس کے بعد پارٹی میں اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد بھٹو کابینہ کے وزیر قانون ایس ایم مسعود نے ایک قرارداد کے ذریعے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا تاحیات صدر بنا دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی کوثر نیازی نے مشکل کی اس گھڑی میں علیحدگی اختیار کر لی اور پروگریسِو پیپلز پارٹی کے نام سے جماعت بنالی۔ نیازی کی پیپلز پارٹی میں بھٹو کا ساتھ چھوڑنے والے رہنما شامل ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بنایا گیا۔سن 1986 میں بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی اور بھٹو کے سیاسی شاگرد غلام مصطفیٰ کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی تاہم کچھ عرصہ کے نیشنل پیپلز پارٹی مزید دو، جتوئی اور کھر گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔انیس سو اٹھاسی میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد غلام مصطفیٰ کھر نے اپنے گروپ کواصل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا۔بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارٹی کی چیئرپرسن اور اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹا دیا اور خود پارٹی کی چیئرپرسن بن گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی تبدیلی کے بعد ان کے حامی رہنماوں نے نصرت بھٹو کی سربراہی میں پارٹی کا شہید بھٹو گروپ بنا لیا اور نہ صرف بھٹو کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا گیا بلکہ بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پر شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھال لی۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو کے ہاتھ میں آگئی اور وہ تاحال شہید بھٹو گروپ کی سربراہ ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 1996 میں تحلیل کر دیا اور بھٹو کے قربیی ساتھی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نگران مقرر کر دیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود نے بھی 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ پر پیپلز پارٹی زید اے بھٹو کے نام پر جماعت بنائی تاہم اکتوبر دوہزار دو میں عام انتخابات سے قبل رانا شوکت محمود دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔سردار فاروق لغاری نے صدر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملت پارٹی بنائی اور اس جماعت میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماوں نے شمولیت کی۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب شرپاو نے اختلافات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی شرپاو گروپ کے نام جماعت بنائی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو نے خود پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کا سربراہ مخدوم امین فہیم کومقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے سنہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ جماعت بینظیر بھٹو کی واپسی اور اسمبلیوں کی تحلیل کےساتھ ہی عملی طور پرختم ہوگئی تھی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی پیڑیاٹ قائم کی اور مسلم لیگ قاف کو حکومت بنانے میں مکمل مدد اور تعاون فراہم کیا۔پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرایا گیا تھا تاہم آفتاب شرپاو کے سوا پیپلز پارٹی پیڑیاٹ مسلم لیگ قاف میں شامل ہوگئی۔بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھاجس پر سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور شرپاو گروپوں کے انضمام کرکے انہیں پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور پیپلز پارٹی کا نام بحال کر دیا تھا۔پیپلز پارٹی اپنے قیام سے اب تک چار مرتبہ اقتدار میں آئی ۔پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے اور دو مرتبہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو اقتدار میں رہنے کاموقع ملا۔جبکہ اب بے نظیر کے شو ہر آصف زرداری صدر جبکہ ان کی پارٹی کے ایک ورکر سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بےنظیر بھٹو کے نام سے منسوب کر دیا ہے جبکہ راولپنڈی جنرل ہسپتال اور مری روڈ کا نام بھی بےنظیر بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔وفاقی حکومت نے اس ضمن میں پنجاب حکومت کے ساتھ مشاورت کی تھی اور باہمی رضا مندی کے ساتھ ان جگہوں کے نام بینظیر بھٹو کے نام کے ساتھ منسوب کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس سال بیس جون کو بےنظیر بھٹو کی پچپن ویں سالگرہ کے موقع پر ان جگہوں کو بےنظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی سالگرہ اکیس جون کو منائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ان مقامات کے نام سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے خدمات کے اعتراف میں رکھے گئے ہیں۔ گذشتہ سال ستائیس دسمبر کو بےنظیر بھٹو راولپنڈی میں لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ اس خودکش حملے میں جب بےنظیر بھٹو زخمی ہوئیں تھیں تو انہیں طبی امداد کے لیے راولپنڈی جنرل ہسپتال لایا گیا تھا لیکن وہ جان بچا نہ سکیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے لیے ابتدائی طور پر پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ لیاقت باغ کے باہر جس جگہ بےنظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا اس جگہ ایک یادگار تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ ہوا تھا جس کے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی مدعو کیا جائےگا۔ ملک کی اہم سیاسی شخصیت بینظیر بھٹو کو قتل ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔انہیں گزشتہ برس آج کے ہی دن راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں پچیس دیگر افراد سمیت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس ایک اہم ترین قتل کے پیچھے کون لوگ تھے یہ معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔قتل کے فورا بعد جائے وقوع کی دھلائی سے جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ قاتلوں کو چھپایا جا رہا ہے وہ مبصرین کے نزدیک آج سچ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت کی نگران حکومت اس واقعے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ بےنظیر بھٹوکے قتل میں قبائلی جنگجو بیت اللہ محسود ملوث ہے۔ وزارت داخلہ نے صحافیوں کو اس ضمن میں ایک ریکارڈنگ بھی سنائی جس میں بیت اللہ کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنایا گیا۔ تاہم اس ٹیپ میں یہ کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ بےنظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس واقعہ کے چوبیس گھنٹوں میں تین مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا۔ پہلے وزارت داخلہ نے بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ گولی اور بعد میں بم کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی لاش کاپوسٹ مارٹم نہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے کی تفتیش اس طرح نہیں ہوسکی جس طرح قتل کے دوسرے مقدمے میں پولیس تفیش کرتی ہے۔اسی طرح بےنظیر بھٹو کی سیکورٹی پر مامور ایس ایس پی میجر ریٹائرڈ امتیاز کا بیان بھی پولیس نے قلمبند نہیں کیا۔اور پھر ان کی موت کی وجہ ان کا سر گاڑی کی چھت کے ایک لیور سے ٹکرانے کو قرار دیا۔ ایک غیرملکی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا تھاکہ اسے ملنے والی ایک ویڈیو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بےنظیر بھٹو کو سر میں گولی لگی تھی۔ اس دعوے نے اس وقت کے حکومتی موقف کو مذید مشکوک بنا دیا تھا۔اس مقدمے کی تفتیش کے لیے پنجاب پولیس کے کرائم انسوسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں ایک مشترکہ تفیشی ٹیم بنائی گئی جس میں پولیس کے علاوہ اٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش میں تکنیکی معاونت کے لیے سکاٹ لینڈیارڈ کی ٹیم گزشتہ چار جنوری کو پاکستان آئی۔ اس ٹیم نے اپنی تفتیش کے دوران حکومت کے موقف کی تائید کی کہ بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ ان کا سر کا کسی آہنی چیز ٹکرانا تھا۔ تاہم اس وقت پیپلز پارٹی نے یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس غیر ملکی تفتیشی ٹیم کو یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ مشکوک افراد سے پوچھ گچھ کریں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سال جنوری میں ڈیرہ اسماعیل خان سے قتل میں ملوث ہونے کے شبہے میں اعتزاز شاہ اور شیر زمان کو گرفتار کیا تھاجس کے بعد راولپنڈی سے محمد رفاقت، حسنین گل اور قاری عبدالرشید کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم محمد رفاقت کے والد صابر حسین کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا اور ان کا داماد حسنین گل بےنظیر بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا بیٹا پانچ جنوری سے لاپتہ تھا جس کی گمشدگی کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کروانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کی رپورٹ درج نہیں کی اور بعدازاں انہیں سات فروری کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا اور داماد بینظیر بھٹو کیس میں پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے بیٹے اور داماد پر پستول اور ہینڈ گرنیڈ بھی ڈال دیئے تھے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی پولیس نے رفاقت اور حسنین گل کو جی ایچ کیو کے قریب خودکش حملے میں بھی نامزد ملزمان قرار دیا ہوا ہے۔ راولپنڈی پولیس نے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن کے قتل کے مقدمے کا چالان وقوعہ کے تین ماہ کے بعد ہی عدالت میں پیش کر دیا تھا۔یہ پیش کردہ چالان گرفتار ملزمان کے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے اقبالی بیانات پر مبنی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس چالان کی روشنی میں بےنظیر بھٹو قتل کی سازش کا منصوبہ ساز پاکستانی طالبان شدت پسندوں کے رہنما بیت اللہ محسود کو قرار دیا اور ان سمیت بعض ملزمان کو مفررو ظاہر کیا ہے۔ اس مقدمے کی تفتیش میں معاونت کرنے والے راولپنڈی پولیس کے شعبہ تفتیش کے سربراہ رانا شاہد کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس ضمن میں جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان کے خلاف بےنظیر بھٹو قتل میں ملوث ہونے کے اہم شواہد ملے ہیں۔ ایک غیر ملکی نشر یاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ اس مقدمے میں ملزمان کا اقبالی بیان کافی اہم ہے۔ رانا شاہد نے کہا کہ عدالت نے اس مقدمے میں قبائلی شدت پسند بیت اللہ محسود سمیت پانچ افراد کو اشتہاری قرار دیا ہے۔ ایس پی انوسٹیگیشن نے کہا کہ اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیئے جانے والے افراد میں سے دو افراد سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اسماعیل اور دلاور شامل ہیں۔ اس مقدمے میں سرکاری وکیل سردار اسحاق نے کہاکہ اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف جو شواہد عدالت میں جمع کروائے گئے ہیں وہ انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان رفاقت، حسنین گل اور عبدالرشید کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں جبکہ اعتزاز شاہ اور شیر زمان پر قتل کی دفعات لاگو نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اس مقدمے میں ایک سو کے قریب گواہان ہیں اور اس مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے اس خط کو اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم کے حوالے کیوں نہیں کرتی جس میں انہوں نے خود کو کچھ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے نام لیے تھے ۔اس وقت کے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بےنظیر بھٹو پر ہونے والے خودکش حملے کی جگہ کو دھونے کو راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ہیڈ کوراٹر کی سربراہی میں بننے والی اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کو پیش کی۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس کمیٹی کی رپورٹ میں اس وقت کے سٹی پولیس افسر سعود عزیز کو ذمہ دار کو ٹھرایا گیا جس کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن اس جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس پولیس افسر کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے آبائی شہر ملتان میں پولیس کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔سعود عزیز کا موقف تھا کہ پولیس نے جائے حادثہ سے تمام ضروری شواہد حاصل کرنے کے بعد اسے دھو یا تھا۔ بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ گدشتہ برس اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں بےنظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر خود کش حملے کے بعد اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن اس واقعہ کی دوبارہ ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں تو اب اس وقت جب یہ جماعت برسراقتدار ہے تو بےنظیر بھٹو کے قتل کی دوبارہ آیف ائی ار درج کیوں نہیں کرواتی ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے اس خط کو اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم کے حوالے کیوں نہیں کرتی جس میں انہوں نے خود کو کچھ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے نام لیے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات سے متعلق تمام ثبوت صرف اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرے گی۔یہ بات پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینٹر بابر اعوان نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔انہوں نے تحقیقات بیرون ملک تفتیش کاروں سے کروانے کی حکومتی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا تھاکہ حکومت ’ملزم بچاو‘ مہم میں مصروف ہے جو کہ بقول ان کے انتہائی شرمناک عمل ہے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کی جانب سے لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری اور بےنظیر بھٹو کی ہلاکت میں کسی مماثلت کے نہ ہونے کے بیان پر شدید تنقید کی تھی۔ انہوں نے سانحے کے دو گھنٹے کے اندر اندر جائے وقوع کو دھونے پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے پہلے یہ کہا تھاکہ اگر پاکستانی حکومت نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے مدد کی درخواست کی تو مثبت جواب دیا جائےگا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون کے ترجمان نے کہا تھا کہ اب تک حکومت پاکستان نے ان سے تحقیقات میں مدد کی درخواست نہیں کی ہے۔ سینٹر بابر اعوان نے یہ بھی الزام لگایا تھاکہ صوبہ سندھ میں دو لاکھ پارٹی کارکنوں کے خلاف اب تک ساڑھے چار ہزار مقدمات درج کیے گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ابتدائی رپوٹوں میں پارٹی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام امیدوار اور وارڈ کی حد تک کارکن نامزد کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات کے مدعی سیاسی لوگ ہیں۔ یہ گرینڈ دھاندلی کی سکیم کا حصہ ہو سکتا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’سندھ کو مرہم کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں خون اور بارود ہے‘۔ انہوں نے سندھ میں فوج کشی کے فیصلے کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’ہماری پارٹی کسی کو وفاق توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آج تک بہت سے ایسے سوال ابھر رہے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یا جن کے پاس ہے وہ دینا نہیں چاہتے۔ بر طانوی صحافی فرینک گارڈنر جوبی بی سی نامہ نگار سکیورٹی امورہیں انھوں نے بھی اپنے ایک مضمون" بینظیر بھٹو کو کس نے مارا؟ " میں لکھا تھا کہ ان کے اصل قاتل کی شناخت کبھی معلوم ہو بھی گئی تو وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کو بھیجنے والے کون تھے اور انہوں نے ایسا کیوں کیا؟پاکستان میں جہاں افواہوں کا بازار گرم ہے اس وقت دو متضاد آراءگردش کر ہی ہیں۔ ایک رائے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ہے کہ قاتل القاعدہ یا طالبان یا دونوں تھے۔ یقیناً رش والی جگہ پر خودکش حملہ القاعدہ کا پسندید طریقہ ہے، لیکن اس بار حملہ آور نے ناکامی کا امکان ختم کرنے کے لیےاپنے آپ کو اڑانے سے قبل فائرنگ بھی کی۔ القاعدہ اور طالبان کے پاس بینظیر بھٹو کو مارنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سیکولر، مغرب میں تعلیم یافتہ اور ایک ایسی خاتون سیاستدان کی حیثیت سے جس کے برطانیہ اور امریکہ سے قریبی تعلقات تھے وہ اسلامی انتہاپسندوں کو مخالفت کی کئی وجوہات فراہم کرتی تھیں۔ آئی ایس آئی نے ایک طویل عرصے تک افغانستان میں طالبان اور اور کشمیری علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ صدر مشرف نے امریکہ کو قائل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں کہ انہوں نے آئی ایس آئی میں اایسے عناصر کو ختم کردیا ہے جن کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ ابھی پرانے رابطے پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ انہوں نے کھلے عام صدر مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اسلامی انتہاپسندوں کو کمزور کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے اور انہوں نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا کہ اسلامی انتہاپسندوں کی پشت پناہی کرتی ہے جن کے القاعدہ سے تعلقات ہیں۔ اگر اس واقعے کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ ہے تو ان کے طریقہ کار کے مطابق وہ کنفیوڑن میں اضافے کے لیے کچھ دیر رکنے کے بعد انٹرنیٹ پر ایک محتاط بیان جاری کرتی ہے جس میں خودکش حملہ آور کی تعریف اور حملے کی وجوہات کو مذہبی اصطلاحات میں پرو کر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے جو محترمہ بھٹو کے حامیوں کے نزدیک درست ہے یہ ہے کہ حملے میں حملے کی ذمہ دار صدر مشرف کی حکومت ہے۔ وہ خاص طور پر آئی ایس آئی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کے مطابق بینظیر بھٹو کی اقتدار میں متوقع واپسی سے اتنی پریشان تھی کہ اس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلے کیا۔ اس رائے کو لوگ جتنے بھی اعتماد سے پیش کریں اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے آزاد شواہد نہیں ہیں اور مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار انکوائری کے بغیر حقیقت شاید کبھی بھی معلوم نہ ہو سکے۔ پاکستانی سیاست کے گنجل میں بہت سے ایسے اسلامی عسکریت پسند گروپ ہیں جن کا تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ حکومت سے لیکن اس کے باوجود کسی ایک سے یا دونوں سے روابط ہیں۔ بر طانوی صحافی کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستانی کی داخلی صورتحال کا دارومدار اس پر ہوگا کہ آیا کہ حملہ آور کو پاکستان میں سے ہی بھیجا گیا تھا یا باہر سے۔ اگر تو اس میں القاعدہ یا طالبان ملوث ہیں تو یہ معاشرے کو اکٹھا کرنے میں مددگار ہوگا جو ایک قومی ایک رہنما کے قتل پر غمگین ہے۔ دوسری صورت میں اگر قاتل پاکستانی معاشرے کے کسی ایک دھارے کا حصہ نکلے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ 29 دسمبر2007 کوتحریک طالبان پاکستان نے وزارت داخلہ کے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے اس وقت کے وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیر جاوید اقبال چیمہ کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی جو انہوں نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مولوی عمر نے کسی نامعلوم مقام سے بات کر تے ہوئے انھیںکہا تھاکہ چونکہ بینظیر کا قتل ایک سیاسی معاملہ ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس میں حکومت یا اس کی ایجنسیاں ملوث ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھٹو خاندان کے ساتھ کافی عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ، پہلے اس خاندان کے تین افراد ذولفقار علی بھٹو، شاہ نواز بھٹواور مرتضی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب بے نظیر کو ہلاک کیا گیا تو یہ وہی پرانی دوشمنی کا تسلسل ہے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلیے کیا گیا ہے۔ طالبان تحریک نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک کےلیے ایک بڑا سانحہ قرار دیا تھا اور لوگوں سے اپیل کی کہ مصبیت کی اس گھڑی میں صبر وتحمل سے کام لیں۔ اس سے پہلے مشرف حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کی خودکش حملے میں ہلاکت کے ذمہ دار قبائلی علاقوں میں طالبان کے کمانڈر بیت اللہ محسود ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ حملے کے لیے بیت اللہ محسود ذمہ دار تھے۔تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کےمطابق مشرف حکومت قبائلیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور انہیں کچلنے کے لیے اس قسم کے الزامات لگا رہی ہے۔ پہلے بھی حکومت نے یہ الزام لگایا کہ اسامہ بن لادن باجوڑ میں ہیں اور اب یہ الزام عائد کیا گیا ہے تو ان سب باتوں کا مقصد قبائلیوں کو بدنام کرنا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ اقوام متحدہ نے پاکستان کی درخواست پر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ سابق وزیر اعظم کی ہلاکت کے بعد کی جانے والی پہلی پریس کانفرنس میں اس وقت کی حکومت کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیا تھا۔ تاہم حکومت میں آنے کے بعد اس مطالبے کی قرارداد کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں منظور کیا گیا۔ ’اس تحقیق کی درخواست دینے کے بعد اس کمیشن کے مینڈیٹ اور حدود کے بارے میں پاکستان نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل فیصلہ کرے گی۔ اور اس درخواست کو لے کر کل کو پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جن کو اس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ سے تحقیق کی درخواست کے بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا گیا کہ نہ تو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اور نہ ہی پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان اس بات کے حق میں تھے کہ اقوام متحدہ سے تحقیقات کرائی جائیں کیونکہ پاکستان کی حساس تنصیبات تک کی رسائی مانگی جا سکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سے تحقیقات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین و قانون دانوں کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی درخواست دینے کے بعد اس کمیشن کے مینڈیٹ اور حدود کے بارے میں پاکستان نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل فیصلہ کرے گی۔ اور اس درخواست کو لے کر کل کو پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جن کو اس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جب حکومت یہ کہے گی کہ القائدہ کا ہاتھ ہے یا طالبان کا لیکن اس کا تعین اقوام متحدہ کا کمیشن کرے گا تو کیا وہ ان علاقوں میں نہیں جائیں گے اور کیا وہ سکیورٹی اہلکاروں کو انٹرویو نہیں کریں گے جو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ملوث ہیں۔بعض کا کہنا تھا کہ پاکستان حکومت سکیورٹی کونسل کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ ان کے قائم کردہ کمیشن کو کیا اختیارات ہوں گے اور کیا نہیں۔ ’ایک بار درخواست دے دی اور اس پر سکیورٹی کونسل کمیشن تشکیل دے دیتا ہے تو پاکستان کا کردار اس کمیشن کے مینڈیٹ کے بارے میں ختم ہو جائے گا۔ اس کمیشن کا مینڈیٹ سکیورٹی کونسل وضح کرے گی اور اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اگر ابتدائی مرحلے میں اقوام متحدہ مینڈیٹ محدود ہی رکھے لیکن جب چھ یا ایک سال بعد اس کمیشن کے کام میں توسیع کی جاتی اور اس وقت سکیورٹی کونسل اس کے مینڈیٹ کو وسیع کر دیتی تو پاکستان کیا کرتا۔ وزیر قانون فاروق نائیک نے بائیس مئی کو ایک پریس بریفنگ میں خود کہا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس وسائل نہیں کہ اتنی بڑی تحقیق کر سکیں، اس بات کو لے کر کل کو اقوام متحدہ کا کوئی رکن ملک کہہ سکتا ہے کہ چونکہ پاکستان خود ہی تسلیم کر چکا ہے کہ اس کی تحقیقاتی اور سکیورٹی فورسز کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اس لیے پاکستان میں اقوام متحدہ کی فورس پاکستان بھیجنی چاہیے جو کہ اس ملک میں قائم دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی تفتیش کر سکے۔اس وقت پاکستان دفاع میں کیا کہے گا؟ پاکستانی حکومت نے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے نام پر انسانی حقوق ایوارڈ کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق یہ ایوارڈ ہر سال انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دو تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین افراد کو دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے نام پر انسانی حقوق فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں ابتدائی طور ایک کروڑ روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔اس بات کا اعلان وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وزارت انسانی حقوق کی طرف سے مرحومہ بے نظیر بھٹو کو اقوام متحدہ کا ایوارڈ ملنے کے موقع پر ایک منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ ہر سال 27 دسمبر کو بےنظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر مختلف افراد کو انسانی حقوق ایوارڈ دیئے جائیں گے اور یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے افراد اور تنظیموں کے نام یوم آزادی یعنی 14 اگست کو بتائے جائیں گے۔ اس فنڈز سے ایسے افراد کی داد رسی کی جائے گی جن کے حقوق پامال کیے گئے ہوں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت جلد ہی انسانی حقوق کے بارے میں ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا۔ یہ کمیشن اپنی کارروائی کرنے میں مکمل آزاد ہوگا اور حکومت اس ادارے کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنے منشور کی روشنی میں انسانی حقوق کی وزارت قائم کی ہے۔ صوبائی اور ضلع کے سطح پر بھی انسانی حقوق کے بارے میں مانیٹرنگ کمیٹیاں بھی قائم کی جا رہی ہیں تاکہ ان علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جا سکے۔ مرحومہ بےنظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے ملنے والے ایوارڈ سے ہمارے عزم کو تقویت ملی ہے۔ بینظیر بھٹو چند عالمی رہنماوں میں سے ہے جنہیں یہ اعزاز ملا ہے ۔پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ان کی والدہ کے قتل کے بعد وہ اور ان کے والد آصف علی زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کی ?قیادت نہ سنبھالتے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا۔بلاول بھٹو زرداری نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں جنرل اسبملی کی طرف سے بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ دیے جانیوالے انسانی حقوق کا اعزاز وصول کرنے کے بعد ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہو ئے کہی۔ اقوام متحدہ میں یہ بریفنگ بلاول بھٹو سمیت انسانی حقوق کے اعزازات لینے والوں کیطرف سے منعقد کی گئی تھی جن میں امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک ، ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کییئنتھ روتھ بھی شریک تھے۔ اس سے قبل انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے کی ساٹھویں سالگرہ اور نسل کشی کیخلاف عالمی کنونشن کے دن یعنی دس دسبمر کو اقوام متحدہ میں ایک تقریب میں بلاول بھٹو زرداری نے بینظیر بھٹو کو جنرل اسبملی کی طرف سے دیا جانے والا اعزاز وصول کیا۔ یہ اعزاز بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ انہیں ان کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات اور اداروں کو یہ اعزاز ہر پانچویں سال دیا جاتا ہے اور اب تک یہ اعزاز امریکہ میں شہری حقوق کے بڑے رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونئیر، سابق امریکی صدر جمی کارٹر، نیلسن منڈیلا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ میں پریس بریفنگ میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک صفحہ اپنی والدہ کی خود نوشت سوانح عمری سے پڑہ کر سنایا اور کئی سوالات کے جوابات دیے۔ یورپ، امریکہ، مشرق وسطی اور دنیا کے دوسرے خطوں میں شاید ہی کوئی بڑا اخبار ہو جس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر کو شہ سرخی میں شائع نہ کیا ہو۔جتنی بڑی یہ خبر ہے اتنی ہی زیادہ اسے کوریج دی گئی ۔ بے نظیر کے قتل کی تفصیلی رپورٹ، تعزیتی نوٹ، ان کی موت سے پاکستان، خطے اور عالمی سیاست میں پیدا ہونے والا خلاء، پیپلزپارٹی کی قیادت اب کون سنبھالے گا، اداریے، تبصرے، تصاویر، سب ہی کچھ اخبارات نے شائع کیا ہے۔ سب ہی اخبارات نے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔برطانوی اخبار گارڈین نے پہلے سات صفحات اسی خبر کے لیے مختص کئے۔ پہلے صفحہ پر خبر کو اس تصویر کے ساتھ شائع کیاگیا ہے جس میں بے نظیر بھٹو اپنی کار کی چھت سے نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہی ہیں۔ اخبار نے ان کے مشتبہ قاتلوں کے بارے میں تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ کئی گروہ بے نظیر کی جان کے درپے ہوسکتے ہیں مگر اصل قاتلوں کا پتہ شاید ہی چل سکے۔ اسی طرح کے شک و شبہ کا اظہار دوسرے اخباروں نے بھی کیا ۔ دی انڈیپنڈنٹ نے اپنے پہلے صفحے پر صرف ایک تصویر شائع کی جس میں پیپلزپارٹی کے غمزدہ کارکن اپنی قائد کے تابوت کو اٹھائے ہوئے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ سرخی ہے، پاکستان کے لیے اب کیا؟ اخبار لکھتا ہے کہ ایک موہوم سے امید تھی مگر اب وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ انڈیپنڈنٹ میں شائع ایک مضمون کی سرخی ہے۔۔۔ پریشان واشنگٹن ایک بار پھر ناقابل اعتبار مشرف کی گود میں آگیا۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی کا حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسی طرح دی ٹائمز لکھتا ہے کہ بے نظیر کے قتل نے پاکستان کو بحران اور افراتفری کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون نے تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ بے نظیر کی ہلاکت سے صدر مشرف کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بے نظیر کے قتل سے بش انتظامیہ کی وہ کوششیں خاک میں مل گئی ہیں جو وہ پاکستان کے منقسم سیاسی دھڑوں کو یکجا کرنے کے لیے کر رہی تھی۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس سانحے سے صدر بش کی دو کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایک مسلم دنیا میں جمہوریت کا فروغ اور مسلم شدت پسندوں کی بیخ کنی۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ پاکستان کے جمہوریت کی راہ پر آنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں جو امریکہ کے لیے پہلے سے زیادہ فکر کی بات ہے۔ یواے ای کے اخبار خلیج ٹائمز نے اپنے ادارے میں لکھا ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعد نہ صرف پاکستان میں افراتفری بڑھ گئی ہے بلکہ اس سے نفرت کی ایک نئی لہر کے جنم لینے کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور قومی اور بین الاقوامی سیاست، سلامتی اور جمہوریت کا توازن بالکل بگڑ گیا ہے۔ کئی اخبارات نے بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے بارے میں ان لوگوں کے مضامین بھی شائع کیے جو کسی نہ کسی حیثیت میں بے نظیر سے ملے تھے۔ بہت سے اخبارات نے اپنے انٹر نیٹ شماروں میں بے نظیر کے قتل اور زندگی کے بارے میں آڈیو نشر جبکہ ویڈیو بھی ریلیز کیں۔پاکستان میں مختلف مکاتبِ فکر کے تمام اخبارات نے بھی گزشتہ سال اپنی اٹھائیس دسمبر کی اشاعت میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ۔اردو کے سرکردہ قومی اخبارات نے بینظیر بھٹو کو ’شہید‘ قرار دیتے ہوئے ان کی زندگی اور سیاسی کیریئر پر خصوصی ایڈیشن شائع کیے ۔ روزنامہ جنگ نے بینظیر بھٹو کی سیاسی اور خاندانی زندگی کی تصاویر پر مشتمل چار صفحات کا خصوصی شمارہ شائع کیا ۔ اخبار لکھتا ہے ’بھٹو خاندان کا ایک اور فرد سیاست کی جنگ میں زندگی کی بازی ہار گیا۔‘ روزنامہ خبریں اخبار کی شہ سرخی ہے ’دخترِ مشرق بینظیر بھٹو شہید‘ جبکہ اخبار نوائے وقت لکھتا ہے ’لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خودکش حملہ اور فائرنگ، بینظیر شہید‘۔نوائے وقت نے اپنے اداریے میں بینظیر بھٹو کے قتل کو ایک قومی سانحہ قرار دیا ہے اور ایک خصوصی سپلیمنٹ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ’روشن منزلوں کی راہیں موت کی تاریکی میں کھو گئیں، بینظیر بھٹو کو بھی بارود نے نگل لیا۔‘ انگریزی روزنامہ ڈان کی شہ سرخی ہے ’گڑھی خدا بخش کو ایک اور بھٹو کا انتظار‘۔ خلاف معمول صفحہ اوّل پر شائع کیے گئے اپنے اداریے میں ڈان لکھتا ہے کہ بینظیر بھٹو کی ہلاکت سے پاکستان اپنی ایک بہترین بیٹی سے محروم ہوگیا ہے اور بینظیر کے بغیر پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اب کبھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ روشن منزلوں کی راہیں موت کی تاریکی میں کھو گئیں، بینظیر بھٹو کو بھی بارود نے نگل لیا۔نوائے وقت ۔اردو روزنامہ ایکسپریس کی شہ سرخی ہے ’بینظیر تیس جانثاروں سمیت شہید، ملک سوگ کے اندھیرے میں ڈوب گیا‘۔انگریزی اخبار دی نیوز نے صفحہ اوّل پر بینظیر بھٹو کی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ تصویر شائع کی ہے جبکہ اخبار ڈیلی ٹائمز نے اپنے صفحہ اّول کو سیاہ رنگ میں ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر کے عکس میں شائع کیا ہے اور اس کی شہ سرخی ہے ’دخترِ مشرق قتل‘۔ اخبار نے بینظیر بھٹو کی تصویر بھی شائع کی تصویر کے نیچے اخبار نے بینظیر بھٹو کے خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ تعزیتی پیغام شائع کیا ہے۔ اخبارات نے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کے آخری خطاب کے اقتباسات شائع کیے اور قتل کے بعد ملک گیر مظاہروں اور جلاو گھیراو کی تفصیلات تصاویر سمیت شائع کیں۔کئی ایک اخبارات کے مطابق دم توڑنے سے پہلے بینظیر بھٹو کے منہ سے نکلنے والا آخری لفظ ’اللہ‘ تھا۔وہ چھوٹی سی بچی جس نے المرتضی لاڑکانہ میں اپنے باپ کے ہاتھوں بندوق سے فائر کرکے درخت پر سے ایک طوطے کو مارنے پر دو دن تک کھانا نہیں کھایا تھا وہ قتل ہوگئی۔’پنکی، بے بی، سر، بی بی، محترمہ، وزیر اعظم، بینظیر آخرکار اس خدشے کے سچ ہونے کا نشانہ بنی جس کا اظہار وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک کرتی رہی تھی یعنی کہ مشرف حکومت کی مجرمانہ غفلت اس کے شریک جرم ہوکر اپنے قتل ہوجانے کا وہی خدشے۔اپنے قتل سے صرف چند روز قبل اپنی ایک ای میل میں انہوں نے امریکہ میں اپنے دوست مارک سیگل کو لکھا: ’اگر میں قتل ہوجاوں تو اس کا ذمہ دار صدر پرویز مشرف کو سمجھا جائے کہ میرے مانگنے پر بھی انہوں نے مطلوبہ سیکیورٹی آلات مہیا نہیں کیے‘ یہ بات مارک سیگل سی این این پر کہہ رہے تھے۔ اسے القائدہ یا طالبان نے مارا یا پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے لیکن راولپنڈی سے ہمیشہ مقبول لیڈروں کی لاشیں پاکستان کے عوام کو بھیجی گئی ہیں۔وہ ایسے قتل ہوئی ہیں جسے پاکستان میں پاپولر بھٹو قتل ہوتے ہیں۔ جیسے انڈیا میں اندرا گاندھی قتل ہوئیں۔ جیسے امریکہ میں کینیڈی اور یونانی المیائی کرداروں کا انجام۔ میں بینظیر سر شاہنواز بھٹو کی اس بیٹی کا نام تھا جو وہ جوانی میں ہی جونا گڑھ میں بیماری میں فوت ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بڑی بیٹی کا نام اپنی اس چہیتی بہن کے نام پر رکھا تھا۔ سب سے پہلے بینظیر بھٹو اسوقت عام لوگوں کی نظر میں آئی تھیں جب وہ اپنے والد وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ مذاکرات کو جانیوالے وفد میں شامل تھیں۔ اگر کچھ شاعر آنیوالے دنوں کو دیکھ سکتے ہیں تو رئیس امروہی نے بینظیر بھٹو کا مقام تاریخ میں جولائی انیس سو باہہتر میں دیکھ لیا تھا جب مقتول شاعر رئیس امروہی نے قطعہ لکھا تھا: 'شملہ مذاکرات تھے تاریخ گیر بھیپر عزم اور عظیم بھی لیکن حقیر بھیآراستہ تھی محفل صدر و وزیر بھیتاریخ کی نگاہ میں تھی بینظیر بھی-' ایک بے فکر لیکن سنجیدہ اور بلیوں سے پیار کرنے والی بینظیر بھٹو کی زندگی کے اسٹیشن پر دکھوں اور حادثوں سے بھری ٹرین اسوقت داخل ہوتی ہے جب وہ جولائی انیس سو ستتر کی گرمیوں کی چھٹیوں پر تھیں اور انکے والد ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ ان کے ہی ترقی دیے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاءالحق نے الٹ دیا۔ اس دن سے لےکر وہ ’بقول شحضے‘ ریل کی پٹریوں پر ہاتھ پاوں باندہ کر پھینکی جانیوالی ہیروئین تھی اور ہر وقت کا صدر اور چیف آف دی آرمی اسٹاف ایک ولن! ضیاءالحق سے جنرل پرویز مشرف تک آخری دم تک یہی کہانی رہی۔ شاہ لطیف بھٹائی نے کہا تھا ’سامائی تاں سکھ ویا‘ (وہ جب جوان ہوئی تو اسکے سکھ چلے گئے) اور یہی کچھ بینظیر بھٹو کےساتھ ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی ضیاءحکومت کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر قتل کے مقدمے کے خلاف سندھ میں ان کے احتجاجی دورے کے دوران ہالا کے قریب اسے گرفتار کرکے نظربند کردیا گا۔ پی پی پی کے جیالے تب اسے ’بے بی‘ کہتے۔ پہلے وہ ستر کلفٹن اور پھر سکھرجیل میں نظربند کی گئیں۔ سکھر جیل میں بھی انہیں قتل کرنےکی سازش کی گئی۔ جب سکھر جیل کے قیدیوں نے دیواروں پر چڑھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کی۔ستر کلفٹن کی دیواریں تھیں اور ان میں تنہا نظربند ۔انیس سو اناسی میں ضیاءالحق نے انہیں نظربندی سے رہا کیا اور انہوں نے بذریعہ خیبر میل کراچی سے لاڑکانہ کا سفر کیا جب تمام راستے ہزاروں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے چلتی ریل کی پٹریوں پر لیٹ گئے تھے۔ ہر طرف ماتم کرتے انسانی سر اور ہاتھ تھے۔ کالے سندھی اجرک اور کالے چشمے میں ریل کے ڈبے سے ہاتھ ہلاتی تقریر کرتی بینظیر۔ لاڑکانہ پہنچتے ہی فوج نے اسے پھرگرفتار کرلیا۔ جلاوطنی میں لندن جاتی ہوئی بینظیر اور عوام سے پریس کے ذریعے یہ وعدہ کہ میدان میں ملیں گے۔ اپنے جواں سال بھائی شاہنواز کی جنوبی فرانس سے لاش لیکر وطن لوٹتی ہوئی ٹوٹی پھوٹی بینظیر۔ اسے لاڑکانہ میں لاکھوں عوام کی طرف سے پذیرائی حاصل ہوئی۔ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے گاوں کے قریب بھی اس کی پیجارو جیپ پر حملہ کرکے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئی تھیں کہ دو انتظامی افسران نے انہیں پہلے سے ہی اس سازش سے آگاہ کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے روڈ کے ذریعے اپنا سفر منسوخ کردیا لیکن اپنی جیپ کو جانے دیا تھا جہاں اسی جگہ ان کی جیپ پر حملہ ہوا تھا۔ پاکستانی قوم کی اس لیڈر کو پاکستان کے تمام کتوں نے گھیر گھار کر جلاوطنی سے واپس لاکر چیر پھاڑ دیا۔ جنرل مشرف طاقتور اور پاکستان کے عوام لاورث تھے کہ انہیں ہیلی کاپٹروں میں اپنی محبوب لیڈر کی لاش بھیح دی گئی ۔ کیا اسے ان جرنیلوں اور ملاوں نے ملکر مارا جو کہتے ہیں تیس روز کے بعد عورت کے بیٹھنے سے کرسی نجس ہوجاتی ہے؟ یا ان عالمی طاقتوں نے مارا جن کی ملک دشمن سازشوں اور نا پا ک عزئم کی تکمیل میں بے نظیر بھٹو ایک رکاوٹ تھیں۔بے نظیر بھٹو کی شہادت ملک دشمنوں کی فتح تھی۔ بے نظیر کے جانشین کئی ایک پیدا ہو جائیں لیکن ایک وژن اور ایک لیڈر بننے کیلئے ملک اور اس کے عوام کی بہتری کیلئے انتھک جدو جہد، اس راہ میں حا ئل رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقا بلہ کر نے وا لے اوصاف کے علاوہ خدا تعالی کی رحمت شامل حال جب تک نہ ہو۔لیڈر شپ نا مکمل رہتی ہے۔پا کستان کی مو جودہ صورتحال اور عنقریب مستقبل میں پاکستان کے عوام کو محسوس ہو گا کہ بے نظیر کے بعد پاکستان سیاسی طور پر یتیم ہو چکا ہے۔ اگر بے نظیر کی زند گی وفا کر تی تو پاکستان کی تا ر یخ مختلف ہو تی۔اے پی ایس
