Sunday, November 9, 2008

نقش ثا نی" مجموعہ کلام کے شاعر۔۔۔۔۔ اطہر قیوم راجہ شاعر امروز فردا ۔تحریر: چو دھری احسن پریمی






اطہر قیوم راجہ کا تعلق ایک ایسے پہاڑی علاقے سے ہے جسے قدرت نے تمام تر حسن تو عطا کیا ہے مگر دنیاوی دولت سے محروم کر رکھا ہے۔یہاں لوگوں کو اللہ تعالی نے شاید فطرت کی نگہبانی کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔بقول اقبال
فطرت کے مقا صد کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کو ہستانی
اطہر قیوم راجہ کا تعلق اسی سلسلہ کوہستان کہوٹہ سے ہے اطہر قیوم راجہ راولپنڈی کی قدیم درسگاہ گورنمنٹ کالج اصغر مال کے فارغ التحصیل ہیں۔راجہ قیوم نے اسی درسگاہ سے بی ایس سیکیا۔اور بعد ازاں انگلش اور اردو میں ایم اے کیا کچھ عرصہ بعد انھوں نے اقبالیات میں ایم فل کیا۔ راجہ اطہر قیوم جو اس وقت ڈائریکٹر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں۔اس حوالےسے مر تضی بر لاس کا شعر یا د آ جا تا ہے
شاعروں میں افسر ہوں افسروں میں شاعر ہوں
اس حوالے سے میرے اپنے ایک بزرگ خوشی محمد نا ظر مر حوم جو ہری سنگھ کے دور حکومت میں ان کی کیبنٹ میں واحد مسلمان وزیر تعلیم تھے جو بعد ازاں کشمیرکے پہلے گور نر جنرل بھیتعینات رہے۔ ان کی قبر میرے آبائی علاقہ گجرات کے نواحی گا ئوں ہر یہ والا میں ہے۔ان کا بھی اہل قلم میں شمار ہوتا ہے ان کی ایک نظم "جوگی" جو کہ بعد ازاں ہمارے اردو کے نصاب میں بھی پڑھائی جا تی رہی۔ راجہ صاحب کا چو نکہ پہا ڑی علاقہ سے تعلق ہے خوشی محمد نا ظر کی نظم جو گی کا ایک مصر عہ ہے
جوگی اتر پہا ڑوں آ یا
جوگی،فقیر، قلندر،درویش اگر چہ نام مختلف ہیں لیکن تمام کے او صاف یکساں ہیں۔جس طرح اطہر قیوم راجہ کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ وہ ایک افسر ہیںاور بیورو کر یسی کا حصہ ہیں اسی طرح انھیں یہ بھی معلوم نہیںکہ ان کا فقر میں کیا بلند مر تبہ ہے۔بہر حال یہ ان کا کام نہیں کیو نکہ وہ آنکھ کسی کے پاس نہیں جو اپنے آپ کو دیکھ سکے۔ اللہ تعالی نے درویش کے بلند مر تبہ کا پیما نہ اس کی عا جزی میں رکھا ہے اور وہ عا جزی جسے خدا تعالی پسند فرما تا ہے وہ عاجزی اطہر قیوم راجہ میں قدرت کی طرف سے کو ٹ کو ٹ کر بھری ہو ئی ہے۔اطہر قیوم راجہ کا تازہ کلام نقش ثانی کی اشاعت سے قبل ان کا مجموعہ کلام نقش امروز جنوری1996 میں منظر عام آیا تھا جو چند ماہ قبل کے عرصے میں کسی تشہیری مہم کے بغیر ہی ختم ہوگیا تھا اور اس وقت اس کتاب کا ایک نسخہ بھی ما رکیٹ میں دستیات نہیں جبکہ ان کا دوسرا اور حالیہ مجموعہ کلام نقش ثانی پہلے سے بھی ز یا دہ مقبول ہوا ہے۔اور اس کی پذیرائی بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہے۔ کیونکہ اب دنیا میں اس فکری اور تہذیبی نظریے کے ساتھ وابستگی کا احیا ءہو رہا ہے۔جو مذکورہ مجموعے کے شاعر کے جذبے اور فکرکا محور ہے۔اس فکر اور جذبے کا اظہار شاعرکے ایک ایک شعر میں جس حسن اور سلوک کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہر پڑھنے والے کو اپنے دل کی د ھڑکنوں میں سرایت کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔شاعر کی ذہنی تر بیت،جدو جہد اورجہت کو سمجھنے کیلئے اس کے ما حول کا تذکرہ ضروری ہے۔ کیونکہ فن اور فکرکے سوتوں ہی سے اپنا آب و رنگ حاصل کرتے ہیں۔اطہر قیوم راجہ کا جس علاقے سے تعلق ہے اس کے گردو پیش میں دور دور تک مناظر فطرت کی رنگا رنگ دل آویزیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ جو پہا ڑوں، آبشاروں، گھنی شاخسا روںمیں ڈوب کر گزرتی ہوئی د ھندلی پگڈ نڈیوں،تختہ بہ تختہ لہلاتے ہوئے پھلوں کے متعلق با غات اور حد نظر تک سبزا و گل، ان سب پر کیف منا ظر کا اثر اطہر قیوم راجہ کی شا عری میں بدرجہ اتم مو جود ہے۔ جس سے اس کتاب کے قا رئین لطف اندوز ہو رہے ہیں۔اطہر قیوم راجہ کی شخصیت اور فن کے لحاظ سے سادہ دل،حلیم الطبع، فقیر منش، اور حساس شخص ہیں۔ جن کا فقیری اثا ثہ خواب اور خواہش کے سوا کچھ اور نہیں اور یہ ان کی شا عری کی اساس ہے۔لہکن گمان غالب ہے کہ یہ راز ابھی تک اطہر قیوم راجہ پر بھی نہیں کھلا جبکہ یہ چو نکا دینے والی بات ان کی شا عری میں جا بجا دکھا ئی دیتی ہے۔ محکمہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر فا ئز ہیں۔ محکمہ کے ہوم پبلسٹی کا شعبہ ان کے قبضے میں ہے۔ان کے فرائض منصبی میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کر کے دکھا نا سب سے اہم کام ہے مگر را جہ صا حب کیلئے یہی سب سے مشکل کام ہے چنا نچہ ان کے اعلی حکام اکثر ان سے نا راض رہتے ہیں۔ اصل میں ان کے محکمے کی بھی کچھ مجبو ریاں ہیں۔ان کا پا لا بھی کچھ ایسے لو گوں سے رہتا ہے جن کے با رے میں شو کت تھا نوی نے کہا تھا ۔
لو گو مجھے سلام کرو میں وزیر ہوں
سلامی کا یہ مرض ہمارے ہاں بہت پرانا ہے آج تک اس کی کو ئی مجرب دوا ایجاد نہیں ہوسکی۔ بلکہ اب تو یہ مرض اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ بقول شاعر


مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی
اپنے اس بیان کی تصدیق میں را جہ صا حب کے مجموعہ میں شامل ان کا ایک قطعے سے کروں گا ۔ جس کا عنوان ہے۔انفارمیشن گروپ خبر چھا پنا تو کو ئی فن نہیں ہے حقیقت میں فن ہے خبر کو چھپانافسانوں کی ہم تو بنا دینگے خبریںبنا ئیں گے پھر ہرخبر کا فسانہراجہ صاحب فسا نہ عجائب کی طرز پر کتاب تو لکھ سکتے ہیں مگر خبر کا افسانہ بنا نا ان کے بس کا کام نہیں۔فقیر منش،سادہ مزاج اطہر قیوم راجہ کی کیا خبر لیں گے خبر لینا شاید انہی کے محکمے کی ایجاد ہے مگر وہ خبر دیتے ضرور ہیں لیتے نہیں۔سول سروس میں شمولیت کے بعد ٹریننگ کے دوران مسا ئل کے ساتھ ساتھ راجہ صا حب کی مشق شخص بد ستور جاری رہی۔سول سروس اکیڈمی میں قیام کے دوران انھوں نے زیر تر بیت افسران جو مختلف گروپوں سے تعلق رکھتے تھے کو بھی تختہ مشق بنا یا ان دنوں مشہور ادا کارہ انجمن کی ایک انکم ٹیکس افسر سے شادی کا بڑا چر چا تھا۔یہ افسر را جہ صا حب کا بیج میٹ تھا۔ ملا حظہ ہو
ا نکم ٹیکس
ٹیکسوں کا بو جھ کھا گیا فرخ کی صحت کو
پر ٹیکس تر مذی کو بڑے راس آگئے
اتنی سنائیں تو نے حکایات انجمن
بھو لے سے ہم کبھی جو ترے پاس آگئے

