
کچھ ھی دن پہلے ایک سیاہ فام نے سپر پاور کی ساری پاور اپنے نام کر لی اور آتے ھی نامی گرامی کالے لوگوں کو اپنے ھمراہ بھی کر لیا ۔ اور یوں کئی ملکوں میں اندھیری راتوں کی سویر ھونے سے پہلے ان کے مقدر اور بھی سیاہ لگنے لگے ۔ سائل جتنے بھی ھوں ان کاحل ضررو ھوا کرتا ھے بس ھماری دیدہ وری کی پہنچ مہیں نہیں آتا یا پھر ھم ھی دوکوس منزلوں کو سو کوس دور سمجھ لیتے ھیں ۔ اور پھر ھماری ھی سوچ ھماری سیاہ راتوں کو اور بھی لمبی اور تاریک کر دیتی ھے ۔ تاریخ یہ بھی شہادت دیتی ھے کہ جن ملکوں کے لوگ جلد بیدار نہیں ھوتے ان پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ھیں جو اللہ بزرگ و برتر سے بھی نہیں ڈرتے ۔ اور پھر یہی تاریخ یہ بھی بتاتی ھے کہ ان ملکوں کی تاریخ بھی زندہ نہیں رھتی۔ آج پورے میڈیا میں باتیں ھورھی ھیں کہ کالیا خنانی گروپ کاچیف پکڑا گیا اور یوں اسے وہ ذلت اٹھانی پڑ رھی ھے جو اس نے کبھی کئی لوگوں کی قسمت کی ھو گی اور کئی لوگوں کی قسمت بنائی بھی ھو گی ۔ اور پھر یہی اعمال انسان کو دنیا ھی میں جنت اور جہنم کا سفر کرا دیتے ہیں ۔۔ شاید اسی کو مکافاتٍ عمل بھی کہتے ھیں ۔دوستو ! ایک بات بڑی عجیب ھے کہ ھم رنگ و نسل کی بات میں تعصب کی بات کرجاتے ھیں ۔ جیسا کہ گورے کالوں کے ساتھ کرتے آئے ھیں ۔ لیکن ھم میں سے کتنے ایسے لوگ ھیں جو کالے نہیں ھیں لیکن کالیا خنانی کے چیف جیسے ھیں ۔ جو ھر پروفیشن میں اپناکالا دھندہ کرتے ھیں ۔لیکن انہیں کوئی بھی رنگے ھاتھوں نہیں پکڑ پاتا ۔ ابھی اور بھی کئی کالیئے ھیں جنہیں آپ اور میں بہت اچھی طرح سے جانتے ھیں ۔ جیسے محکمہ صحت کی کڑی شرائط کے باوجود دواوں کی چوری کرنے والوں اور جعلی دوایئاں بنانے والوں کو کسی نے کبھی پکڑا ھے ۔کتنے انجنیئرز ھیں ؟ ۔جنہوں نے اپنے پراجیکٹز کو ایمانداری سے نبھایا ھو یا ان کی تعمیر کی ھوئی عمارتیں سالہا سال زندہ رھی ھوں ۔ اور جن کی بنائی ھوئی سڑکوں کی بد حالی کا نوحہ کسی دور میں نہ پڑھا گیا ھو ۔اب بات کرتے ھیں انصاف کی تو کیا یہاں کالا دھندا نہیں ھو رھا ؟ کیا کسی ملک کو یہ جائز ھے کہ ان کے وکیلوں کی آپس کی رنجش اور نا انصافی کی سزا معصوم لوگوں کو ملے اور وہ ایسے کہ بغیر مقدمے کے کئی مہینوں تک جیلوں میں قید رھیں ۔ اب بات کرتے ھیں قلم بیچنے والوں کی ، جس پر مجھے اپنے بابا (جناب صفدر ھمدانی ) کی بات بہت یاد آرھی ھے جو انہوں نے آج بھی کہی تھی “ کالیا کوئی کسی ایک شعبے میں نہیں۔ہر شعبہ زندگی میں ایک نہیں کئی کئی کالیے ہوتے ہیں۔ خود ہمارا صحافتی اور ادبی شعبہ بھی ایسے ایسے کالیوں سے بھرا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ ۔ یہ کالیئے اندر باہر سے کالیے ہیں۔ یہ لکھتے نہیں بلکہ قے کرتے ہیں۔ یہ وہ گدھ ہیں جو کسی کے شکار کو کھا کر زندہ ہیں اور جن کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیزنہیں۔ یہ اپنے ناموں کے متضاد ہیں۔ نام کا مطلب روشنی ہے لیکن قلم سے ،زبان سے اور ذہن سے بس تاریکی پیھلاتے ہیں۔ چوغہ صوفیا کا پہنتے ہیں اور کام فکر یزید والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی کے کیئے ہوئے کام کو اپنا نام دیتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور کسی کے گھر پر اپنی تختی لگا کر خوش ہوتے ہیں۔ یاوہ گوئی،پھکڑ پن اور سوقیانہ باتوں کو شعر گوئی کہتے ہیں۔ یہ ادب کے کالیئے اندر باہر سے کالے ہیں۔ ۔ یہ کالیئے وہ بالشتیے ہیں جو بانس پر لٹک کر اپنے کو قدآور بنا لیتے ہیں“ ۔ گزشتہ روز علامہ اقبال کاایک سو اکتیسواں یوم ٍ پیدایئش منا یا گیا ۔۔ اور میں اسں دن کو یومٍ پاکستان کانام بھی دیتی ھوں کہ انہوں نے ھی سب سے پہلے یہ خواب ظلم سہتے انسانوں کو امید کی طرح ھاتھوں میں دیا تھا ۔۔ اس وقت انہیں بھی کہاں معلوم تھا کہ پاکستان اپنے وجود سے لے کر آج تک کئی کالیوں کے ھاتھوں یرغمال بنا رھے گا ۔۔ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ھے بڑی مشکل سے ھوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا دوستو! جس ملک میں اتنے کالیئے ھوں وھاں سویر کیسے ھو ۔۔؟؟ھماری سویر کیسے ھو ۔۔؟
No comments:
Post a Comment