پاکستان پیپلزپارٹی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں پہلی حکومت بنائی اور مارچ 1977 کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی تاہم پانچ جولائی1977میں جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا لگا کر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردی جس کے بعد پارٹی میں اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد بھٹو کابینہ کے وزیر قانون ایس ایم مسعود نے ایک قرارداد کے ذریعے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا تاحیات صدر بنا دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی کوثر نیازی نے مشکل کی اس گھڑی میں علیحدگی اختیار کر لی اور پروگریسِو پیپلز پارٹی کے نام سے جماعت بنالی۔ نیازی کی پیپلز پارٹی میں بھٹو کا ساتھ چھوڑنے والے رہنما شامل ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بنایا گیا۔سن 1986 میں بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی اور بھٹو کے سیاسی شاگرد غلام مصطفیٰ کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی تاہم کچھ عرصہ کے نیشنل پیپلز پارٹی مزید دو، جتوئی اور کھر گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔انیس سو اٹھاسی میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد غلام مصطفیٰ کھر نے اپنے گروپ کواصل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا۔بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارٹی کی چیئرپرسن اور اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹا دیا اور خود پارٹی کی چیئرپرسن بن گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی تبدیلی کے بعد ان کے حامی رہنماوں نے نصرت بھٹو کی سربراہی میں پارٹی کا شہید بھٹو گروپ بنا لیا اور نہ صرف بھٹو کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا گیا بلکہ بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پر شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھال لی۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو کے ہاتھ میں آگئی اور وہ تاحال شہید بھٹو گروپ کی سربراہ ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 1996 میں تحلیل کر دیا اور بھٹو کے قربیی ساتھی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نگران مقرر کر دیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود نے بھی 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ پر پیپلز پارٹی زید اے بھٹو کے نام پر جماعت بنائی تاہم اکتوبر دوہزار دو میں عام انتخابات سے قبل رانا شوکت محمود دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔سردار فاروق لغاری نے صدر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملت پارٹی بنائی اور اس جماعت میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماوں نے شمولیت کی۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب شرپاو نے اختلافات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی شرپاو گروپ کے نام جماعت بنائی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو نے خود پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کا سربراہ مخدوم امین فہیم کومقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے سنہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ جماعت بینظیر بھٹو کی واپسی اور اسمبلیوں کی تحلیل کےساتھ ہی عملی طور پرختم ہوگئی تھی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی پیڑیاٹ قائم کی اور مسلم لیگ قاف کو حکومت بنانے میں مکمل مدد اور تعاون فراہم کیا۔پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرایا گیا تھا تاہم آفتاب شرپاو کے سوا پیپلز پارٹی پیڑیاٹ مسلم لیگ قاف میں شامل ہوگئی۔بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھاجس پر سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور شرپاو گروپوں کے انضمام کرکے انہیں پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور پیپلز پارٹی کا نام بحال کر دیا تھا۔پیپلز پارٹی اپنے قیام سے اب تک چار مرتبہ اقتدار میں آئی ۔پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے اور دو مرتبہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو اقتدار میں رہنے کاموقع ملا۔جبکہ اب بے نظیر کے شو ہر آصف زرداری صدر جبکہ ان کی پارٹی کے ایک ورکر سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بےنظیر بھٹو کے نام سے منسوب کر دیا ہے جبکہ راولپنڈی جنرل ہسپتال اور مری روڈ کا نام بھی بےنظیر بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔وفاقی حکومت نے اس ضمن میں پنجاب حکومت کے ساتھ مشاورت کی تھی اور باہمی رضا مندی کے ساتھ ان جگہوں کے نام بینظیر بھٹو کے نام کے ساتھ منسوب کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس سال بیس جون کو بےنظیر بھٹو کی پچپن ویں سالگرہ کے موقع پر ان جگہوں کو بےنظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی سالگرہ اکیس جون کو منائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ان مقامات کے نام سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے خدمات کے اعتراف میں رکھے گئے ہیں۔ گذشتہ سال ستائیس دسمبر کو بےنظیر بھٹو راولپنڈی میں لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ اس خودکش حملے میں جب بےنظیر بھٹو زخمی ہوئیں تھیں تو انہیں طبی امداد کے لیے راولپنڈی جنرل ہسپتال لایا گیا تھا لیکن وہ جان بچا نہ سکیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے لیے ابتدائی طور پر پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ لیاقت باغ کے باہر جس جگہ بےنظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا اس جگہ ایک یادگار تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ ہوا تھا جس کے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی مدعو کیا جائےگا۔ ملک کی اہم سیاسی شخصیت بینظیر بھٹو کو قتل ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔انہیں گزشتہ برس آج کے ہی دن راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں پچیس دیگر افراد سمیت ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس ایک اہم ترین قتل کے پیچھے کون لوگ تھے یہ معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔قتل کے فورا بعد جائے وقوع کی دھلائی سے جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ قاتلوں کو چھپایا جا رہا ہے وہ مبصرین کے نزدیک آج سچ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت کی نگران حکومت اس واقعے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ بےنظیر بھٹوکے قتل میں قبائلی جنگجو بیت اللہ محسود ملوث ہے۔ وزارت داخلہ نے صحافیوں کو اس ضمن میں ایک ریکارڈنگ بھی سنائی جس میں بیت اللہ کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنایا گیا۔ تاہم اس ٹیپ میں یہ کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ بےنظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس واقعہ کے چوبیس گھنٹوں میں تین مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا۔ پہلے وزارت داخلہ نے بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ گولی اور بعد میں بم کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی لاش کاپوسٹ مارٹم نہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے کی تفتیش اس طرح نہیں ہوسکی جس طرح قتل کے دوسرے مقدمے میں پولیس تفیش کرتی ہے۔اسی طرح بےنظیر بھٹو کی سیکورٹی پر مامور ایس ایس پی میجر ریٹائرڈ امتیاز کا بیان بھی پولیس نے قلمبند نہیں کیا۔اور پھر ان کی موت کی وجہ ان کا سر گاڑی کی چھت کے ایک لیور سے ٹکرانے کو قرار دیا۔ ایک غیرملکی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا تھاکہ اسے ملنے والی ایک ویڈیو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بےنظیر بھٹو کو سر میں گولی لگی تھی۔ اس دعوے نے اس وقت کے حکومتی موقف کو مذید مشکوک بنا دیا تھا۔اس مقدمے کی تفتیش کے لیے پنجاب پولیس کے کرائم انسوسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں ایک مشترکہ تفیشی ٹیم بنائی گئی جس میں پولیس کے علاوہ اٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش میں تکنیکی معاونت کے لیے سکاٹ لینڈیارڈ کی ٹیم گزشتہ چار جنوری کو پاکستان آئی۔ اس ٹیم نے اپنی تفتیش کے دوران حکومت کے موقف کی تائید کی کہ بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ ان کا سر کا کسی آہنی چیز ٹکرانا تھا۔ تاہم اس وقت پیپلز پارٹی نے یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس غیر ملکی تفتیشی ٹیم کو یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ مشکوک افراد سے پوچھ گچھ کریں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سال جنوری میں ڈیرہ اسماعیل خان سے قتل میں ملوث ہونے کے شبہے میں اعتزاز شاہ اور شیر زمان کو گرفتار کیا تھاجس کے بعد راولپنڈی سے محمد رفاقت، حسنین گل اور قاری عبدالرشید کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم محمد رفاقت کے والد صابر حسین کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا اور ان کا داماد حسنین گل بےنظیر بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا بیٹا پانچ جنوری سے لاپتہ تھا جس کی گمشدگی کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کروانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کی رپورٹ درج نہیں کی اور بعدازاں انہیں سات فروری کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا اور داماد بینظیر بھٹو کیس میں پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے بیٹے اور داماد پر پستول اور ہینڈ گرنیڈ بھی ڈال دیئے تھے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی پولیس نے رفاقت اور حسنین گل کو جی ایچ کیو کے قریب خودکش حملے میں بھی نامزد ملزمان قرار دیا ہوا ہے۔ راولپنڈی پولیس نے پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن کے قتل کے مقدمے کا چالان وقوعہ کے تین ماہ کے بعد ہی عدالت میں پیش کر دیا تھا۔