پوسٹل سروس کے زیر تر بیت افسران سے را جہ صا حب کچھ یوں مخا طب ہیں
۔خط زندگی میں ایک ملا اپنے وقت پر
گو مد توں سے آنکھ ہے رہ پر لگی ہوئی
شہناز و کوثر و شہ عرفاں کے سا تھ سا تھ
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہو ئی

اطہر قیوم راجہ کا شعف شعر بہت داد طلب ہے۔کیونکہ تخلیق شعر میں اطہر قیوم راجہ جہاں ذات کے خلوت کدے کی غواصی کرتے ہیں وہاں وہ معروض کی صدا قتوں اور معاشرے کی رویوں سے برابر راابطہ رکھتے ہیں۔ان کے ہاں ایک درد مند شا عر اور صا حب نظر شاعر با ہم دگر متحد ہو کر سا منے آتے ہیں۔ ان کے مطا بق کلا سیکیت اور روایت اطہر قیوم راجہ کے مزاج سے بھی مر بو ط ہے۔مرزا غالب اور انگریزی کے شا عر جان ڈن ان کے پسندیدہ شا عر ہیں۔ڈن کی شاعری کا منطوم تر جمہ ہمیشہ سے ان کے خوابوں کا حصہ رہا ہے۔ان کا یہ خواب اب حقیقت کا روپ د ھار چکا ہے۔اور انہوں نےڈن کی کئی نظموں کاترجمہ بھی کر لیا ہے اگرچہ انہوں نے لفظی تر جمہ سے ماورا ہو نے کی کوشش کی ہے تاہم ڈن کی نظموں کو انہوں نے اردو کا خوبصورت لبادہ پہنا یا ہے۔جان ڈن کی ترجمہ شدہ چند نظموں کے اشعارملا حظہ ہوں
۔آزاد نظم
لو ٹا دو مجھ کو وہ میری آنکھیں
مجھے لو ٹا دوجو کتنی مدت سے ترے چرنوں میں رو رہی ہیں
تیری معیت میں میری آنکھوں نے
سیکھ لی ہے
وہی تصنع وہی بنا وٹ
وہ ساری جھوٹی تری لگاوٹ
کہ اب حقیقت کو دیکھنے کی
ان میں طاقت نہیں رہی ہے
سو ان کو تم اپنے پاس رکھ لو
مجھ کو لو ٹا دو پھر سے میرا
وہ سیدھا سادا
وہ بھو لا بھا لا
وہ دل ہمارا
کبھی بھی جس پہ سو چوں
کا رنگ غالب نہ آسکا تھا

"نقش ثانی" میں اطہر قیوم کے ذہن رسائے مشرق اور مغرب دونوں کا بھر پور سفر کیا ہے۔اور اس سفرکیا ہے اور اس سفرنامے کو نادر کو راجہ صاحب نے بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ مثلاجان ڈن کی ایک اور نظم پیغام
تم اس سے پہلے ہی ختم کردو
اس سے پہلے کہ سو گوار اختتامی بوسہ
ہماری روحوں کو چاٹ لے اور
ہمارے جسموں کو پھونک کو ڈالے
ختم کردوتم اپنے سائے کو اس طرف اور میں اپنے
سائے کو اس طرف
کچھ ایسے پھیریں
اور اس طرح اپنی زندگی کےحسین تریں دن کو
ایک اندھیری مہیب شب کے حوالے کر دیں
ہمیں محبت کے راستے میں
کوئی اجازت کہاں طلب تھی
کہاں طلب ہے وہ موت ہم کو
بچھڑ کے جا نے کو کیسے کہہ
ہم ایسی ارزاں اجل کو پائیں
چلے بھی جائو
میں اس سے آسان موت پائوں
مگر اگر یہ لفظ مہیب تم سے
تمہاری جان پہلے لے چکا ہے
تو ایک قا تل کی منصفانہ سزا یہی ہے
کہ موت کو وہ گلے لگائے
مگر مجھے دیر ہو چکی ہے
قضا کو اپنے گلے لگانے میں
کہ میں تو دو بارہ مر چکا ہوں