یہ پیش کردہ چالان گرفتار ملزمان کے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے اقبالی بیانات پر مبنی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس چالان کی روشنی میں بےنظیر بھٹو قتل کی سازش کا منصوبہ ساز پاکستانی طالبان شدت پسندوں کے رہنما بیت اللہ محسود کو قرار دیا اور ان سمیت بعض ملزمان کو مفررو ظاہر کیا ہے۔ اس مقدمے کی تفتیش میں معاونت کرنے والے راولپنڈی پولیس کے شعبہ تفتیش کے سربراہ رانا شاہد کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس ضمن میں جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان کے خلاف بےنظیر بھٹو قتل میں ملوث ہونے کے اہم شواہد ملے ہیں۔ ایک غیر ملکی نشر یاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ اس مقدمے میں ملزمان کا اقبالی بیان کافی اہم ہے۔ رانا شاہد نے کہا کہ عدالت نے اس مقدمے میں قبائلی شدت پسند بیت اللہ محسود سمیت پانچ افراد کو اشتہاری قرار دیا ہے۔ ایس پی انوسٹیگیشن نے کہا کہ اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیئے جانے والے افراد میں سے دو افراد سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اسماعیل اور دلاور شامل ہیں۔ اس مقدمے میں سرکاری وکیل سردار اسحاق نے کہاکہ اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف جو شواہد عدالت میں جمع کروائے گئے ہیں وہ انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان رفاقت، حسنین گل اور عبدالرشید کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں جبکہ اعتزاز شاہ اور شیر زمان پر قتل کی دفعات لاگو نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا تھاکہ اس مقدمے میں ایک سو کے قریب گواہان ہیں اور اس مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے اس خط کو اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم کے حوالے کیوں نہیں کرتی جس میں انہوں نے خود کو کچھ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے نام لیے تھے ۔اس وقت کے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بےنظیر بھٹو پر ہونے والے خودکش حملے کی جگہ کو دھونے کو راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ہیڈ کوراٹر کی سربراہی میں بننے والی اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کو پیش کی۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس کمیٹی کی رپورٹ میں اس وقت کے سٹی پولیس افسر سعود عزیز کو ذمہ دار کو ٹھرایا گیا جس کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن اس جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس پولیس افسر کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے آبائی شہر ملتان میں پولیس کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔سعود عزیز کا موقف تھا کہ پولیس نے جائے حادثہ سے تمام ضروری شواہد حاصل کرنے کے بعد اسے دھو یا تھا۔ بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ گدشتہ برس اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں بےنظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر خود کش حملے کے بعد اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن اس واقعہ کی دوبارہ ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں تو اب اس وقت جب یہ جماعت برسراقتدار ہے تو بےنظیر بھٹو کے قتل کی دوبارہ آیف ائی ار درج کیوں نہیں کرواتی ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے اس خط کو اس مقدمے کی تفیش کرنے والی ٹیم کے حوالے کیوں نہیں کرتی جس میں انہوں نے خود کو کچھ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے نام لیے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات سے متعلق تمام ثبوت صرف اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرے گی۔یہ بات پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینٹر بابر اعوان نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔انہوں نے تحقیقات بیرون ملک تفتیش کاروں سے کروانے کی حکومتی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا تھاکہ حکومت ’ملزم بچاو‘ مہم میں مصروف ہے جو کہ بقول ان کے انتہائی شرمناک عمل ہے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کی جانب سے لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری اور بےنظیر بھٹو کی ہلاکت میں کسی مماثلت کے نہ ہونے کے بیان پر شدید تنقید کی تھی۔ انہوں نے سانحے کے دو گھنٹے کے اندر اندر جائے وقوع کو دھونے پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے پہلے یہ کہا تھاکہ اگر پاکستانی حکومت نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے مدد کی درخواست کی تو مثبت جواب دیا جائےگا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون کے ترجمان نے کہا تھا کہ اب تک حکومت پاکستان نے ان سے تحقیقات میں مدد کی درخواست نہیں کی ہے۔ سینٹر بابر اعوان نے یہ بھی الزام لگایا تھاکہ صوبہ سندھ میں دو لاکھ پارٹی کارکنوں کے خلاف اب تک ساڑھے چار ہزار مقدمات درج کیے گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ابتدائی رپوٹوں میں پارٹی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام امیدوار اور وارڈ کی حد تک کارکن نامزد کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات کے مدعی سیاسی لوگ ہیں۔ یہ گرینڈ دھاندلی کی سکیم کا حصہ ہو سکتا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’سندھ کو مرہم کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں خون اور بارود ہے‘۔ انہوں نے سندھ میں فوج کشی کے فیصلے کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’ہماری پارٹی کسی کو وفاق توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آج تک بہت سے ایسے سوال ابھر رہے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یا جن کے پاس ہے وہ دینا نہیں چاہتے۔ بر طانوی صحافی فرینک گارڈنر جوبی بی سی نامہ نگار سکیورٹی امورہیں انھوں نے بھی اپنے ایک مضمون" بینظیر بھٹو کو کس نے مارا؟ " میں لکھا تھا کہ ان کے اصل قاتل کی شناخت کبھی معلوم ہو بھی گئی تو وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کو بھیجنے والے کون تھے اور انہوں نے ایسا کیوں کیا؟پاکستان میں جہاں افواہوں کا بازار گرم ہے اس وقت دو متضاد آراءگردش کر ہی ہیں۔ ایک رائے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ہے کہ قاتل القاعدہ یا طالبان یا دونوں تھے۔ یقیناً رش والی جگہ پر خودکش حملہ القاعدہ کا پسندید طریقہ ہے، لیکن اس بار حملہ آور نے ناکامی کا امکان ختم کرنے کے لیےاپنے آپ کو اڑانے سے قبل فائرنگ بھی کی۔ القاعدہ اور طالبان کے پاس بینظیر بھٹو کو مارنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سیکولر، مغرب میں تعلیم یافتہ اور ایک ایسی خاتون سیاستدان کی حیثیت سے جس کے برطانیہ اور امریکہ سے قریبی تعلقات تھے وہ اسلامی انتہاپسندوں کو مخالفت کی کئی وجوہات فراہم کرتی تھیں۔ آئی ایس آئی نے ایک طویل عرصے تک افغانستان میں طالبان اور اور کشمیری علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ صدر مشرف نے امریکہ کو قائل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں کہ انہوں نے آئی ایس آئی میں اایسے عناصر کو ختم کردیا ہے جن کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ ابھی پرانے رابطے پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ انہوں نے کھلے عام صدر مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اسلامی انتہاپسندوں کو کمزور کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے اور انہوں نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا کہ اسلامی انتہاپسندوں کی پشت پناہی کرتی ہے جن کے القاعدہ سے تعلقات ہیں۔ اگر اس واقعے کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ ہے تو ان کے طریقہ کار کے مطابق وہ کنفیوڑن میں اضافے کے لیے کچھ دیر رکنے کے بعد انٹرنیٹ پر ایک محتاط بیان جاری کرتی ہے جس میں خودکش حملہ آور کی تعریف اور حملے کی وجوہات کو مذہبی اصطلاحات میں پرو کر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے جو محترمہ بھٹو کے حامیوں کے نزدیک درست ہے یہ ہے کہ حملے میں حملے کی ذمہ دار صدر مشرف کی حکومت ہے۔ وہ خاص طور پر آئی ایس آئی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کے مطابق بینظیر بھٹو کی اقتدار میں متوقع واپسی سے اتنی پریشان تھی کہ اس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلے کیا۔ اس رائے کو لوگ جتنے بھی اعتماد سے پیش کریں اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے آزاد شواہد نہیں ہیں اور مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار انکوائری کے بغیر حقیقت شاید کبھی بھی معلوم نہ ہو سکے۔ پاکستانی سیاست کے گنجل میں بہت سے ایسے اسلامی عسکریت پسند گروپ ہیں جن کا تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ حکومت سے لیکن اس کے باوجود کسی ایک سے یا دونوں سے روابط ہیں۔ بر طانوی صحافی کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستانی کی داخلی صورتحال کا دارومدار اس پر ہوگا کہ آیا کہ حملہ آور کو پاکستان میں سے ہی بھیجا گیا تھا یا باہر سے۔ اگر تو اس میں القاعدہ یا طالبان ملوث ہیں تو یہ معاشرے کو اکٹھا کرنے میں مددگار ہوگا جو ایک قومی ایک رہنما کے قتل پر غمگین ہے۔ دوسری صورت میں اگر قاتل پاکستانی معاشرے کے کسی ایک دھارے کا حصہ نکلے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ 29 دسمبر2007 کوتحریک طالبان پاکستان نے وزارت داخلہ کے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے اس وقت کے وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیر جاوید اقبال چیمہ کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی جو انہوں نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مولوی عمر نے کسی نامعلوم مقام سے بات کر تے ہوئے انھیںکہا تھاکہ چونکہ بینظیر کا قتل ایک سیاسی معاملہ ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس میں حکومت یا اس کی ایجنسیاں ملوث ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھٹو خاندان کے ساتھ کافی عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ، پہلے اس خاندان کے تین افراد ذولفقار علی بھٹو، شاہ نواز بھٹواور مرتضی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب بے نظیر کو ہلاک کیا گیا تو یہ وہی پرانی دوشمنی کا تسلسل ہے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلیے کیا گیا ہے۔ طالبان تحریک نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک کےلیے ایک بڑا سانحہ قرار دیا تھا اور لوگوں سے اپیل کی کہ مصبیت کی اس گھڑی میں صبر وتحمل سے کام لیں۔ اس سے پہلے مشرف حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کی خودکش حملے میں ہلاکت کے ذمہ دار قبائلی علاقوں میں طالبان کے کمانڈر بیت اللہ محسود ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ حملے کے لیے بیت اللہ محسود ذمہ دار تھے۔تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کےمطابق مشرف حکومت قبائلیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور انہیں کچلنے کے لیے اس قسم کے الزامات لگا رہی ہے۔ پہلے بھی حکومت نے یہ الزام لگایا کہ اسامہ بن لادن باجوڑ میں ہیں اور اب یہ الزام عائد کیا گیا ہے تو ان سب باتوں کا مقصد قبائلیوں کو بدنام کرنا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ اقوام متحدہ نے پاکستان کی درخواست پر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ سابق وزیر اعظم کی ہلاکت کے بعد کی جانے والی پہلی پریس کانفرنس میں اس وقت کی حکومت کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیا تھا۔ تاہم حکومت میں آنے کے بعد اس مطالبے کی قرارداد کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں منظور کیا گیا۔ ’اس تحقیق کی درخواست دینے کے بعد اس کمیشن کے مینڈیٹ اور حدود کے بارے میں پاکستان نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل فیصلہ کرے گی۔ اور اس درخواست کو لے کر کل کو پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جن کو اس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ سے تحقیق کی درخواست کے بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا گیا کہ نہ تو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اور نہ ہی پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان اس بات کے حق میں تھے کہ اقوام متحدہ سے تحقیقات کرائی جائیں کیونکہ پاکستان کی حساس تنصیبات تک کی رسائی مانگی جا سکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سے تحقیقات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین و قانون دانوں کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی درخواست دینے کے بعد اس کمیشن کے مینڈیٹ اور حدود کے بارے میں پاکستان نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل فیصلہ کرے گی۔ اور اس درخواست کو لے کر کل کو پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جن کو اس وقت نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جب حکومت یہ کہے گی کہ القائدہ کا ہاتھ ہے یا طالبان کا لیکن اس کا تعین اقوام متحدہ کا کمیشن کرے گا تو کیا وہ ان علاقوں میں نہیں جائیں گے اور کیا وہ سکیورٹی اہلکاروں کو انٹرویو نہیں کریں گے جو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ملوث ہیں۔بعض کا کہنا تھا کہ پاکستان حکومت سکیورٹی کونسل کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ ان کے قائم کردہ کمیشن کو کیا اختیارات ہوں گے اور کیا نہیں۔ ’ایک بار درخواست دے دی اور اس پر سکیورٹی کونسل کمیشن تشکیل دے دیتا ہے تو پاکستان کا کردار اس کمیشن کے مینڈیٹ کے بارے میں ختم ہو جائے گا۔ اس کمیشن کا مینڈیٹ سکیورٹی کونسل وضح کرے گی اور اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اگر ابتدائی مرحلے میں اقوام متحدہ مینڈیٹ محدود ہی رکھے لیکن جب چھ یا ایک سال بعد اس کمیشن کے کام میں توسیع کی جاتی اور اس وقت سکیورٹی کونسل اس کے مینڈیٹ کو وسیع کر دیتی تو پاکستان کیا کرتا۔ وزیر قانون فاروق نائیک نے بائیس مئی کو ایک پریس بریفنگ میں خود کہا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس وسائل نہیں کہ اتنی بڑی تحقیق کر سکیں، اس بات کو لے کر کل کو اقوام متحدہ کا کوئی رکن ملک کہہ سکتا ہے کہ چونکہ پاکستان خود ہی تسلیم کر چکا ہے کہ اس کی تحقیقاتی اور سکیورٹی فورسز کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اس لیے پاکستان میں اقوام متحدہ کی فورس پاکستان بھیجنی چاہیے جو کہ اس ملک میں قائم دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی تفتیش کر سکے۔اس وقت پاکستان دفاع میں کیا کہے گا؟ پاکستانی حکومت نے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے نام پر انسانی حقوق ایوارڈ کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق یہ ایوارڈ ہر سال انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دو تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے تین افراد کو دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے نام پر انسانی حقوق فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں ابتدائی طور ایک کروڑ روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔اس بات کا اعلان وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وزارت انسانی حقوق کی طرف سے مرحومہ بے نظیر بھٹو کو اقوام متحدہ کا ایوارڈ ملنے کے موقع پر ایک منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ ہر سال 27 دسمبر کو بےنظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر مختلف افراد کو انسانی حقوق ایوارڈ دیئے جائیں گے اور یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے افراد اور تنظیموں کے نام یوم آزادی یعنی 14 اگست کو بتائے جائیں گے۔ اس فنڈز سے ایسے افراد کی داد رسی کی جائے گی جن کے حقوق پامال کیے گئے ہوں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت جلد ہی انسانی حقوق کے بارے میں ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا۔ یہ کمیشن اپنی کارروائی کرنے میں مکمل آزاد ہوگا اور حکومت اس ادارے کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنے منشور کی روشنی میں انسانی حقوق کی وزارت قائم کی ہے۔ صوبائی اور ضلع کے سطح پر بھی انسانی حقوق کے بارے میں مانیٹرنگ کمیٹیاں بھی قائم کی جا رہی ہیں تاکہ ان علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جا سکے۔ مرحومہ بےنظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے ملنے والے ایوارڈ سے ہمارے عزم کو تقویت ملی ہے۔ بینظیر بھٹو چند عالمی رہنماوں میں سے ہے جنہیں یہ اعزاز ملا ہے ۔پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ان کی والدہ کے قتل کے بعد وہ اور ان کے والد آصف علی زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کی ?قیادت نہ سنبھالتے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا۔بلاول بھٹو زرداری نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں جنرل اسبملی کی طرف سے بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ دیے جانیوالے انسانی حقوق کا اعزاز وصول کرنے کے بعد ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہو ئے کہی۔ اقوام متحدہ میں یہ بریفنگ بلاول بھٹو سمیت انسانی حقوق کے اعزازات لینے والوں کیطرف سے منعقد کی گئی تھی جن میں امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک ، ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کییئنتھ روتھ بھی شریک تھے۔ اس سے قبل انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے کی ساٹھویں سالگرہ اور نسل کشی کیخلاف عالمی کنونشن کے دن یعنی دس دسبمر کو اقوام متحدہ میں ایک تقریب میں بلاول بھٹو زرداری نے بینظیر بھٹو کو جنرل اسبملی کی طرف سے دیا جانے والا اعزاز وصول کیا۔ یہ اعزاز بینظیر بھٹو کو بعد از مرگ انہیں ان کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات اور اداروں کو یہ اعزاز ہر پانچویں سال دیا جاتا ہے اور اب تک یہ اعزاز امریکہ میں شہری حقوق کے بڑے رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونئیر، سابق امریکی صدر جمی کارٹر، نیلسن منڈیلا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ میں پریس بریفنگ میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک صفحہ اپنی والدہ کی خود نوشت سوانح عمری سے پڑہ کر سنایا اور کئی سوالات کے جوابات دیے۔ یورپ، امریکہ، مشرق وسطی اور دنیا کے دوسرے خطوں میں شاید ہی کوئی بڑا اخبار ہو جس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر کو شہ سرخی میں شائع نہ کیا ہو۔جتنی بڑی یہ خبر ہے اتنی ہی زیادہ اسے کوریج دی گئی ۔ بے نظیر کے قتل کی تفصیلی رپورٹ، تعزیتی نوٹ، ان کی موت سے پاکستان، خطے اور عالمی سیاست میں پیدا ہونے والا خلاء، پیپلزپارٹی کی قیادت اب کون سنبھالے گا، اداریے، تبصرے، تصاویر، سب ہی کچھ اخبارات نے شائع کیا ہے۔ سب ہی اخبارات نے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔برطانوی اخبار گارڈین نے پہلے سات صفحات اسی خبر کے لیے مختص کئے۔ پہلے صفحہ پر خبر کو اس تصویر کے ساتھ شائع کیاگیا ہے جس میں بے نظیر بھٹو اپنی کار کی چھت سے نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہی ہیں۔ اخبار نے ان کے مشتبہ قاتلوں کے بارے میں تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ کئی گروہ بے نظیر کی جان کے درپے ہوسکتے ہیں مگر اصل قاتلوں کا پتہ شاید ہی چل سکے۔ اسی طرح کے شک و شبہ کا اظہار دوسرے اخباروں نے بھی کیا ۔ دی انڈیپنڈنٹ نے اپنے پہلے صفحے پر صرف ایک تصویر شائع کی جس میں پیپلزپارٹی کے غمزدہ کارکن اپنی قائد کے تابوت کو اٹھائے ہوئے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ سرخی ہے، پاکستان کے لیے اب کیا؟ اخبار لکھتا ہے کہ ایک موہوم سے امید تھی مگر اب وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ انڈیپنڈنٹ میں شائع ایک مضمون کی سرخی ہے۔۔۔ پریشان واشنگٹن ایک بار پھر ناقابل اعتبار مشرف کی گود میں آگیا۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی کا حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسی طرح دی ٹائمز لکھتا ہے کہ بے نظیر کے قتل نے پاکستان کو بحران اور افراتفری کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون نے تبصرہ کرتے لکھا ہے کہ بے نظیر کی ہلاکت سے صدر مشرف کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بے نظیر کے قتل سے بش انتظامیہ کی وہ کوششیں خاک میں مل گئی ہیں جو وہ پاکستان کے منقسم سیاسی دھڑوں کو یکجا کرنے کے لیے کر رہی تھی۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس سانحے سے صدر بش کی دو کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایک مسلم دنیا میں جمہوریت کا فروغ اور مسلم شدت پسندوں کی بیخ کنی۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ پاکستان کے جمہوریت کی راہ پر آنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں جو امریکہ کے لیے پہلے سے زیادہ فکر کی بات ہے۔ یواے ای کے اخبار خلیج ٹائمز نے اپنے ادارے میں لکھا ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعد نہ صرف پاکستان میں افراتفری بڑھ گئی ہے بلکہ اس سے نفرت کی ایک نئی لہر کے جنم لینے کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور قومی اور بین الاقوامی سیاست، سلامتی اور جمہوریت کا توازن بالکل بگڑ گیا ہے۔ کئی اخبارات نے بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے بارے میں ان لوگوں کے مضامین بھی شائع کیے جو کسی نہ کسی حیثیت میں بے نظیر سے ملے تھے۔ بہت سے اخبارات نے اپنے انٹر نیٹ شماروں میں بے نظیر کے قتل اور زندگی کے بارے میں آڈیو نشر جبکہ ویڈیو بھی ریلیز کیں۔پاکستان میں مختلف مکاتبِ فکر کے تمام اخبارات نے بھی گزشتہ سال اپنی اٹھائیس دسمبر کی اشاعت میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ۔اردو کے سرکردہ قومی اخبارات نے بینظیر بھٹو کو ’شہید‘ قرار دیتے ہوئے ان کی زندگی اور سیاسی کیریئر پر خصوصی ایڈیشن شائع کیے ۔ روزنامہ جنگ نے بینظیر بھٹو کی سیاسی اور خاندانی زندگی کی تصاویر پر مشتمل چار صفحات کا خصوصی شمارہ شائع کیا ۔ اخبار لکھتا ہے ’بھٹو خاندان کا ایک اور فرد سیاست کی جنگ میں زندگی کی بازی ہار گیا۔‘ روزنامہ خبریں اخبار کی شہ سرخی ہے ’دخترِ مشرق بینظیر بھٹو شہید‘ جبکہ اخبار نوائے وقت لکھتا ہے ’لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خودکش حملہ اور فائرنگ، بینظیر شہید‘۔نوائے وقت نے اپنے اداریے میں بینظیر بھٹو کے قتل کو ایک قومی سانحہ قرار دیا ہے اور ایک خصوصی سپلیمنٹ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ’روشن منزلوں کی راہیں موت کی تاریکی میں کھو گئیں، بینظیر بھٹو کو بھی بارود نے نگل لیا۔‘ انگریزی روزنامہ ڈان کی شہ سرخی ہے ’گڑھی خدا بخش کو ایک اور بھٹو کا انتظار‘۔ خلاف معمول صفحہ اوّل پر شائع کیے گئے اپنے اداریے میں ڈان لکھتا ہے کہ بینظیر بھٹو کی ہلاکت سے پاکستان اپنی ایک بہترین بیٹی سے محروم ہوگیا ہے اور بینظیر کے بغیر پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اب کبھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ روشن منزلوں کی راہیں موت کی تاریکی میں کھو گئیں، بینظیر بھٹو کو بھی بارود نے نگل لیا۔نوائے وقت ۔اردو روزنامہ ایکسپریس کی شہ سرخی ہے ’بینظیر تیس جانثاروں سمیت شہید، ملک سوگ کے اندھیرے میں ڈوب گیا‘۔انگریزی اخبار دی نیوز نے صفحہ اوّل پر بینظیر بھٹو کی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ تصویر شائع کی ہے جبکہ اخبار ڈیلی ٹائمز نے اپنے صفحہ اّول کو سیاہ رنگ میں ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر کے عکس میں شائع کیا ہے اور اس کی شہ سرخی ہے ’دخترِ مشرق قتل‘۔ اخبار نے بینظیر بھٹو کی تصویر بھی شائع کی تصویر کے نیچے اخبار نے بینظیر بھٹو کے خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ تعزیتی پیغام شائع کیا ہے۔ اخبارات نے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کے آخری خطاب کے اقتباسات شائع کیے اور قتل کے بعد ملک گیر مظاہروں اور جلاو گھیراو کی تفصیلات تصاویر سمیت شائع کیں۔کئی ایک اخبارات کے مطابق دم توڑنے سے پہلے بینظیر بھٹو کے منہ سے نکلنے والا آخری لفظ ’اللہ‘ تھا۔وہ چھوٹی سی بچی جس نے المرتضی لاڑکانہ میں اپنے باپ کے ہاتھوں بندوق سے فائر کرکے درخت پر سے ایک طوطے کو مارنے پر دو دن تک کھانا نہیں کھایا تھا وہ قتل ہوگئی۔’پنکی، بے بی، سر، بی بی، محترمہ، وزیر اعظم، بینظیر آخرکار اس خدشے کے سچ ہونے کا نشانہ بنی جس کا اظہار وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک کرتی رہی تھی یعنی کہ مشرف حکومت کی مجرمانہ غفلت اس کے شریک جرم ہوکر اپنے قتل ہوجانے کا وہی خدشے۔اپنے قتل سے صرف چند روز قبل اپنی ایک ای میل میں انہوں نے امریکہ میں اپنے دوست مارک سیگل کو لکھا: ’اگر میں قتل ہوجاوں تو اس کا ذمہ دار صدر پرویز مشرف کو سمجھا جائے کہ میرے مانگنے پر بھی انہوں نے مطلوبہ سیکیورٹی آلات مہیا نہیں کیے‘ یہ بات مارک سیگل سی این این پر کہہ رہے تھے۔ اسے القائدہ یا طالبان نے مارا یا پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے لیکن راولپنڈی سے ہمیشہ مقبول لیڈروں کی لاشیں پاکستان کے عوام کو بھیجی گئی ہیں۔وہ ایسے قتل ہوئی ہیں جسے پاکستان میں پاپولر بھٹو قتل ہوتے ہیں۔ جیسے انڈیا میں اندرا گاندھی قتل ہوئیں۔ جیسے امریکہ میں کینیڈی اور یونانی المیائی کرداروں کا انجام۔ میں بینظیر سر شاہنواز بھٹو کی اس بیٹی کا نام تھا جو وہ جوانی میں ہی جونا گڑھ میں بیماری میں فوت ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بڑی بیٹی کا نام اپنی اس چہیتی بہن کے نام پر رکھا تھا۔ سب سے پہلے بینظیر بھٹو اسوقت عام لوگوں کی نظر میں آئی تھیں جب وہ اپنے والد وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ مذاکرات کو جانیوالے وفد میں شامل تھیں۔ اگر کچھ شاعر آنیوالے دنوں کو دیکھ سکتے ہیں تو رئیس امروہی نے بینظیر بھٹو کا مقام تاریخ میں جولائی انیس سو باہہتر میں دیکھ لیا تھا جب مقتول شاعر رئیس امروہی نے قطعہ لکھا تھا: 'شملہ مذاکرات تھے تاریخ گیر بھیپر عزم اور عظیم بھی لیکن حقیر بھیآراستہ تھی محفل صدر و وزیر بھیتاریخ کی نگاہ میں تھی بینظیر بھی-' ایک بے فکر لیکن سنجیدہ اور بلیوں سے پیار کرنے والی بینظیر بھٹو کی زندگی کے اسٹیشن پر دکھوں اور حادثوں سے بھری ٹرین اسوقت داخل ہوتی ہے جب وہ جولائی انیس سو ستتر کی گرمیوں کی چھٹیوں پر تھیں اور انکے والد ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ ان کے ہی ترقی دیے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاءالحق نے الٹ دیا۔ اس دن سے لےکر وہ ’بقول شحضے‘ ریل کی پٹریوں پر ہاتھ پاوں باندہ کر پھینکی جانیوالی ہیروئین تھی اور ہر وقت کا صدر اور چیف آف دی آرمی اسٹاف ایک ولن! ضیاءالحق سے جنرل پرویز مشرف تک آخری دم تک یہی کہانی رہی۔ شاہ لطیف بھٹائی نے کہا تھا ’سامائی تاں سکھ ویا‘ (وہ جب جوان ہوئی تو اسکے سکھ چلے گئے) اور یہی کچھ بینظیر بھٹو کےساتھ ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی ضیاءحکومت کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر قتل کے مقدمے کے خلاف سندھ میں ان کے احتجاجی دورے کے دوران ہالا کے قریب اسے گرفتار کرکے نظربند کردیا گا۔ پی پی پی کے جیالے تب اسے ’بے بی‘ کہتے۔ پہلے وہ ستر کلفٹن اور پھر سکھرجیل میں نظربند کی گئیں۔ سکھر جیل میں بھی انہیں قتل کرنےکی سازش کی گئی۔ جب سکھر جیل کے قیدیوں نے دیواروں پر چڑھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کی۔ستر کلفٹن کی دیواریں تھیں اور ان میں تنہا نظربند ۔انیس سو اناسی میں ضیاءالحق نے انہیں نظربندی سے رہا کیا اور انہوں نے بذریعہ خیبر میل کراچی سے لاڑکانہ کا سفر کیا جب تمام راستے ہزاروں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے چلتی ریل کی پٹریوں پر لیٹ گئے تھے۔ ہر طرف ماتم کرتے انسانی سر اور ہاتھ تھے۔ کالے سندھی اجرک اور کالے چشمے میں ریل کے ڈبے سے ہاتھ ہلاتی تقریر کرتی بینظیر۔ لاڑکانہ پہنچتے ہی فوج نے اسے پھرگرفتار کرلیا۔ جلاوطنی میں لندن جاتی ہوئی بینظیر اور عوام سے پریس کے ذریعے یہ وعدہ کہ میدان میں ملیں گے۔ اپنے جواں سال بھائی شاہنواز کی جنوبی فرانس سے لاش لیکر وطن لوٹتی ہوئی ٹوٹی پھوٹی بینظیر۔ اسے لاڑکانہ میں لاکھوں عوام کی طرف سے پذیرائی حاصل ہوئی۔ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے گاوں کے قریب بھی اس کی پیجارو جیپ پر حملہ کرکے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئی تھیں کہ دو انتظامی افسران نے انہیں پہلے سے ہی اس سازش سے آگاہ کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے روڈ کے ذریعے اپنا سفر منسوخ کردیا لیکن اپنی جیپ کو جانے دیا تھا جہاں اسی جگہ ان کی جیپ پر حملہ ہوا تھا۔ پاکستانی قوم کی اس لیڈر کو پاکستان کے تمام کتوں نے گھیر گھار کر جلاوطنی سے واپس لاکر چیر پھاڑ دیا۔ جنرل مشرف طاقتور اور پاکستان کے عوام لاورث تھے کہ انہیں ہیلی کاپٹروں میں اپنی محبوب لیڈر کی لاش بھیح دی گئی ۔ کیا اسے ان جرنیلوں اور ملاوں نے ملکر مارا جو کہتے ہیں تیس روز کے بعد عورت کے بیٹھنے سے کرسی نجس ہوجاتی ہے؟ یا ان عالمی طاقتوں نے مارا جن کی ملک دشمن سازشوں اور نا پا ک عزئم کی تکمیل میں بے نظیر بھٹو ایک رکاوٹ تھیں۔بے نظیر بھٹو کی شہادت ملک دشمنوں کی فتح تھی۔ بے نظیر کے جانشین کئی ایک پیدا ہو جائیں لیکن ایک وژن اور ایک لیڈر بننے کیلئے ملک اور اس کے عوام کی بہتری کیلئے انتھک جدو جہد، اس راہ میں حا ئل رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقا بلہ کر نے وا لے اوصاف کے علاوہ خدا تعالی کی رحمت شامل حال جب تک نہ ہو۔لیڈر شپ نا مکمل رہتی ہے۔پا کستان کی مو جودہ صورتحال اور عنقریب مستقبل میں پاکستان کے عوام کو محسوس ہو گا کہ بے نظیر کے بعد پاکستان سیاسی طور پر یتیم ہو چکا ہے۔ اگر بے نظیر کی زند گی وفا کر تی تو پاکستان کی تا ر یخ مختلف ہو تی۔اے پی ایس
No comments:
Post a Comment