اپنے بارے میں اطہر قیوم راجہ کا ایک قطعہ ملا حظہ ہو
۔میں شاعر مد ہوش ہوں دیوانہ نہیں ہوں
حا لات کی رفتار سے بیگانہ نہیں ہوں
پہچان مرے ظرف کی نسبت سے ہے میری
جو بھر کے چھلک اٹھے وہ پیمانہ نہیں ہوں
قلندر صفت اطہر قیوم راجہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ دوستوں کے دوست تو ہیں ہی مگر زندگی میں انہیں جس کسی نے دکھ دیا یا اس کے لئے بھی ان کے دل میں کبھی بد خواہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے حق میں دعا ہی کی۔
جس نے مجھے تباہ کیا اس کی خیر
ہو
وا ماندہ کیا اس کی خیر ہو
ہم سے شکست عہدہ وفا کس طرح کیا
غیروں سے کیا نباہ کہیں اس کی خیر ہو
میری وفا کو دیتا رہا کس قدر فری
ب
در ماندہ راہ راہ کیا اس کی خیر ہو


شعر کو قوت بیان ندرت اظہار اور خصوصا اظہار کے ذاتی قرینے اور شاعر کے اپنے لہجے کی حاجت اور محاورہ کی درستی کے ساتھ ساتھ زبان کے خلاقانہ استعمال سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ شاعر اپنے حوالے سےمزید تازہ لب و لہجہ تشکیل دے سکے۔ اطہر قیوم راجہ کے مجموعہ کلام کے مطالعہ کے بعد کے بعد یہ واضح ہے کہ شاعری کے جدید رحجانات سے وہ غافل نہیں ہیں۔ان کی شاعری اردو ادب میں حسین اضافہ ہے
۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

کا لا دھن، کا لا قانون اور کا لا راج؟ ۔تحریر:نگہت نسیم سڈنی




کچھ ھی دن پہلے ایک سیاہ فام نے سپر پاور کی ساری پاور اپنے نام کر لی اور آتے ھی نامی گرامی کالے لوگوں کو اپنے ھمراہ بھی کر لیا ۔ اور یوں کئی ملکوں میں اندھیری راتوں کی سویر ھونے سے پہلے ان کے مقدر اور بھی سیاہ لگنے لگے ۔ سائل جتنے بھی ھوں ان کاحل ضررو ھوا کرتا ھے بس ھماری دیدہ وری کی پہنچ مہیں نہیں آتا یا پھر ھم ھی دوکوس منزلوں کو سو کوس دور سمجھ لیتے ھیں ۔ اور پھر ھماری ھی سوچ ھماری سیاہ راتوں کو اور بھی لمبی اور تاریک کر دیتی ھے ۔ تاریخ یہ بھی شہادت دیتی ھے کہ جن ملکوں کے لوگ جلد بیدار نہیں ھوتے ان پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ھیں جو اللہ بزرگ و برتر سے بھی نہیں ڈرتے ۔ اور پھر یہی تاریخ یہ بھی بتاتی ھے کہ ان ملکوں کی تاریخ بھی زندہ نہیں رھتی۔ آج پورے میڈیا میں باتیں ھورھی ھیں کہ کالیا خنانی گروپ کاچیف پکڑا گیا اور یوں اسے وہ ذلت اٹھانی پڑ رھی ھے جو اس نے کبھی کئی لوگوں کی قسمت کی ھو گی اور کئی لوگوں کی قسمت بنائی بھی ھو گی ۔ اور پھر یہی اعمال انسان کو دنیا ھی میں جنت اور جہنم کا سفر کرا دیتے ہیں ۔۔ شاید اسی کو مکافاتٍ عمل بھی کہتے ھیں ۔دوستو ! ایک بات بڑی عجیب ھے کہ ھم رنگ و نسل کی بات میں تعصب کی بات کرجاتے ھیں ۔ جیسا کہ گورے کالوں کے ساتھ کرتے آئے ھیں ۔ لیکن ھم میں سے کتنے ایسے لوگ ھیں جو کالے نہیں ھیں لیکن کالیا خنانی کے چیف جیسے ھیں ۔ جو ھر پروفیشن میں اپناکالا دھندہ کرتے ھیں ۔لیکن انہیں کوئی بھی رنگے ھاتھوں نہیں پکڑ پاتا ۔ ابھی اور بھی کئی کالیئے ھیں جنہیں آپ اور میں بہت اچھی طرح سے جانتے ھیں ۔ جیسے محکمہ صحت کی کڑی شرائط کے باوجود دواوں کی چوری کرنے والوں اور جعلی دوایئاں بنانے والوں کو کسی نے کبھی پکڑا ھے ۔کتنے انجنیئرز ھیں ؟ ۔جنہوں نے اپنے پراجیکٹز کو ایمانداری سے نبھایا ھو یا ان کی تعمیر کی ھوئی عمارتیں سالہا سال زندہ رھی ھوں ۔ اور جن کی بنائی ھوئی سڑکوں کی بد حالی کا نوحہ کسی دور میں نہ پڑھا گیا ھو ۔اب بات کرتے ھیں انصاف کی تو کیا یہاں کالا دھندا نہیں ھو رھا ؟ کیا کسی ملک کو یہ جائز ھے کہ ان کے وکیلوں کی آپس کی رنجش اور نا انصافی کی سزا معصوم لوگوں کو ملے اور وہ ایسے کہ بغیر مقدمے کے کئی مہینوں تک جیلوں میں قید رھیں ۔ اب بات کرتے ھیں قلم بیچنے والوں کی ، جس پر مجھے اپنے بابا (جناب صفدر ھمدانی ) کی بات بہت یاد آرھی ھے جو انہوں نے آج بھی کہی تھی “ کالیا کوئی کسی ایک شعبے میں نہیں۔ہر شعبہ زندگی میں ایک نہیں کئی کئی کالیے ہوتے ہیں۔ خود ہمارا صحافتی اور ادبی شعبہ بھی ایسے ایسے کالیوں سے بھرا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ ۔ یہ کالیئے اندر باہر سے کالیے ہیں۔ یہ لکھتے نہیں بلکہ قے کرتے ہیں۔ یہ وہ گدھ ہیں جو کسی کے شکار کو کھا کر زندہ ہیں اور جن کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیزنہیں۔ یہ اپنے ناموں کے متضاد ہیں۔ نام کا مطلب روشنی ہے لیکن قلم سے ،زبان سے اور ذہن سے بس تاریکی پیھلاتے ہیں۔ چوغہ صوفیا کا پہنتے ہیں اور کام فکر یزید والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی کے کیئے ہوئے کام کو اپنا نام دیتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور کسی کے گھر پر اپنی تختی لگا کر خوش ہوتے ہیں۔ یاوہ گوئی،پھکڑ پن اور سوقیانہ باتوں کو شعر گوئی کہتے ہیں۔ یہ ادب کے کالیئے اندر باہر سے کالے ہیں۔ ۔ یہ کالیئے وہ بالشتیے ہیں جو بانس پر لٹک کر اپنے کو قدآور بنا لیتے ہیں“ ۔ گزشتہ روز علامہ اقبال کاایک سو اکتیسواں یوم ٍ پیدایئش منا یا گیا ۔۔ اور میں اسں دن کو یومٍ پاکستان کانام بھی دیتی ھوں کہ انہوں نے ھی سب سے پہلے یہ خواب ظلم سہتے انسانوں کو امید کی طرح ھاتھوں میں دیا تھا ۔۔ اس وقت انہیں بھی کہاں معلوم تھا کہ پاکستان اپنے وجود سے لے کر آج تک کئی کالیوں کے ھاتھوں یرغمال بنا رھے گا ۔۔ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ھے بڑی مشکل سے ھوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا دوستو! جس ملک میں اتنے کالیئے ھوں وھاں سویر کیسے ھو ۔۔؟؟ھماری سویر کیسے ھو ۔۔؟